ہر ادارے کا ایک وقار ہوتا ہے،ایک عزت ہوتی ہے،اسی طرح کسی بھی ادارے کے سربراہ یا معزز ممبر کے منصب کے کچھ اداراتی تقاضے ہونے کے ساتھ ساتھ ادارے کی Taboosہوتی ہیں جو ادارے اور معاشرے کی رسوم و روایات کا حصہ ہوتی ہیں جن سے اغماض ادارے سے وابستہ ممبر پر لازم ہوتا ہے،اگر اس سے غفلت برتی جائے تو تہذیبی سطح پر جو نقصان ہوتے ہیں وہ بہت دور رس ہوتے ہیں۔گویا کہ وہ نظام جو ایک شخص کو وسیع اختیار دیتا ہے اخلاقی طور پر اس پر کچھ پابندیاں بھی لاگو کرتا ہے،جن کے دائرے کو توڑ دینے سے ادارے کا ہی نہیں فرد کا وقار بھی مجروح ہوتا ہے۔
گزشتہ دنوں سپریم کورٹ کے ایک معزز جج نے بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے ایک کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیئے کہ ”پنجاب حکومت اقتدار کے نشے میں صوبے کو ملک سے الگ کرنا چاہتی ہے،لگتا ہے پنجاب میں مشرقی پاکستان والا سانحہ دہرانے کا منصوبہ ہے،لوگوں کو جمہوریت سے متنفر کیا جا رہا ہے۔“ اس کے ساتھ ہی معزز جسٹس نے یہ سوال کیا کہ”کیا جمہوریت سے متنفر کرکے آمریت کی راہ ہموار کی جا رہی ہے؟ آئین کے ساتھ کھیلا جارہا ہے،ساراملک برباد کردیا،آئین پر عمل اور عوام کی مرضی تسلیم نہ کر کے آدھا ملک گنوا دیا“۔ مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس کے نہ ہونے پر سخت لہجے کا اظہارکرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ”حکومت ملک چلانے کی اہل نہیں ہے یا فیصلے کرنے کی؟مشترکہ مفاد ات کونسل کا اجلاس کیوں موء خر کیا ہوا ہے؟“۔
اس اقتباس سے کہیں بھی یہ محسوس ہوتا ہے کہ یہ سپریم کورٹ کے ایک حاضر سروس جسٹس کی قانونی زبان ہے اورایک ایسے شخص کا لہجہ ہے جس کے اندر تعصب اور نفرت کوٹ کوٹ کر نہ بھری ہوئی ہو۔یہ ایک المناک کہانی ہے جو ہر بار ہماری قومی سلامتی کو لگائے گئے وہ زخم یاد دلاتی ہے جو جسٹس منیر کے قلم سے لگے اور جن سے جمہوریت کا سینہ ایسا چاک ہوا کہ بہتر سال بیت جانے کے باوجود جس کا لہو قطرہ قطرہ ٹپک رہا ہے اور ہر جمہوری دور میں اس ٹپ ٹپ سے دل میں ہول اٹھتے ہیں،وہ ہول جن کی کربناکی بیان کرنے کی سوچیں تو زبان لرز جاتی ہے،لکھنے کا ارادہ یا عزم کریں توقلم کانپ
جاتا ہے،ہمت جواب دے جاتی ہے اور حوصلے ٹوٹ جاتے ہیں۔
جسٹس منیر جیسے لوگ آخر کس کے پے رول پر ہوتے ہیں؟ اس سربستہ راز سے آخر پردہ اٹھ کیوں نہیں جاتا؟ شاید اس لئے کہ یہ دکھ سہتے سہتے ہماری ہمت جواب دے گئی ہے،ہم اپنے ٹوٹے ہوئے اعتبار اور چھینے ہوئے اعتماد کو کبھی بحال کر ہی نہیں سکے۔ہم میں سے قلم کا ہر مزدور ہر سال لا کھوں لفظ قرطاس پر بکھیرتا ہے،اپنی تحریروں کے شکم کی آگ بجھانے کے لئے کہاں کہاں سے اس کے رزق کو چنتا ہی اور کتنی بار اس لکھنے والے کی انگلیاں ہی زخمی نہیں ہوتیں بدن بھی ریزہ ریزہ ہوجاتا ہے۔لکھنے وا؛لے کی اس ریزگی کو کون سمجھتا اور محسوس کرتا ہے۔
کبھی کبھی یہ سوچ کردل دہل جاتا ہے کہ یہ چھوٹے،بڑے،سچے،جھوٹے فیصلے لکھنے والے کہاں کہاں سے لفظ چنتے ہونگے،کیسے لفظوں کی مالاؤں میں تعزیروں کے دانے پروتے ہوں گے اور یہ مالائیں جن گردنوں کی زینت بنتی ہوں گی ان میں سے کتنی گردنیں سچ مچ کی سزاوار ہوتی ہوں گی اور کتنی گردنیں بے قصور جھوٹی شہادتوں کی بھینٹ چڑھتی ہونگی۔؟
اس میں قطعاََ شک نہیں کہ ہماری حکومتیں شروع دن سے اداروں کو زیر نگیں کرنے اور فتح کرنے میں پرجوش رہتی ہیں، اتنی کہ انہیں اپنی چولیں ہلنے کا احساس بھی نہیں رہتا اور اقتدار کے ایوانوں کے باہر بیٹھے کرتب باز ڈگڈگی بجا کرانہیں نچاتے رہتے ہیں،یا پتلیاں بناکو دھاگے اپنے ہاتھ لے لیتے ہیں۔ یہ ہمارے نظام انصاف والے یاد داشتوں کا امتحان کیوں لیتے ہیں؟ انصاف کا ترازو ہاتھ میں آیا ہے تو یک طرفہ سیاسی دھڑوں کا وزن کرنے پر کیوں تل گئے ہیں،وہ یہ کیوں بھول جاتے ہیں آئینی دائرے سب سے زیادہ انہیں کی طرف سے توڑے گئے،انہیں یہ قلق ہے کہ ”ان کے کیس کو براہ راست میڈیا پر نشر کیوں نہیں کیا جاتا“؟اور ہم اس پر آج تک شرمندہ ہیں کہ 2014ء میں ہمارے نظام انصاف نے ”مشکوک شناخت والے ایک غیر ملکی کا حب الوطنی پر طویل
جوڈیشل لیکچر وڈیو پر نمٹا دیا گیا“۔
سیاستدانوں کو سیاست کرنے دیں اور حکمرانوں کو حکومت،کسی کے دائرے میں داخل ہوکر اپنے ادارے کے image کو خراب کرنے کی کوشش نہ کریں،آپ سیاست کے میدان کا شناور بننا پسند کرتے ہیں تو انصاف کے میدان کو خیر باد کہہ
دیں۔تضادات سے نمٹنے میں وقت نہ گزاریں۔حکمرانوں کا احتساب ووٹ کی پرچی پر منحصر ہوتا ہے،عوام کے پاس یہ حق ہوتاہے،اسے اس حق سے محروم کرنے والی اور بہت سی قوتیں ہیں،ان قوتوں نے ہمیشہ انصاف کی چھتری تلے پناہ لی سیاسی بحرانوں میں گھرے سیاستدان اور معاشی بحرانوں تلے دبے حکمران اپنی اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں،آپ اس جنگ کے فریق نہ بنیں،تشکیک یعنی تخلیق کے بے فائدہ ہونے کے تصور سے نکل آئیں جس کی آخری منزل نراجیت ہوتی ہے۔ہمارا عدالتی ڈ ھانچہ پہلے ہی نامستحکم بنیادوں پر کھڑ ا ہے جائیدادوں کی قانونی حیثیت ثابت کرنے کے لئے
قانون اور عدل و انصاف کے ادارے کو مجروح کرنے کی رسم کو اور پنپنے نہ دیں اسی میں آپ کا بھی وقار ہے اور ایک موئقر ادارے کی عزت۔۔۔!