سوموار 20 جنوری کو ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ کے 47 ویں صدر کے طور پر عہدے کا حلف اٹھائیں گے۔ انہوں نے اپنے بیانات اور تند و تیز لب و لہجہ کی وجہ سے امریکہ ہی نہیں، دنیا بھر میں سنسنی خیز اور پریشان کن کیفیت پیدا کی ہے۔ دنیا بھر میں اس وقت آنکھیں امریکہ اور صدر ٹرمپ کے اقدامات کی طرف لگی ہوئی ہیں۔ پوری دنیا جاننا چاہتی ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کا دوسرا دور امریکہ اور دنیا کے معاملات پر کیسے اور کیوں کر اثر انداز ہوگا۔
یہ سنسنی خیزی اس لیے بھی بڑھی ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ 2020 میں ڈیموکرٹک پارٹی کے امیدوار جو بائیڈن سے صدارتی انتخاب ہار گئے تھے۔ جمہوری روایت سے قطع نظر انہوں نے آج تک اس شکست کو قبول نہیں کیا اور جو بائیڈن کی صدارت کو دھاندلی سے جیتی ہوئی حکومت کہتے رہے ہیں۔ اسی مؤقف کی وجہ سے انہوں نے بار بار اعلان کیا ہے کہ جن لوگوں نے 6 جنوری 2020 کو امریکی کانگرس پر حملہ کیا تھا، وہ سیاسی کارکن تھے اور انہیں بائیڈن حکومت میں ناجائز طور سے سزائیں دی گئی تھیں۔ خود ڈونلڈ ٹرمپ پر اس روز ہونے والے ہنگاموں میں ملوث ہونے کے الزامات عائد کیے گئے تھے تاہم بعد میں سپریم کورٹ کے قدامت پسند ججوں کی اکثریت نے امریکی صدر کے طور پر اقدامات کو مکمل استثنا دینے کا حکم دیا تھا جس کے بعد ان الزامات میں مقدمے آگے نہیں بڑھائے جاسکے ۔ البتہ قیاس کیا جارہا ہے کہ ٹرمپ دوسری بار صدر بننے کے بعد اپنے انتخابی وعدے کے مطابق ان ایک ہزار سے زائد لوگوں میں سے اکثر کو عام معافی دینے کا اعلان کریں گے جنہیں کانگرس پر حملہ کا قصور وار قرار دے کر مختلف مدت کی سزائیں دی گئی تھیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ پر خود بھی متعدد الزامات میں مقدمات قائم ہیں۔ تاہم امریکی روایت کے مطابق صدارت کے دور میں ان کے خلاف کسی مقدمہ پر کارروائی نہیں ہوگی۔ البتہ یہ سارے مقدمات نظام انصاف میں موجود رہیں گے اور 2028 میں جب وہ صدارت سے فارغ ہوں گے تو ایک بار پھر ان پر کارروائی شروع ہوسکتی ہے۔ اس دوران ایک اہم مقدمے میں نیویارک کی عدالت نے ایک پورن اسٹار کو رقم کی ادائیگی کے معاملے میں سزا مؤخر کرنے سے انکار کردیا تھا۔ ا س مقدمہ میں جیوری نے ٹرمپ کو 34 الزمات میں قصور وار ٹھہرایا تھا۔ جج کا مؤقف تھا کہ جیوری کے فیصلے کے بعد ، ان کے پاس سزا سنانے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔ البتہ جج جوان مرچن نے ٹرمپ کو قید یا جرمانے کی سزا سنانے کی بجائے ، ان کا نام مجرموں کے ریکارڈ میں شامل کرنے کا حکم دیا۔ جب تک کوئی اعلیٰ عدالت اس فیصلے کو تبدیل نہ کرے، ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ کا صدر ہونے کے باوجود سزا یافتہ مجرم کہلائیں گے۔
