18جنوری کندن لال سہگل کا ستترواں یومِ وفات تھا۔ عمر گزری ہے اُن کے گانے سنتے اور اُن کی آواز سے عشق کیے۔ ہندوستانی سینما کے پہلے سپرسٹار تھے۔ سکرین پہ آئے اور لاجواب گانے بھی گائے۔ سچ تو یہ ہے کہ ہندوستانی سینما میں پَلے بیک گانے کی بنیاد اگر کسی نے رکھی تو وہ سہگل تھے۔
مردانہ گائیک اور بھی تھے لیکن ہندوستانی فلموں کے اوائل کے دن تھے اوراُس زمانے کی کسی مردانہ آواز نے کوئی خاص مقام حاصل نہ کیا۔ ایک نہایت ہی کٹھن سفر کے بعد سہگل کو کولکتہ میں فلموں میں گانے کا موقع ملا تو سب کچھ بدل گیا۔ نیو تھیٹرز کے مالک برندرا ناتھ سرکار تھے اور انہی کے توسط سے سہگل نے نئی نویلی فلمی دنیا میں تہلکہ مچایا۔ 1935-36 سے لے کر 1947 میں اپنی وفات تک فلمی دنیا کے بادشاہ رہے۔ اتنے میں گانے والے اور بھی آنے لگے اور ہندوستانی فلمی موسیقی کا سنہری دور شروع ہوا جولگ بھگ دو اڑھائی دہائیوں پر محیط رہا۔ اس عرصے میں یعنی 1940 سے لے کر 1960 کی دہائی کے پہلے سالوں میں وہ وہ گانے لکھے اور گائے گئے اور سنگیت اس پائے کا مرتب ہوا کہ آج بھی اُس زمانے کے گانے سنے جائیں تو انسان دنگ رہ جاتا ہے کہ اتنی خوبصورتی اور اتنا ٹیلنٹ کیسے یکجا ہوا۔ فلمی موسیقی تو آج بھی ہے لیکن اُس سنہری دور کی موسیقی کی بات کچھ اور ہی تھی۔ موسیقی رہے گی لیکن وہ سنہری دور پھر لوٹ کر نہ آ سکے گا۔
اُس دور کے مہان گائیک کون تھے؟ فہرست بنے تو بہت دور تلک چلی جائے لیکن میرے ذاتی خیال میں شمالی برصغیرکی فلمی گائیکی میں… شمالی اس لیے کیونکہ جنوب ہندوستان کی موسیقی کی جانکاری میرے جیسا آدمی اتنی نہیں رکھتا… چار بڑے نام آتے ہیں جن کی عظمت کے بارے میں کوئی دوسری رائے نہیں ہوسکتی: کندن لال سہگل، نورجہاں،محمد رفیع اور لتا منگیشکر۔ بڑے بڑے گانے والے گزرے ہیں لیکن گائیکی کی چوٹی پر یہی چار بڑے نام رہیں گے۔
آل انڈیا ریڈیو کے جے مالا پروگرام میں طلعت محمود نے ایک دفعہ یہ کہا کہ میرا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمام آسمانوں اور تمام زمینوں کا نور، سُراور درد سہگل صاحب کے گلے میں بھر دیا تھا۔ اُن کی آواز کے بارے میں اس سے زیادہ کون کچھ کہہ سکتا ہے۔ اُن کے گانے کا ایک اپنا ہی انداز تھا۔ گرو ان کو تو سب مانتے ہیں او ر ان کا ذکر چھڑے تو کوئی بھی گانے والاعقیدت سے ان کا نام لیتا ہے۔ گانے کا انداز اپنا تھا اور ہر ایک کوئی ایسا گا نہیں سکتا کیونکہ ہر ایک کے پاس سہگل کا گلہ کہاں سے آئے۔ ان کے ہوتے ہی ایک اور سنگر سامنے آئے ’ جی ایم درانی‘ جن کے گانے کا انداز ذرا مختلف تھا۔ اورپھر وہی انداز رفیع صاحب کا رہا۔ اپنے اپنے زمانے کے یہ دونوں شہنشاہ تھے۔ سہگل اس وقت کے، جب فلمی موسیقی کے اوائل کے دن تھے اور رفیع صاحب جب ہندوستانی سینما ترقی کی منزلیں بہت طے کر چکا تھا۔
بھگوان کی خاص مہربانی دونوں آوازوں کے ساتھ تھی۔ سہگل کے گانے سنیں تو یہی خیال آتا ہے کہ ایسی آواز کسی دیوتا کی ہی ہوسکتی ہے۔ تعداد میں سہگل کے گانے تو بہت قلیل تھے، رفیع نے ہزاروں میں گائے۔ لیکن اس بڑی تعداد میں جو لاجواب گانے ہیں وہ انسان سنے تو وہی خیال آتا ہے کہ بھگوان کی دین ہے۔ جب فن کی بلندیوں پر پہنچ چکے تھے تو اور بھی بہت گانے والے تھے… مکیش، منا ڈے، طلعت محمود، کشورکمار اور اس فہرست میں دیگر نام بھی ڈالے جاسکتے ہیں… لیکن اس زمانے میں یہ جانکاری ہوچکی تھی کہ گائیکی میں سب سے بلند ستارا محمد رفیع کا ہے۔
نور جہاں اور لتا کی بھی یہی کیفیت ہے۔ دونوں نے ہزاروں کی تعداد میں نغمے گائے لیکن جو ان کے چوٹی کے گانے ہیں ان کی آواز کانوں میں جائے تو یہی محسوس ہوتا ہے کہ آکاش سے اتری ہوئی کوئی پری جادو بکھیر رہی ہے۔ نورجہاں کی آواز تہلکہ آمیز شروع دن سے تھی، لتا کو کچھ وقت لگا اپنی آواز میں جادو پیدا کرنے کیلئے۔ لیکن جب وہ جادو پروان چڑھا تو پھر اس کے سامنے کوئی ٹھہر نہ سکا۔ ٹاپ کے گانوں میں ایسی ایسی مُرکیاں ہیں، ایسا مدُھر پن کہ انسان کے ہوش اڑ جاتے ہیں۔ مولاکے رنگ ہیں۔ مہربانی کرنے پہ آئے تو پھر مہربانی کی کوئی انتہا نہیں رہتی۔ ایک بات کا تصور تو کیجیے، وقت گزرنے کے ساتھ سہگل کے پرستاروں کی تعداد کم نہیں ہوئی۔ رفیع صاحب کے تو پرستار نہیں باقاعدہ دیوانے ہیں جو کہتے ہیں کہ ایسی آواز نہ پہلے آئی نہ آنے والے زمانوں میں آئے گی۔ نور جہاں اپنے زمانے کی ملکۂ ترنم تھیں اور آج بھی اُسی انداز سے ان کو یاد کیا جاتا ہے۔ لتا کی گائیکی بے مثال ہے۔
ذرا خیال رہے کہ یہ صرف آج کی بات نہیں پانچ سو سال بعد بھی ان لاجواب ہستیوں کے گانے سنے جائیں گے۔ لافانی ہونا اسے کہتے ہیں۔ آج کی سب یادیں مٹ جائیں گی، تاریخ کے اوراق مدہم پڑ جائیں گے۔ یہ گائیک اور ان کے گانے زندہ رہیں گے۔ سہگل کی مے پرستی کا ضمناً ذکر ہو جائے گا لیکن زیادہ دھیان اُن کی آواز اور گانوں پر ہوگا۔ پانچ سو سال بعد کون یاد رکھے گا کہ رفیع اور لتا کے درمیان کچھ معمولی باتوں پر اَن بَن بھی رہی، ایک دوسرے سے کچھ عرصہ ناراض رہے اور کئی سالوں تک ان کے دو گانے ریکارڈ نہ ہوئے۔ کس کو دلچسپی ہوگی اس بات میں کہ میڈم نورجہاں اور رنگین مزاج جنرل یحییٰ خان کے درمیان گہری دوستی رہی۔ یہ فروعی باتیں سب مٹ جائیں گی۔ امر رہے گا تو سنہرے دور کی موسیقی، اُس دور کی فلمی شاعری اور اُس دور کے لاجواب گائیک۔
لتا کا وہ کون سا گانا ہے ’ہمارے بعد اب محفل میں افسانے بیاں ہوں گے‘ ۔دوسری لائن ملاحظہ ہو ’ بہاریں ہم کو ڈھونڈیں گی نجانے ہم کہاں ہوں گے‘۔ اس گانے کی طرز یعنی موسیقی دل ہلانے والی ہے۔ مدن موہن کی ترتیب دی ہوئی ہے اور میں کہے بغیر نہیں رہ سکتا کہ مدن موہن کا ابتدائی تعلق اندرون چکوال سے تھا۔ رفیع رہے نہ لتا، سہگل اور نور جہاں کی قبریں ڈھونڈنے چلیں تو شاید کچھ دِقت ہو۔ لیکن ان کا ذکر تو زندہ ہے۔ محفلوں میں ان کی کہانیاں تو بیان ہوتی ہیں۔ یہ بھی درست ہے کہ بہاریں ان کو ڈھونڈیں گی نہیں کیونکہ وہ ہم میں اب بھی موجود ہیں لیکن ان کے ذکر پر بہاریں جھومیں گی ضرور۔ ہر سال بہار آتی ہے تو فیض صاحب کے دو گیت جن کو آواز نورجہاں نے دی بے اختیار یاد آتے ہیں۔ ’بہار آئی‘ اور ’تم آئے ہو نہ شبِ انتظار گزری ہے‘۔ فیض صاحب کے الفاظ تو کمال کے ہیں ہی لیکن نورجہاں کی آواز دل کو موہ لیتی ہے۔ سُر تو اپنی جگہ لیکن درد اتنا کہ جگرکٹ جائے۔
بات صرف فلمی موسیقی کی ہوئی ہے۔ شاستریا سنگیت کا جہاں اور ہی ہے۔ یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ حساب کتا ب کا وقت آئے گا تو جن چار ناموں کا ذکر ہوا ہے اُن کا مقام بہت اونچا ہوگا لیکن بڑے غلام علی خان کہاں رکھے جائیں گے؟ ان کا درجہ ذرا بلند ہوگا۔ ایسی محفل کا تصورتو کیجیے۔ یہ سب بیٹھیں ہوں اور باری باری سہگل اور نورجہاں،رفیع اور لتا، نغمہ سرا ہوں۔ فیض بھی ہوں اورمسندِمحفل پر غالب۔طبلے پر ذاکر حسین اورستار پر استاد ولایت خان۔ رقص کے بغیر محفل کہاں مکمل ہوگی۔ ڈانس کر رہی ہوں ککو مورے۔آسمان گونج اٹھیں اِس محفل کی دھوم سے۔
( بشکریہ : کاروان ۔۔ناروے )
فیس بک کمینٹ