من مقِر حلفیہ بیان کرتا ہے کہ
یہ بہت قدیم زمانے کے بات ہے تقریباً ڈیڑھ دو سو سال پہلے سن 1974 عیسوی کی ،جب نہ ہوائی جہاز ہوتے تھے ، نہ تیز رفتار سمندری جہاز، ٹیلکس ،نہ فیکس ، نہ تار برقی ، نہ بینک ہوتے تھے نہ لیجر ، سفر اونٹوں ، گھوڑوں ، گدھوں اور بادبانی کشتیوں پہ کیا جاتا تھا۔صرف انگریزوں پُرتگالیوں اور ولندیزیوں کے پاس اِکا دُکا دُخانی جہاز ہوتے تھے .
کاغذ بھی صرف انہی یورپی اقوام کے پاس ہوا کرتے تھے یا پھر چینیوں کے پاس جو اُن دنوں شاہراہ ریشم نہ ہونے کی وجہ سے ہمالیہ کے اس پار ہی محدود تھے .
تمام دستاویزات چمڑے کے ٹکڑوں اور کھجور کے پتوں پر تحریر کی جاتی تھیں ،
کرنسی کے نام پر سونا چاندی کے سکے ہوتے تھے یا پھر کوڑیاں ، جو مضبوط ساکھ والے تاجر اور اہل حرفہ ہوتے تھے ان کی زبان ہی دستاویز سمجھی جاتی تھی یا پھر چمڑے کے ٹکڑوں اور کھجور کے پتوں پہ ہنڈی تحریر کی جاتی تھی.
انہی ایام میں ہمارے خاندان پر ایک قیامت ٹوٹ پڑی ، ہمارا نعل سازی کا کارخانہ جس میں سیلون اور بنگال سے لے کر افغانستان اور وسط ایشیا تک سے تاجر لشکری اور شہسوار گھوڑوں اور خچروں کے نعل بنوانے آتے تھے زبردستی چھین لیا گیا ،ہم پائی پائی کے محتاج ہو گئے .
کیونکہ بہت قدیم دور کی بات ہے ، ہم نے بزرگوں کی زبانی ہی واقعات سنے ہیں ، اب یہاں دو روایتیں ہیں ،
ایک تو یہ ہے کہ ایک سال کے اندر ہمارے بزرگوار نے بھیرہ ، ملتان ، شکارپور ، پشاور ، ڈیرہ اسمٰعیل خان ، سکھر ، قلات ، منڈی یزمان اور مانگا منڈی جیسے تجارتی شہروں میں اللہ کے فضل سے نئے کارخانے لگا لیئے.
دوسری روایت یہ ہے کہ انہوں نے اِدھر اُدھر سے کوڑیاں ادھار لیں ہمیانی میں باندھیں ایک لنگڑے گدھے پہ سوار ہوئے اور دیبل کی طرف روانہ ہوگئے وہاں انہوں نے سورت سے بصرہ جانے والا بادبانی تجارتی جہاز پکڑا اور سفر کی صعوبتیں برداشت کرتے پرتگالی اور صومالی قزاقوں سے بچتے راس الخیمہ میں جا اُترے اور وہاں اپنے ایک قدیم دوست شیخ بغلول بن جبلول القلبوتی کے تعاون سے عربی گھوڑوں کے لیئے نعل سازی کا دنیا کا سب سے بڑا کارخانہ لگایا، کارخانے کی شہرت چار وانگ عالم میں پھیل گئی، فرنگی تک وہاں آ کر نعلیں بنوانے لگے ، یہاں تک کہ پرتگالی ولندیزی انگریز اور فرانسیسی فیشن کے طور پر اپنے بحری جہازوں پر نعلیں لگوانے لگے ، اس کاروبار میں ہمارے خاندان نے اتنے درہم و دینار کمائے جن کا حساب رکھنا ناممکن ہو گیا .
کوئی پچاس ساٹھ سال بعد بزرگ نامعلوم وجوہات کی بنا پر وہاں سے دل برداشتہ ہو کر واپس لوٹ آئے، کارخانہ فروخت کیا اور اس سے حاصل ہونے والا کثیر و خطیر سرمایہ اپنے دوست الشیخ قاز بن باز فطری کی ریاست میں ان کے خیمہ سازی اور مڈ بینگلوز mud banglows کے کاروبار میں لگا دیا اور اللہ نے اس میں اتنی برکت عطا کی کہ ہم پر درہم و دینار کی طوفانی بارش ہونے لگی اور وہ سرمایہ دنیا بھر میں پھیل گیا حجاز مقدس ، برطانیہ ، جزائر غرب الہند ، ریاستہائے متحدہ اور جانے کہاں کہاں…
تو جناب یہ تھا ہمارے سرمائے کا سفر ، کاغذات اور دستاویزات کی عدم موجودگی کے بارے میں یہ عاجز پہلے ہی وضاحت کر چکا ہے البتہ فطری بزرگوار الشیخ قاز بن باز کے پوتے الشیخ تلور بن قلور الفطری کا بیان حلفی لف ہے.
میری بہترین معلومات کے مطابق یہ بیان سچ ہے اور سچ کے سوا کچھ نہیں.
فیس بک کمینٹ