پروفیسر ڈاکٹر محمد امین کی پوری دنیا میں پہچان فلسفے اور ہائیکو کے حوالے سے ہے۔ لیکن اس کے علاوہ وہ نامور شاعر، ادیب، مترجم اور ایک محبت کرنے والی شخصیت ہیں جنہوں نے مجید امجد سے لے کر عرش صدیقی مرحوم کے ساتھ کام کیا۔ یوں ان کی شخصیت پر بے شمار بڑے لوگوں کے اثرات دکھائی دیتے ہیں لیکن اس کے باوجود ڈاکٹر محمد امین کے تخلیقی کاموں کا کینوس اتنا وسیع و عریض ہے کہ بعض اوقات ہمیں یہ سمجھ نہیں آتی کہ وہ شاعر اچھے ہیں کہ ادیب۔ جب وہ فلسفے پر بات کر رہے ہوں تو یوں لگتا ہے کہ وہ صرف اسی میدان کے کھلاڑی ہیں۔ شاعری کے رموز کی بات کریں یا مذہب کی باریکیوں کی ڈاکٹر محمد امین سب جانتے ہیں۔ سادہ مزاج اور خوش مزاج محمد امین سے محبت کرنے والوں کی تعداد ہزاروں نہیں لاکھوں میں ہے۔ وہ 1980ءکی دہائی میں جاپان سے فلسفے میں ڈاکٹریٹ کرنے کے بعد ملتان آ بسے تو پنجابی ہونے کے باوجود اب وہ نہ صرف سرائیکی میں شاعری کر رہے ہیں بلکہ اس زبان پر تحقیق ہی ان کا موضوع بن گیا ہے۔ پاکستان میں ہائیکو کو متعارف کروانے میں ان کا بنیادی کردار ہے بلکہ یہ کہنا زیادہ بہتر ہو گا کہ جاپانی صنفِ سخن ہائیکو کا پہلا مجموعہ ڈاکٹر محمد امین کا ہی منظرِ عام پر آیا۔ ان کی اب تک چالیس سے زیادہ کتب شائع ہو چکی ہیں جن میں جاپانی زبان کے بارے میں کتابوں کے ایڈیشن لاکھوں میں شائع ہو چکے ہیں۔ان کی انہی خدمات کو دیکھتے ہوئے حکومت جاپان نے گزشتہ دنوں شہنشاہ کی طرف سے جاپانی زبان و ادب کی خدمات کے اعتراف میں شاہی ایوارڈ ”دی آرڈر آف دی رائزنگ سن “کے نام سے گولڈ میڈل دینے کا اعلان کیا یہ حکومت جاپان کا علم و ادب کےلئے سب سے بڑا ایوارڈ ہے یہ ایوارڈ عطا کرنے کےلئے پروفیسر ڈاکٹر محمد امین کو جاپان کے سفارتخانے اسلام آباد میں ایک پروقار تقریب کا اہتمام کیا گیا جہاں ان کو جاپانی سفیر نے اپنے دست ِ مبارک سے یہ ایوارڈ پیش کیا۔ان کا یہ ایوارڈ نہ صرف اہل ملتان بلکہ پورے پاکستان کےلئے ایک بہت بڑا اعزاز ہے ہم سمجھتے ہیں کہ ڈاکٹر محمد امین نے جتنی محنت سے اپنے تخلیقی سفر کو جاری رکھا ہے ان کا حق بنتا تھا کہ ان کو حکومت جاپان اس اعزاز سے نوازتی ۔اب حکومت پاکستان کو بھی چاہئے کہ وہ جناب ڈاکٹر محمدامین کےلئے صدارتی ایوارڈ کا اعلان کرے۔
ڈاکٹر محمدامین کو بات کرنے کا سلیقہ آتا ہے اور وہ اپنے اس ہنر کو عاجزی سے بیان کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ڈاکٹر محمد امین کو پوری دنیا میں بہت احترام دیا جاتا ہے۔ وہ صاحبِ تصوف بھی ہیں اور شیخ عبدالقادر جیلانی کی زبان میں کہتے ہیں کہ تصوف کی بنیاد آٹھ خصلتوں پر رکھی گئی ہے۔
1۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرح سخی ہونا۔
