محترمہ بینظیر بھٹو کی شہادت کے بعد جب پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت بنی تو اس نے خط غربت سے نیچے موجود لوگوں کے لیے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام شروع کیا ، جہاں تک مجھے یاد ہے پہلے سال اس پروگرام کے لیے ستر ارب روپے رکھے گئے تھے ۔ انہی دنوں ایک دوست کے گھر ایک طاقتور وفاقی وزیر سے ملاقات ہوئی ، دوست نے میرے تعارف میں کچھ زیادہ ہی مہربانی کر دی تو ان otherwise فرعون صفت سیاستدان نے گفتگو میں مجھے بھی ہلکی پھلکی اہمیت دینا شروع کر دی ، بات بینظیر انکم سپورٹ پروگرام پر ہونے لگی تو میں نے جان کی امان چاہتے ہوئے عرض کیا کہ لوگوں کو چند ہزار نقد وظیفہ دے کر بھکاری بنانے کی بجائے اس رقم کو پیداواری عمل میں بھی صرف کیا جا سکتا ہے اور لوگوں کو اس میں حصہ دے کر خوشحال بھی بنایا جا سکتا ہے ۔ وہ کیسے انہوں نے پوچھا ، میں نے عرض کیا کہ آپ ملک بھر سے سات سو چھوٹے قصبے اور گاؤ ں چن لیں وہاں دس دس کروڑ سے کاٹیج انڈسٹری پولٹری ڈیری اور دیگر فارمز شروع کریں ( یاد رہے اس دور میں دس کروڑ ایک بڑی رقم ہوتی تھی ) مقامی مستحق لوگوں کو ان منصوبوں میں شیئر دے کر مالک بنائیں ، انہیں تکنیکی تربیت دیں اور ان کی پیداوار کی کھپت کو بھی مربوط اور یقینی بنائیں ، اگلے سال سات سو اور قصبے اور گاؤ ں چنیں ، یوں آپ کے پانچ سال مکمل ہوتے ہوتے پاکستان کی ہیئت ہی بدل جائے گی ۔
فرمایا آپ کی تجویز اچھی ہے لیکن اس کے لیے ہمارے پاس دوسرے پلان زیر غور ہیں ، بی آئی ایس پی ان مسکینوں کے لیے شروع کیا جا رہا ہے جن کے پاس ایک وقت کا کھانا بھی بمشکل ہوتا ہے۔ میں نے عرض کیا کہ اول تو بقول استاد محترم جناب مستنصر حسین تارڑ اس دور میں سوائے ہڈ حرام کے کوئی بھوکا نہیں رہ سکتا دوسرا یہ کہ جو کچھ مجبور و معذور لوگ ہیں ان کے لیے ایک تو ہمارے ہاں صدقات و خیرات کو بہت اہمیت دی جاتی ہے لوگ اپنی حیثیت سے بڑھ کر بھی ایسے غریبوں کی مدد کرتے ہیں اور پھر سرکار کے پاس زکوۃ اور عشر فنڈ موجود ہے جسے دیانتداری سے خرچ کیا جائے تو ایسے مستحقین کو دو وقت کا کھانا فراہم کیا جا سکتا ہے۔
پھر ہم نے دیکھا کہ ہر ایم این اے کو بی آئی ایس پی کے سو سو فارم دیے گئے جن میں سے اکثر ان کے نوکر چاکروں اور ان کے پولنگ اسٹیشن سنبھالنے والے مقامی با اثر لوگوں میں بانٹ دیے گئے ، اور کافی عرصہ بعد ہمیں یہ بھی پتا چلا کہ کئی مسکین بیوروکریٹ بھی اس فنڈ سے رقم لیتے رہے ہیں، بعد ازاں نادرا کے سروے کی روشنی میں بہت سے مستحقین کو بھی رقم ملنا شروع ہوئی لیکن بات وہی ہے کہ آپ نے انہیں بھکاری بنا دیا۔
یوں تو ملک چلانے والے بھی یہی سمجھتے ہیں کہ جب آئی ایم ایف ورلڈ بنک پیرس کلب اور عرب برادران ہمیں کافی رقم دے دیتے ہیں تو ہم خوامخواہ ملک کے پیداواری وسائل کو بڑھانے کے جھنجھٹ میں کیوں پڑیں ، عام آدمی نے بھی یہی سوچنا شروع کر دیا کہ جب سرکار دے رہی ہے تو ہم کام کیوں کریں ، بعد میں کووڈ کے دنوں میں احساس پروگرام کے تحت اس رقم میں اضافہ کر دیا گیا تو صورتحال یہ ہے کہ دوست بتاتے ہیں کہ کھیتوں اور تعمیرات کے لیے درکار مزدوروں کی تعداد کم ہو گئی اور گاؤ ں میں تو دیہاڑی دار مزدور کافی مشکل سے دستیاب ہوتے ہیں ۔ پھر سیلابوں کے دوران راشن کی تقسیم ہوئی تو لوگ رکشوں کیری ڈبوں یہاں تک کہ کاروں میں صبح سے شام تک مختلف مقامات پر جا کر راشن جمع کرتے دکھائی دیے ، حال ہی میں مفت آٹے کی تقسیم کے دوران بھی لوگوں کو کاروں میں آٹے کے تھیلے لاتے ہوئے دیکھا گیا۔
غربت ہو گی ملک میں لیکن مجھے کم از کم اپنے علاقے میں نظر نہیں آتی ، ہر گھر میں موٹر سائیکل ہے اور وہ چلتی بھی ہے مطلب یہ کہ پٹرول خریدنے کی سکت موجود ہے ، بعض غریب گھروں میں ایک سے زیادہ موٹر سائیکلیں بھی موجود ہیں اور ہاں گھر کے ہر فرد کے پاس ایک سمارٹ فون بھی ہوتا ہے جس میں ٹک ٹاک اور یوٹیوب چلانے کے لیے کارڈ بھی باقاعدگی سے لوڈ کرائے جاتے ہیں اور ہاں ہمارے چھوٹے سے قصبے میں درجن بھر کڑاہی گوشت کے ریسٹورنٹ ہیں ، رات کو وہاں سے گزریں تو لگتا ہے میلے میں آ گئے ہیں۔
البتہ مال مفت والا مائنڈ سیٹ یہاں تک پھیل گیا ہے کہ ہر روز مجھ سے کہیں اچھے لباس میں ملبوس اور میرے فون سے زیادہ قیمتی فون ہاتھ میں تھامے پانچ سات لوگ یہ کہتے ہیں کہ سائیں فیس نہ لینا ۔۔۔۔ اور یہ فیس مبلغ ایک سو روپیہ برباد شدہ سکہ رائج الوقت ہے ۔ جب ڈالر ساٹھ ستر کا تھا تب بھی یہ اتنی ہی تھی اور اب تو آپ جانتے ہوں گے کہ حضرت ڈالر تین سو میں بھی دستیاب نہیں ہوتے۔۔۔
فیس بک کمینٹ