یولیسس جیسے بڑے ناول کے مصنف جیمز جوائس نے اپنی بیٹی کے نام ایک خط میں ٹالسٹائی کی کہانی ایک آدمی کو کتنی زمین کی ضرورت ہے کے بارے میں لکھا کہ یہ دنیائے ادب کی عظیم ترین کہانی ہے ۔
یہ ایک شخص پیہوم کی کہانی ہے جس کے پاس پچیس ایکڑ زمین ہوتی ہے لیکن اسے زیادہ سے زیادہ زمین حاصل کرنے کا جنون ہوتا ہے۔ اسے بتایا جاتا ہے کہ اگر تمہیں بہت بڑا زمین دار بننا ہے تو تم بشکیر لوگوں کے پاس جاؤ ، ان کے پاس بہت زمین ہے اور وہ انتہائی سادہ اور بھولے لوگ ہیں جو تمہیں کم رقم میں زیادہ زمین دے دیں گے ۔ ( بشکیر ترک نسل کے لوگ ہیں جو زیادہ تر بشکیریا میں آباد ہیں جسے موجودہ روس میں سرکاری طور پر جمہوریہ بشکیرتستان کہا جاتا ہے جو کوہ یورال اور دریائے وولگا کے درمیان واقع ہے )
پیہوم ایک ہزار روبل لے کر بشکیر سردار کے پاس جاتا ہے اور اس سے زمین خریدنے کی خواہش کا اظہار کرتا ہے ۔ سردار کہتا ہے ٹھیک ہے تم سورج طلوع ہونے سے غروب ہونے تک پیدل چل کے جتنی زمین طے کر لو گے وہ ہزار روبل میں تمہاری ہو جائے گی ، شرط یہ ہے کہ سورج غروب ہونے سے پہلے تم واپس اس مقام پر پہنچ جاؤ جہاں سے چلے تھے ۔ دوسرے دن سورج طلوع ہوتے ہی ایک جگہ نشان لگایا جاتا ہے اور پیہوم اپنی واک شروع کرتا ہے ، وہ تیز تیز چلتا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ زمین گھیر سکے اور نشان بھی لگاتا جاتا ہے ، چلتے چلتے وہ کہیں دور درختوں کا جھنڈ دیکھتا ہے تو اسے گھیرنے کے چکر میں اس طرف چل پڑتا ہے ، اسی طرح کوئی چشمہ یا چراگاہ نظر آئے تو اس طرف چل پڑتا ہے ۔ وہ زیادہ سے زیادہ زمین حاصل کرنے کی کوشش میں بغیر دم لیے مسلسل چلتا رہتا ہے ، شام سے کچھ پہلے اسے احساس ہوتا ہے کہ وہ زیادہ دور نکل ایا ہے اور وہ غروب آفتاب سے پہلے واپس نہیں پہنچ پائے گا تو وہ دوڑ پڑتا ہے ، اس کا سانس پھول جاتا ہے ،دل تیز رفتاری سے دھڑکتا ہے ، ٹانگوں کے پٹھے درد کرنے لگتے ہیں لیکن وہ اپنے جنون میں دوڑا چلا جاتا ہے اور سورج غروب ہونے سے چند سیکنڈ پہلے مقام آغاز پر پہنچ کر سردار کی ٹوپی کو ہاتھ لگاتا ہے اور گر پڑتا ہے ، لوگ زور زور سے تالیاں بجاتے ہیں لیکن پیہوم بے حس و حرکت پڑا رہتا ہے ، وہ سمجھتے ہیں کہ زمین دار صاحب تھکن سے نڈھال ہوئے پڑے ہیں لیکن جب وہ کافی دیر اسی حالت میں پڑا رہتا ہے تو اسے چھو کر دیکھا جاتا ہے ۔۔۔ وہ مر چکا ہوتا ہے ۔۔۔

اس کا نوکر اس کی لاش اسی جاگیر میں دفنا دیتا ہے ۔۔۔ اس نے صرف چھ فٹ جگہ گھیری ہوتی ہے۔
سبق یہ ہے کہ انسان حرص و ہوس سے احتراز کرے ، قناعت اختیار کرے ۔
ہمارے اردگرد بہت مثالیں بکھری پڑی ہیں حرص و ہوس کی ، لوگ مال و متاع جمع کرنے اور زیادہ سے زیادہ جاگیر اور پراپرٹی بنانے کی ریس میں دیانت ، شرافت ۔ اخلاقیات ، انسانیت سب کو کچلنے ہوئے بھاگے چلے جاتے ہیں اور رکنے میں نہیں آتے تاوقتیکہ ان کا دم نہ نکل جائے ۔
اوشو خواہشات کو افق سے تشبیہ دیتے ہیں ، آپ کو لگتا ہے یہ آپ سے دو کلومیٹر دور ہے آپ اسے چھونے کے لیے دوڑتے ہیں لیکن وہ مزید دو کلومیٹر دور چلا جاتا ہے ، جو آپ سے دو کلومیٹر آگے دوڑ رہا ہے وہ بھی وہاں تک نہیں پہنچتا اور جو آپ سے دو کلومیٹر پیچھے ہے ظاہر ہے وہ بھی دو کلومیٹر ہی سمجھتا ہے اور وہ بھی نہیں پہنچ پاتا ۔
لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ آپ ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جائیں اور اپنے حالات بہتر کرنے کی کوشش ہی نہ کریں ۔ آپ نے اکثر سنا ہو گا کہ ’’ ہر شے اتھائیں سٹ ونجنڑی اے ،، ، ،، کیڑھا نال چا گئے ‘‘ ۔ ایسا کہنے والے یا تو بالکل نکمے ہوں گے یا اچھا خاصا مال جمع کر چکے ہوں گے ۔ محنت کیجیے ، ہاتھ پر ہاتھ دھر کر مت بیٹھیے ، ایک اچھی رہائش ، موسم کی سختیوں سے حفاظت اور راحت ، اچھی اور صحت مند غذا ، معقول لباس ، سفر کے لیے مناسب سواری آپ کا حق ہے اور بچوں کے لیے اچھی تعلیم بھی اور ہاں مشکل وقت کے لیے معقول بچت بھی۔۔۔۔
آپ کی ریاست فلاحی ریاست نہیں وہ آپ کا کوئی حق آپ کو نہیں دے گی ، سب کچھ آپ کو اپنے زور بازو سے حاصل کرنا ہو گا۔۔۔ محنت کیجیے ، کمائیے ۔۔۔
لیکن انسانی اخلاقیات ، ملکی قوانین اور سماجی اصولوں کی حدود و قیود میں رہتے ہوئے ۔
،، رج ،، کسی کا نہیں ہوتا ، اپنے دیس کے بڑے بڑے ناموں پر ہی نظر ڈال لیجیے ۔

