غربت ہمارے ملک کا سب سے بڑا لمیہ ہے ترقی کے اس دور میں ہر شخص یہ چاہتا ہے کہ خوشحال زندگی گزارنے کے ساتھ ساتھ اس کے پاس وہ بنیادی سہولیات ہوں جس سے زندگی کا گزر بسر ٹھیک طرح سے کرسکے ۔ جیسے جیسے ملک میں جدید ترقی ہورہی ہے ویسے ہی افراد کی سوچیں بھی تبدیل ہورہی ہیں افراد کو سب علم ہے کہ کونسی سی حکومت عام آدمی کے لیے بنیادی سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنانے میں ہر ممکن کوشش کررہی ہے ہرمنتخب حکومت غربت کے خاتمے کی پالیسیاں ترتیب دیتی ہے لیکن کوئی بھی طریقہ غربت کو کم نہ کرسکا۔اب جبکہ کورونا وائر س کی وبانے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے اس صورتحال میں حکومت نے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کا نام تبدیل کرکے احساس کفالت پروگرام رکھا دیا اور غریبوں کو رقم دی جانے لگی ۔
جن لوگوں کے نام لسٹ میں آئے ہیں ان کو ذلیل و خوار ہو کر رقم دی جارہی ہے سابقہ حکومت مسلم لیگ ن نے بھی متعدد منصوبے غریبوں کے لیے مختص کیے اور کروڑوں روپے کی رقم بھی جاری کی اب موجودہ حکومت نے بھی الیکشن کے دنوں اور حکومت بنانے کے بعد ابتدائی ایام میں عام آدمی کے لیے اور غربت کے خاتمے کے لیے متعدد وعدے کیے،ایک کروڑ نوکریاں،مہنگائی کم کرنے کے دعوے،کسانوں کو سہولیات اور متعدد ایسے وعدے جن سے عام آدمی خوشحال ہوسکے لیکن کوئی بھی طریقہ عام آدمی کی زندگی کو بہتر نہ بنا سکا بلکہ امیر دن بدن امیر تر اور غریب دن بدن غریب تر ہوتا گیا اس کی کیا وجہ ہوسکتی ہے کہ ہر حکومت صرف وعدے ہی کرتی ہے لیکن عملی طور پر کچھ ہوتا بھی ہے توعام وغریب لوگوں کے لیے مختص کی گئی رقم کرپشن کی نذر ہوجاتی ہے،پاکستان 1947ء میں غریب ملک تھا مگر اس کی معاشی حالت چین،بھارت اور دنیا کے کئی دوسرے ممالک سے بہتر تھی۔سیاسی قیادت مثالی تھی،پہلی وفاقی کابینہ معیاری تھی ابتدائی سالوں میں بجٹ خسارہ بھی نہیں تھا ایک موقع ایسا بھی آیا کہ دنیا کے کئی ممالک پاکستان کے معاشی منصوبے کو اپناتے تھے،آج کا پاکستان دنیا کا پسماندہ اور غریب ملک ہے بہت سے لوگ قومی دولت پر قابض ہیں اور عیش و عشرت کی زندگی بسر کررہے ہیں، جبکہ متعدد شہریوں کی زندگی مشکل ہوچکی ہے پاکستان کی روز بروز بڑھتی ہوئی آبادی غربت کا بڑا سبب ہے،آزادی کے وقت پاکستان کی آبادی تقریبا 5کروڑ تھی جو آج 22کروڑ سے بھی تجاوز کرچکی ہے ہمارے ملک میں وسائل کم ہیں اور آبادی زیادہ ہے جس کی وجہ سے غربت میں اضافہ ہورہا ہے اگر آبادی اسی تناسب سے بڑھتی رہی تو آبادی کا ایٹم بم کسی بھی وقت پھٹ سکتا ہے،افراط زر بھی غربت کا سبب بن رہا ہے ریاست کی آمدنی کم اور اخراجات زیادہ ہیں،بجٹ خسارے کو پورا کرنے کے لیے نوٹ چھاپے جارہے ہیں،بیرونی قرضے لیے جارہے ہیں جن سے پیداوار نہیں ہوتی البتہ قرضوں پر سود کی ادائیگی کرنی پڑتی ہے جس سے قومی خزانے پر بوجھ پڑتا ہے اور قومی وسائل شہریوں پر خرچ نہیں ہوتے۔ہوشربا بے روزگاری سے بھی غربت میں اضافہ ہورہا ہے زراعت اور صنعت کو مستحکم کیا جاتا تو روزگار کے مواقع پیدا ہوتے اور شہری غربت کی لکیر سے نیچے نہ جاتے، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی معیشت کو بری طرح متاثر کیاہے۔جہالت بھی غربت کا اہم سبب ہے تعلیم پر بہت کم سرمایہ کاری ہوئی ہے،کروڑوں شہری ان پڑھ ہونے کی وجہ سے کام کاج کے قابل ہی نہیں ہیں ۔
اگر لوگ تعلیم یافتہ ہوجائیں اور ہنر سیکھ لیں تو غربت سے باہر آسکتے ہیں مگر حکومتیں تعلیم کی جانب توجہ نہیں دیتیں،حکومت کی طرف سے تعلیم پر بجