یہ تو ایک طے شدہ بات ہے کہ حکمران عوامی فلاح کا جو بھی منصوبہ بناتے ہیں اس میں ان کی اپنی کوئی غرض ضرور شامل ہوتی ہے۔ برصغیر میں بادشاہوں نے جتنی بھی سڑکیں تعمیر کروائیں ان کامقصد بھی کوئی عوام کو سہولت دینا تو نہیں تھا وہ سڑکیں تو بادشاہوں نے اس لیے بنائی تھیں تاکہ وہ اپنے اقتدار کو مستحکم رکھ سکیں اور کسی بھی شورش کو کچلنے کے لئے تیزی سے اپنی فوجوں کو حرکت میں لا سکیں۔اسی طرح برطانوی دور میں ہم نے اس خطے میں مواصلات کے نظام میں بہت ترقی دیکھی۔ہم مثال دیتے ہیں کہ انگریز اگر برصغیر پر قبضہ نہ کرتے تو یہاں عوام کو ریل کی سہولت میسر نہ آتی۔حقیقت تو یہی ہے کہ ریلوے لائن برصغیر میں عوام کی سہولت کے لئے نہیں برطانوی فوج کی نقل وحرکت آسان بنانے کے لئے تعمیر کی گئی تھی اور خودہمارے ملتان میں بھی جب ٹرین آئی تو سب سے معتبر ریلوے سٹیشن ملتان چھاؤنی کا ہی قرار پایا جو شہر سے تو آج بھی دور ہے۔ہوائی جہاز بھی ملتان میں فوجی مقاصد کے لئے اتارے گئے اور اس کے لیے ایک چھوٹا سا ہوائی اڈہ برطانوی دور میں ہی تعمیر ہوگیا تھا جو اَب انٹرنیشنل ایئرپورٹ کی صورت اختیار کر چکا ہے۔
ہمارے لیے تو اہم بات تو یہی ہے کہ لوگ اب اونٹوں،بیل گاڑیوں ،تانگوں ،رکشوں کے دور سے آگے نکل آئے ہیں۔جن راستوں پر ہمارے آباﺅاجداد پیدل یا بیل گاڑیوں پر سفر کرتے تھے انہی رستوں پر ہمیں اب میٹرو بھاگتی دوڑتی دکھائی دیتی ہے اور یہ تخت لاہور کی نہیں تخت ملتان کی میٹرو ہے ۔ کیا ہوا اگر اسے تخت لاہور والوں نے تعمیر کرایا۔ ہے تو یہ ملتان کی میٹرو۔ ہماری میٹرو ہے۔ہمارے لیے یہی بہت ہے کہ ہم میٹرو کے دور میں ہیں۔مانا کہ شہر فلائی اوورز ،شاہراہوں اور میٹرو جیسے منصوبوں کی وجہ سے نہیں پہچانے جاتے۔شہروں کی پہچان وہ ہستیاں ہوتی ہیں جو خوبصورت روایات قائم کرتی ہیں۔جو امن محبت اور رواداری کا درس دیتی ہیں۔اگرچہ ایسی ہستیوں کا اب کوئی پرسان حال نہیں۔اگرچہ ایسی ہستیوں کو ہم فراموش کرتے جارہے ہیں اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ایسی ہستیوں کو عزت و تکریم دینا کبھی بھی حکمرانوں کے ایجنڈے کاحصہ نہیں ہوتا لیکن ہمیں یہ توقع تو رکھنی چاہیے کہ میٹرو کے ساتھ ساتھ شعور کی ترقی کا سفر بھی تیزی سے آگے بڑھے گا اور جب ہم شعور کی منزلیں طے کریں گے تو پھر ہمیں یہ خیال بھی آئے گا کہ یہ جو کیڑے مکوڑے ہسپتالوں میں، کچہریوں میں اور چوراہوں پر ذلت آمیز سلوک کا شکار ہوتے ہیں ہمیں ان کی زندگیوں میں بھی آسانی پیدا کرنی چاہیے۔ان کے بچوں کو تعلیم اور صحت کی سہولتیں دینی چاہیں۔
اورجیسے میٹرو کے منصوبے کو حکمرانوں نے اپنے مفاد کے لئے ہی سہی ہر صورت مکمل کیا ہے اسی طرح صحت،تعلیم اور انصاف کی فراہمی کے وعدے بھی پورے کیے جائیں گے۔سو ملتان والو وسیب والو حکمرانوں سے تم اپنے حقوق چھین تو نہیں سکتے لیکن جو کچھ وہ تمہیں دیتے ہیں وہ تو ہنس کر قبول کر لیا کرو۔ تم کہتے ہو ملتان ٹی ہاوس پنجابیوں نے بنوایا ، زاہد سلیم گوندل نے بنوایا ۔ تو بھائیو انہوں نے ملتان ٹی ہاوس ملتان میں ہی بنوایا۔ انہیں کریڈٹ بے شک نہ دو لیکن صوبہ بننے سے پہلے ہی تمام سہولتیں حاصل کرنے میں بھلا کیا مضائقہ ہے۔
( بشکریہ : روزنامہ سب نیوز اسلام آباد )
فیس بک کمینٹ