2۔ حضرت اسحاق علیہ السلام کی طرح راضی ہونا۔
3۔ حضرت ایوب علیہ السلام کی طرح صبر کرنا۔
4۔ حضرت زکریا علیہ السلام کی طرح مناجات کرنی۔
5۔ حضرت یحییٰ علیہ السلام کی طرح غربت اختیار کرنی۔
6۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرح صوف پہننا۔
7۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرح سیر کرنی۔
8۔ ہمارے آقائے نامدار حضرت محمد صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم کی طرح فقر اختیار کرنا۔
اور ڈاکٹر محمد امین کوشش کرتے ہیں کہ وہ ان انبیائے کرام کے نقشِ قدم پر چلتے رہیں۔ انہوں نے گزشتہ چند برسوں میں شاعری کے ساتھ ساتھ نئے موضوعات پر بھی قلم اٹھایا۔ حال ہی میں ان کی نئی کتاب ”مقالاتِ تصوف“ کے نام سے منظرِ عام پر آئی جس میں تصوف کو اولیائے کرام کی تعلیمات کے پس منظر میں دیکھا گیا ہے۔ اس کتاب میں سلسلہ چشتیہ حضرت موسیٰ پاک شہید، حضرت بہاؤ الدین زکریا ملتانی، حضرت شاہ رکن عالم، حضرت سلطان باہو، شاہ حسین، خواجہ فرید سے لے کر صوفیانہ ثقافتی رجحانات کو ملتان کی تاریخ کے پس منظر میں بھی مقالات تحریر کیے گئے۔ ڈاکٹر محمد امین اس کتاب کے آغاز میں کہتے ہیں: ”مجھے بچپن ہی سے تصوف سے لگاؤ ہے۔ تصوف کے مطالعے کے ساتھ ساتھ دلچسپی عمیق ہوتی چلی گئی۔ صوفیا کے انسان دوستی اور محبت کے رویے نے مجھے بہت متاثر کیا۔ مجھے آج بھی اس رویے کی اشد ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ آج کل ثقافتی اور معاشرتی تضادات انتہا پسندی کے رویوں کو جنم دے رہے ہیں۔ ہمیں وحدت اور ہم آہنگی کی ضرورت ہے۔ ہم آہنگی کی فضا ہمیں صوفیاءکے یہاں نظر آتی ہے۔ مَیں اسے ثقافتی ہم آہنگی کا نام دیتا ہوں۔ شدت پسندی، ٹکراؤ اور تصادم سے بچنے کے لیے ہم آہنگی ضروری ہے۔ جب کسی معاشرے میں تضادات پیدا ہوتے ہیں تو تین قسم کے رویے سامنے آتے ہیں۔ مخالفت اور رَد کرنے کا رویہ، من و عن نئے حالات کو قبول کرنے کا رویہ اور تیسرا رویہ ہم آہنگی کا ہوتا ہے۔ ہم آہنگی کے لیے سوچ بچار اور غور و فکر کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہم آہنگی تو تعمق کا نتیجہ ہے۔ البتہ انسان دوستی معاشرتی رویے کے طور پر اپنانی چاہیے۔ تصوف سماجی رویوں کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔“
ڈاکٹر محمد امین کا یہ اقتباس بتاتا ہے کہ ہمیں اس وقت انسان دوست رویے کی ضرورت ہے اور ہماری یہ ضرورت تصوف کے سلسلے کے ساتھ وابستہ رہ کر پوری ہو سکتی ہے کہ اگر ہم اس معاشرے کو خوبصورت اور مثالی دیکھنا چاہتے ہیں۔ تصوف کے موضوع پر یہ کتاب ڈاکٹر قاضی جاوید نے ادارہ ثقافت اسلامیہ 2کلب روڈ لاہور سے شائع کی ہے جو 300روپے میں آپ کی لائبریری کا حصہ بن سکتی ہے۔
فیس بک کمینٹ