ملتان کی ادبی اور تہذیبی زندگی میں رنگ بھرنے والوں میں ایک نام مشتاق احمد شیدا کا بھی ہے۔ وہ منفرد طرز اسلوب کے حامل ادیب اور ماہر قانون دان تھے۔ فکشن،شاعری، خاکہ، سفر نامہ، فلم، موسیقی اور ڈرامہ ان کے دل پسند موضوع رہے ہیں۔اردو لکھاریوں میں وہ قرۃالعین حیدر کے پر جوش قائل بھی رہے اور گھائل بھی۔ ان کی نصف صدی پر محیط ادبی زندگی کا سرمایہ ان کی کتاب "بس اتنا ہی تھا میرا کار جہاں” 2016میں شائع ہوئی۔
مشتاق احمد شیدا سے میری پہلی ملاقات 1989 میں ہوئی تب میں زکریا یونیورسٹی، ملتان کے شعبہ اردو میں زیر تعلیم تھا۔ ان کی دو بیٹیاں ڈاکٹر صباحت مشتاق (آج کل انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی، اسلام آبادمیں پڑھا رہی ہیں) اور بشری مشتاق (آج کل بیرون ملک مقیم ہیں) میری ہم جماعت تھیں اور انہی کے توسط سے شیدا صاحب سے ملاقات کی سبیل بنی۔ درمیانہ قد، گندمی رنگ، تیز، متحرک اور شریر آنکھیں، کشادہ پیشانی، عمر کے ساتھ ساتھ گھٹتے بال جن میں سفیدی نمایاں ہو رہی تھی، نہ کمزور اور نہ بہت صحت مند اور نسبتاً اونچے سروں میں تیز تیز بولتے مشتاق شیدا ،اپنے بے تکلفانہ لہجے اور ادیبانہ بے نیازی سے سب کو اپنی جانب متوجہ کرنے کا ہنر جانتے تھے۔اس پہلی بے تکلف شناسائی کے بعد تو جیسے ملاقاتوں کا ایک سلسلہ چل نکلا۔ ان سے دنیا جہان کے موضوعات پر بات ہوتی تھی۔ کچھ باتیں تو سب کے سامنے اور کچھ باتیں سرگوشیوں میں ہوتیں جس کا علم صرف ہم دونوں ہی کو ہوتا تھا۔ ادب، فلسفہ، فلم، علم نجوم اور پامسٹری سے ہوتی ہوئی ہر بات کی تان قرۃ العین حیدر پر آ کر ٹوٹتی تھی۔ تب وہ بہت سرشاری اور والہانہ پن سے عینی آپا کر ذکر کرتے ۔ان کے علاوہ موسیقارنوشاد،دیو آنند، انل بسواس ، اوم پرکاش اور زوار حسین سے اپنی ملاقاتوں کا ذکر کسی داستان گو کی طرح کرتے تھے۔ ان کے حوالے سے یادوں کا طویل حوالہ ہے تاہم وہ کسی اور موقع پر سہی۔ سردست پرانی تصاویر میں ان کی ایک تصویر سامنے آئی تو گزرےدن یاد آنے لگے۔
فیس بک کمینٹ