ڈاکٹر اے بی اشرف صاحب کی وفات کے بعد جو کچھ ان کے بارے میں پڑھنے اور سننے کا موقع ملا اس کے بعد ہم تو اسی نتیجے پر پہنچے ہیں کہ انسان کو اگر اشرف المخلوقات کہا جاتا ہے تو اشرف صاحب اس کی جیتی جاگتی تصویر تھے ۔ ان کے دوستوں اور شاگردوں کا ایک بڑا حلقہ دنیا بھر میں موجود ہے اور وہ ان کی وفات کے بعد سے اب تک اس صدمے سے باہر نہیں آ سکا ۔ اشرف صاحب کی خوش لباسی اور خوش گفتاری کا تو زمانہ معترف ہے ۔ خود ہم نے اپنے لڑکپن میں انہیں بہت متحرک دیکھا ۔ وہ ہر تقریب میں بہت اہتمام کے ساتھ شرکت کرتے تھے ۔ لکھا ہوا مضمون ہو یا فی البدیہہ گفتگو وہ سننے والوں کو مبہوت کر دیتے تھے ۔وہ طویل قامت بھی تھے اور قد آور بھی ۔ اور پھرجب کسی تقریب میں بات کرتے تو ہم ان کی گفتگو کے سحر میں گم ہوجاتے ۔ زبانی گفتگو بھی اتنی مربوط اور رواں دواں ہوتی کہ جیسےلکھی ہوئی تحریر پڑھ رہے ہوں ۔ ان کی ذات کے ساتھ کچھ رومانی کہانیاں اور حقیقتیں بھی جڑی ہوئی تھیں سو ہم یہ قصے سنتے اور اشرف صاحب پر رشک بھی کرتے ۔۔ ممکن ہے ان کے رفقائے کار اس معاملے میں ان سے حسد بھی کرتے ہوں لیکن ہمارا ان سے حسد بنتا ہی نہیں تھا ۔
یہ 1980 کا عشرہ تھا جب نے تقریبات میں تسلسل کے ساتھ جانا شروع کیا ۔ اردو اکادمی کے اجلاسوں میں تو ہم شرکت نہیں کرتے تھے البتہ شہر کی کسی اور تقریب میں ان کی شرکت کی جب بھی اطلاع ملتی ہم وہاں پہنچ جاتے ۔اے بی اشرف صاحب ان دنوں زکریا یونیورسٹی میں شعبہ اردو کے سربراہ تھے ۔ ڈاکٹر انوار احمد کی طرح اشرف صاحب سے بھی جب کہیں ملاقات ہوتی وہ ہمیں ایم اے اردو کرنے کی ہدایت ضرور کرتے لیکن ہم 1983 میں روزنامہ سنگ میل سے صحافتی زندگی کا آغاز کر چکے تھے اور صحافتی زندگی تعلیمی سفر جاری رکھنے کی مہلت ہی کب دیتی ہے ۔ اشرف صاحب کی گفتگو اور مضا مین ہمیں اس لیے بھی اچھے لگتے تھے کہ ان میں ہمیں اپنے دل کی آواز سنائی دیتی تھی ۔ جمہوریت کی حمایت اور آمریت کے خلاف احتجاج ۔ وہ بہت سلیقے سے بات کرتے تھے نعرہ بازی کی سظح پر نہیں جاتے تھے لیکن اپنا مؤقف دو ٹوک انداز میں بیان کر دیتے تھے ۔ اشرف صاحب کے علاوہ ڈاکٹر صلاح الدین حیدر ، ڈاکٹر انوار احمد اور عابد عمیق بھی ملتان میں روشن خیالی اور ترقی پسندی کا چراغ روشن رکھے ہوئے تھے ۔
انہیں ہم ملتان آرٹس کونسل کی تقریبات میں اکثر دیکھتے اور سنتے تھے ۔ آرٹس کونسل اس زمانے میں ہمارے گھر کے قریب ہوتی تھی اور اردو اکادمی بھی ہفتہ وار اجلاسوں کے علاوہ بڑے پیمانے پر تقریبات کااہتمام آرٹس کونسل میں ہی کرتی تھی ۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ضیاء آمریت کی وجہ سے کچھ لکھنا اور بولنا آسان نہیں تھا ۔لیکن اشرف صاحب بہت سلیقے سے اپنا اور ہم سب جمہوریت پسندوں کا مافی الضمیر بیان کر دیتے تھے ۔ اشرف صاحب اس زمانے میں زکریا یونیورسٹی کے شعبہ اردو کے سربراہ اور اپنے شاگردوں کے محبوب استاد تھے ۔ وہ اس عہدے پر آٹھ سال تک فائز رہے اور اس دوران روشن خیال طلبہ و طالبات کی ایسی کھیپ تیار کی جو آج بھی دنیا بھر میں اردو زبان و ادب کی ترویج میں مصروف ہے ۔
