جنوبی پشتونخوا کے غیرت مند لوگو
یقین کرو میں بھی غیرت مند ہوں ، میں بھی لوگ ہوں ، میں بھی جنوبی ہوں اور میں بھی پشتونخواہ ہوں ۔۔
میرے مرحوم اباجی اور چاچا گل خان ، جی کیا کہا صمد خان ، جی ہاں صمد خان ، دراصل ہر تیسرے پشتون کا نام گل خان ہوتا ہے تو اس لئے گل خان ہی منہ سے نکل جاتا ہے ، بچپن میں میری سرخ و سفید رنگت اور پٹھان نین نقوش کی وجہ سے میری اماں مجھے بھی گل خان کہا کرتی تھیں ۔۔ ہاں تو چاچا صمدخان اور اباجی لنگوٹیے تھے بلکہ لنگوٹی بدل بھائی تھے ، کیا کہا پگڑی بدل ہاں ہاں وہ بھی تھے لیکن وہ جوانی میں جا کر ہوئے ، جس طرح میں اور محمود خان لنگی بدل بھائی ہیں ۔۔
دادا جان مرحوم چمن کی منڈی سے انگور خرید کر ہندوستان بھر کی بریوریوں کو سپلائی کرتے تھے ، یہاں آئے تو محمودخان کے دادا جان سے دوستی ہوئی ، گرمیوں میں جب بھی کاروبار کے سلسلے میں بلوچستان معاف کیجیے گا جنوبی پشتونخواہ آتے تو اباجی کو ساتھ لاتے یوں اباجی چاچا صمد خان کے لنگوٹیے بلکہ پگڑیے ہو گئے۔
بعد میں چاچاجی جب گاندھی جی مہاراج کے دست حق پرست پر بیعت ہوئے اور ہر سال یاترا پہ واردھا آشرم جانے لگے تو جھاتی امڑا میں ہمارے ہاں ٹھہرتے تھے ، یہیں سے ہمارے پریواروں کے درمیان نظریاتی رشتوں کا آغاز ہوا اباجی نے بھی گاندھی جی کے خلیفہ نہرو جی کے ہاتھ پہ بیعت کی ۔۔ بعد میں جب چاچاجی کو بلوچی گاندھی کا خطاب ملا تو پورے جھاتی امڑا میں جشن منایا گیا ، بھنگڑے ڈالے گئے ، اباجی نے خٹک رقص کا مظاہرہ کیا اور کافی ویلیں بھی بٹوریں، گدھا گاڑیوں کی ریس ہوئی، شہسواروں نے گاڑیوں کے بغیر بھی بڑے لاسی گدھوں کی دوڑ میں حصہ لیا اور یہ دوڑ اباجی مرحوم نے جیتی۔۔
اباجی اچھی خاصی پشتو بول لیتے تھے تڑے ماشے خوار ماشے دغہ دغہ وئی وئی ، مجھے تو جب بھی بلاتے اوئے نازو ایدر آ کی بجائے نوازا رازا رازا کہہ کر بلاتے ۔۔
پاکستان بننے کا صدمہ جتنا چاچا صمدخان کو ہوا اتنا ہی اباجی کو بھی ہوا، وہ تو جھاتی امڑا نہیں چھوڑنا چاہتے تھے ، جان بچانے کے لئے چھوڑنا پڑا ، حویلیاں ، فیکٹریاں ، کاروبار۔ گائیں ، بھینسیں، گدھے سب چھوڑنا پڑے بس تن کے کپڑوں میں لاہور آ گئے ، چاچا بہت اصرار کرتے رہے کہ کوئٹہ آ جاؤ لیکن وہاں کی سرد آب و ہوا موافق نہ تھی لہذا معذرت کی۔۔۔
اللہ کے فضل سے چند ہی ماہ میں لاہور میں فونڈری لگا لی ، چاچاجی کئی سال تک ہماری فیکٹری کے لئے خوجک کی کانوں سے کوئلہ بھجواتے رہے ، کبھی کبھار انگریز دور کی پرانی ریلوے کی بوگیاں اور دور دراز پہاڑوں میں بچھائی گئی متروکہ پٹڑیاں اکھڑوا کر بھجوا دیتے کہ انہیں بھی فونڈری میں پگھلا دیں یہ دور غلامی کی منحوس نشانیاں ہیں۔۔
ہمارا گاندھی واد، ہماری بھارت اکھنڈتا ہمارا مشترکہ اثاثہ رہا، جب میں نے اور محمود خان نے ہوش سنبھالا تو درہ خوجک کی چوٹی پر باقاعدہ ایک تقریب میں ہمیں رشتہ اخوت میں باندھا گیا ۔۔ کالج کے دنوں میں محمود خان کو سائیں کمال شیرانی نے مارکسزم کے راستے پر ڈال دیا تو اس نے مجھے بھی روسی لٹریچر بھیجنا شروع کیا چنانچہ میں بھی اس کی طرح انقلابی ہو گیا ، یہ ضیاءالحق کے حامی ہوئے تو میں بھی ضیاءالحق کا بیٹا بن گیا ۔۔۔محمود خان بھٹو اور بےنظیر دشمن تھا تو میں ان کی دشمنی میں اس سے بھی آگے نکل گیا ۔۔ سوویت یونین ٹوٹنے کے بعد میرے بھائی نے پشتونخواہ کا نعرہ لگایا تو میں نے بھی پوری قوت سے جاگ پنجابی جاگ کا نعرہ لگا دیا ، ہم دونوں بھائی قوم پرست ہو گئے ، اقتدار میں آکر میں نے تمام اعلیٰ عہدے اپنے لائق رشتہ داروں کو دیے تو محمود خان سے بھی کہا کہ اپنے رشتہ داروں کو کام پہ لگا دے. محمود خان نے کہا کہ فاٹا افغانستان کا ہے تو میں نے اسے خیبرپختونخوا میں ضم نہیں ہونے دیا ، محمود بھائی نے کہا کہ ڈیورنڈ لائن پہ باڑ مت لگاؤ تو میں نے مخالفت کی جس کی وجہ سے مجھے نکال دیا گیا . آج جب میں چیختا ہوں کہ مجھے کیوں نکالا تو محمود خان اس سے کہیں بلند آواز میں دھاڑتا ہے اسے کیوں نکالا !
جناب والا یہ ہیں وہ نظریاتی رشتے جو ہم دونوں کی مشترکہ اساس ہیں.
فیس بک کمینٹ