البتہ ان قانونی و عدالتی معاملات کا ٹرمپ کے رویہ اور سیاست پر کوئی اثر مرتب نہیں ہوتا کیوں کہ انہیں جن لوگوں کی حمایت حاصل ہے ، وہ ان سے سیاسی امیدیں وابستہ کیے ہوئے ہیں اور اخلاقی یا مالی جرائم کو اہمیت دینے پر تیار نہیں ہیں۔ اسی لیے ٹرمپ ایک بار پھر صدر منتخب ہونے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ اس بار ان کی کامیابی اس لحاظ سے بھی فقید المثال تھی کہ انہوں نے پہلی بار اپنے مدمقابل سے تیس لاکھ زیادہ ووٹ حاصل کیے۔ اسی طرح ٹرمپ مقبولیت کی لہر ہی کی وجہ سے ری پبلیکن پارٹی امریکی کانگرس کے دونوں ایوانوں میں اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی ۔ اس شاندار کامیابی کی وجہ سے قیاس کیا جارہا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کو اس بار اپوزیشن کی طرف سے کوئی اندیشہ نہیں ہوگا اور وہ کانگرس سے اپنی مرضی کے فیصلے حاصل کرسکیں گے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ ٹرمپ نے ایک بار صدارت کے بعد چار سال دوبارہ انتخاب جیتنے کا انتظار کیا ہے۔ یہ مدت انہوں نے خود کو نئے دورانیہ کے لیے تیار کرنے پر صرف کی ہے۔ اس لیے اس بار وہ زیادہ فیصلہ کن انداز میں آگے بڑھیں گے۔
امریکہ چونکہ دنیا کی واحد سپر پاور اور سب سے بڑی معیشت ہے ، اس لئے بجا طور سے دنیا بھر میں ڈونلڈ ٹرمپ کے دوسرے صدارتی دور کے بارے میں توقعات اور اندیشے محسوس کیے جارہے ہیں۔ وہ خود بھی خارجہ تعلقات کے حوالے سے بعض اشتعال انگیز بیانات دے چکے ہیں۔ جیسے ان کا کہنا ہے کہ کینیڈا کو امریکہ کی 51 ریاست بنا لیا جائے۔ یا یہ کہ ڈنمار کے زیر انتظام گرین لینڈ کے وسیع علاقے کو امریکہ کے حوالے کیا جائے۔ اس سے پہلے وہ گرین لینڈ کو خریدنے کی بات کرتے رہے ہیں تاہم اس بار ایک پریس کانفرنس میں انہوں نے گرین لینڈ کو امریکہ کا حصہ بنانے کے لیے فوجی طاقت استعمال کرنے کے خیال کو بھی مسترد نہیں کیا۔ اگرچہ ان کی پوزیشن یہی ہے کہ وہ ڈنمارک کی درآمدات پر خصوصی محاصل عائد کرکے ڈنمارک کو مجبور کریں گے کہ وہ گرین لینڈ کے سوال پر امریکی ضرورتیں پوری کرے۔ اس کے باوجود اس معاملہ کا تعلق بھی درحقیقت ٹرمپ کی معاشی اور امریکہ کی داخلی سیاسی حکمت عملی سے ہی جوڑا جاسکتا ہے۔ وہ کہتے رہے ہیں کہ نیٹو میں شا مل یورپی ممالک دفاعی اخراجات میں اضافہ کریں کیوں کہ امریکہ اپنے اخراجات پر یورپ کی حفاظت نہیں کرے گا۔ سابقہ دور میں اسی دباؤ کے بعد نیٹو کے بیشتر ممالک نے اپنی قومی پیدا وار کا تقریباً دو فیصد دفاع پر خرچ کرنا شروع کیا تھا۔ اس بار وہ نیٹو کے یورپی ملکوں کو خود حفاظتی کی طرف راغب کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ گرین لینڈ کے حوالےسے ان کا بیان بھی دراصل ڈنمارک اور نیٹو کو اس علاقے کی دفاعی ضرورتیں پوری کرنے میں زیادہ ذمہ داری قبول کرنے کی وارننگ ہے۔ ڈنمارک نے اس دوران میں گرین لینڈ کے ساحلی دفاع کے لیے اضافی سوا ارب ڈالر فراہم کرنے کا اعلان کیا تھا۔ تاہم ٹرمپ کا یہ طرز عمل ایک ایسے وقت میں یورپی لیڈروں کے لیے پریشانی کا سبب ہے جس وقت روس یوکرین جنگ کے تین سال پورے ہونے والے ہیں اورپورا یورپ ایک ہمسایہ ملک کے خلاف روسی جنگ جوئی اور اس کے علاقوں پر ملکیت کے دعوؤں سے پریشان ہے۔ یورپ میں اسے زندگی و موت کا سوال سمجھا جارہا ہے۔ البتہ امریکی دفاعی امداد کے بغیر یوکرین شاید روسی حملے کا مقابلہ کرنے کے قابل نہ ہوسکتا۔ امریکہ ا اب تک یوکرین کو 50ا رب ڈالر کی امداد فراہم کرچکا ہے۔ یہ غیر واضح ہے کہ ٹرمپ اس حوالے سے کیا مؤقف اختیار کرتے ہیں لیکن وہ اس حوالے سے دو اشارے دیتے رہے ہیں۔ ایک تو یورپ زیادہ مصارف برداشت کرے ، دوسرے وہ یوکرین کی جنگ ایک دن میں ختم کراسکتے ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ اقتدار سنبھالنے سے پہلے غزہ میں جنگ بندی کا مقصد حاصل کرنے میں تو کامیاب ہوگئے ہیں۔ انہوں نے سخت گیر بیانات میں واضح کیا تھا کہ اگر ان کے اقتدار سنبھالنے سے پہلے جنگ بند نہ ہوئی تو غزہ کے خلاف شدید تباہ کن کارروائی کی جائے گی۔ خیال کیا جاتا ہے کہ ٹرمپ کے مؤقف کی وجہ سے حماس کو جنگ بندی پر راضی ہونا پڑا۔ اس کے علاوہ جو بائیڈن کی حکومت نے جنگ بندی معاہدے کے لیے ٹرمپ کی مشاورت سے حکمت عملی تیار کی تھی۔ البتہ یوکرین میں جنگ ختم کرانے کے لیے ٹرمپ کے پاس دھمکی دینے کا آپشن موجود نہیں ہے۔ وہ روسی صدر کے بارے میں دیگر امریکی لیڈروں کے مقابلے میں مثبت رویہ رکھتے ہیں لیکن شاید محض ان کی خیر سگالی یوکرین میں جنگ بندی کا سبب نہ بن سکے۔ صدر پوتن یوکرین کے بیس فیصد علاقوں پر قبضہ بحال کرنا چاہتے ہیں اور اس وقت تک جنگ بند کرنے پر تیار نہیں ہیں ۔ دوسری طرف یوکرین کا کہنا ہے کہ جن علاقوں پر روس نے جنگ جوئی کے ذریعے قبضہ کیا ہے، وہاں سے روسی فوجوں کے انخلا کے بغیر جنگ بند نہیں ہوسکتی۔ یہ ایک دوسرے سے متضاد مؤقف ہیں تاہم اگر ٹرمپ روس کو کوئی بیچ کا راستہ اختیار کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں اور یورپی لیڈر بھی طویل جنگ ختم کرنے کے اس منصوبہ سے اتفاق کرتے ہیں تو ایک ایسی جنگ کا خاتمہ ممکن ہوگا جس نے دنیا بھر کی معیشت کو متاثر کیا ہے۔
ٹرمپ کا زیادہ تر ایجنڈا امریکی معیشت کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنا ہے۔ وہ ٹیکس میں سہولت دے کر ملکی صنعت و تجارتی برادری کو فائدہ پہنچانا چاہتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق اگر ٹرمپ اپنے مقصد میں کامیاب ہوتے ہیں تو آئیندہ دس سال میں امریکی حکومت کی آمدنی میں 5800ارب ڈالر کمی واقع ہوگی۔ اس کمی کی وجہ سے غریب باشندوں پر معاشی دباؤ میں اضافہ ہوگا اور سرکاری سہولتوں میں کمی ہوگی۔ اس کے علاوہ امریکی حکومت کو اخراجات پورا کرنے کے لیے مزید قرض لینا پڑیں گے جس سے معیشت زیر بار ہوگی۔ اس کا حل ٹرمپ یوں پیش کرتے ہیں کہ وہ امریکہ کی تمام درآمدات پر 10 فیصد محصول عائد کریں گے۔ اگر اس فیصلہ پر عمل ہوتا ہے تو اس سے امریکہ کوپاکستانی برآمدات بھی متاثر ہوں گی۔ پاکستان 5 ارب ڈالر کی مصنوعات امریکہ بھیجتا ہے۔ اضافی محصول عائد ہونے سے امریکی منڈیوں میں پاکستانی مصنوعات کی مانگ متاثر ہوسکتی ہے۔ اسی طرح ٹرمپ چینی مصنوعات پر محاصل 60 فیصد کرنا چاہتے ہیں۔ اس پالیسی کا مقصد امریکی معیشت کی حفاظت اور ملکی پیداوار میں اضافہ ہے۔ تاہم معاشی ماہرین کا اندازہ ہے کہ ان اقدامات سے ایسی ضروری اشیا کی قیمتوں میں اضافہ ہوگا جو متوسط اور غریب طبقات استعمال کرتے ہیں۔ درآمد کنندگا صارفین سے ہی سرکاری محصول وصول کریں گے۔ اس لیے قیاس ہے کہ یہ پالیسی کامیاب نہیں ہوگی کیوں کہ اس سے امریکہ میں افراط زر میں ناقابل برداشت اضافہ ہوسکتا ہے۔ٹرمپ حکومت کی آمد عالمی اداروں کے لیے بھی کوئی اچھی خبر نہیں ہے۔ وہ عالمی ہیلتھ آرگنائزیشن کی امداد بند کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں اور ماحولیات میں بہتری کے لیے پیرس معاہدے سے امریکہ کو نکالنا چاہتے ہیں۔ سابقہ دور میں بھی وہ یہ اقدام کرچکے ہیں۔ ٹرمپ ماہرین کی اس رائے کو تسلیم نہیں کرتے کہ عالمی درجہ حرارت میں اضافہ ہورہا ہے جو کرہ ارض پر متعدد مسائل کا سبب بن رہا ہے۔ اسی لیے وہ امریکہ میں گیس و تیل کی دریافت پر زیادہ توجہ مرکوز کرنا چاہتے ہیں اور اپنے حلیف ممالک کو مجبور کرنا چاہتے ہیں کہ وہ کسی دوسرے ملک کی بجائے امریکی گیس و تیل خریدیں۔
ٹرمپ امریکہ کو ایک بار پھر عظیم بنانا چاہتے ہیں لیکن ان کے پاس معاشی احیا کا کوئی ایسا منصوبہ نہیں ہے جس میں امریکہ کسی عالمی شراکت کے بغیر یہ مقصد حاصل کرلے۔ امریکہ کو ’عظیم‘ بنانے کے کام کا آغاز وہ ملک سے لاکھوں تارکین وطن کو ملک بدر کرکے کرنا چاہتے ہیں۔ یہ لوگ دہائیوں سے امریکہ میں آباد ہیں لیکن ان کے پاس قانونی دستاویزات نہیں ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت انہیں قانونی کرنے کی بجائے ملک سے نکالنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ ماہرین کے خیال میں یہ کام مشکل اور مہنگا ہوگا جو امریکی حکومت کے لیے شدید مشکلات کا باعث بن سکتا ہے۔ تاہم ٹرمپ کا کہنا ہے کہ یہ قیمت کا نہیں امریکہ کے مستقبل کا سوال ہے۔ وقت ہی بتا سکے گا کہ ٹرمپ کے مزید چار سال ختم ہونے کے بعد امریکہ کتنا مضبوط، خوشحال اور خود پر انحصار کرنے والا ملک بن سکے گا۔
( بشکریہ : کاروان ۔۔۔ ناروے )
فیس بک کمینٹ