اکتوبر 1995ء میں اے بی اشرف انقرہ چلے گئے اور وہاں جا کر بھی اپنے دوستوں اور شاگردوں کے لیے فیض رسانی کا باعث بنے ۔انہوں نے ڈاکٹر انوار احمد اور نجیب جمال صاحب کو بھی اردو کی تدریس کے لیے انقرہ بلا لیا ۔۔
اشرف صاحب کے ترکی چلے جانے کے بعد ہماری ان کے ساتھ ایک ہی بار ملاقات ہو سکی ۔ 2010 میں ہم نے ملتان آرٹس کونسل میں ادبی بیٹھک کاآغاز کیا تھا ۔ ان دنوں اشرف صاحب بھی ملتان آئےہوئے تھے ۔ ہم نے انہیں ادبی بیٹھک میں شرکت کی دعوت دی ۔ ملتان میں ایک طویل عرصہ کے بعد وہ کسی ادبی تقریب میں شریک ہوئے تھے اور یہ ملتان میں ان کی زندگی کی آخری تقریب تھی ۔22 جولائی 2010 میں منعقد ہونے والی اس تقریب کے دوران انہوں نے شرکاء کے بہت سے سوالات کے جواب بھی دئے ۔ ہم نے ان سے یہ بھی دریافت کیا کہ احمد بختیار بہت خوب صورت نام ہے پھر آپ کو اسے اے بی اشرف میں تبدیل کرنے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی ۔ اشرف صاحب کا کہنا تھا کہ جب ہم نے لکھنا شروع کیا اس زمانے میں اس طرح کے قلمی نام اختیار کرنے کی روایت تھی ۔
اشرف صاحب اس کے بعد بھی بارہا ملتان آئے لیکن کوشش کے باوجود ہم دوبارہ ان سے نہ مل سکے ۔اس کے لیے ہم نے بارہابرا درم نعیم اشرف سے رابطہ بھی کیا لیکن اشرف صاحب سے دوبارہ ملاقات کی حسرت کبھی پوری نہ ہو سکی وہ ملتان آتے اور پروفیسر انور جمال ، ڈاکٹر شمیم ترمذی ، رانا محبوب اختر ، اور شعبہ تعلیم سے وابستہ چند اساتذہ سے ملاقات کے بعد واپس چلے جاتے ۔ بعد ازاں کچھ دوستوں کی زبانی یہ بھی معلوم ہوا کہ اشرف صاحب کے گرد جمع ہونے والے احباب کی اپنی خواہش بھی یہ ہوتی تھی کہ ان کی کسی اور سے ملاقات نہ ہو سکے ۔ بہانہ وہ یہ کرتے تھے کہ ہم اشرف صاحب کی خواہش پر ان محافل کو محدود رکھتے ہیں ۔ جو دوست اشرف صاحب کو جانتے ہیں انہیں بخوبی علم ہو گا کہ اشرف صاحب جیسا مجلسی انسان ایسی خواہش کا اظہار کر ہی نہیں سکتا ۔ بے شک انہوں نے اردو زبان و ادب کی ترویج کے لیے بے مثال خدمات انجام دیں لیکن حیرت اس بات پر ہے کہ انہوں نے اپنی ماں بولی کا قرض چکانے کی کبھی کوشش نہیں کی ۔ اگر وہ سرائیکی میں بھی کچھ لکھتے تو یہ ان کا اپنی ماں بولی پر احسان ہوتا ۔ لیکن یہ قرض بھی وہ اس طرح چکا گئے کہ انہوں نے آسودہ خاک ہونے کے لیے ملتانی مٹی کا ہی انتخاب کیا ۔ پندرہ مارچ 2025 کو ان کا انقرہ میں انتقال ہوا اور 19 مارچ 2025 کو انہیں اہل ملتان نے پورے اعزاز کے ساتھ سپرد خاک کر دیا ۔ رشک آتا ہے ان کی زندگی پر کہ وہ جتنا عرصہ بھی جیئے ایک محنت کش کی طرح زندگی گزاری لیکن اپنی مرضی کا جیون بسر کیا ۔ انہوں نے 90 برس مسلسل تحریر و تحقیق کا کام جاری رکھا ۔ ان کی آخری تحریر ڈاکٹر اسلم انصاری صاحب کی یاد میں تھی جو انہوں نے سولہ اکتوبر 2025 کو ڈاکٹر مختار ظفر صاحب کی وساطت سے ہمیں ارسال کی اور ہم نے اسے مختار ظفر صاحب کی کتاب میں دیباچے کے طور پر شامل کیا ۔۔ وہ ہمیشہ ہمارے دلوں میں دھڑکتے رہیں گے ۔۔
( بشکریہ : روزنامہ پاکستان )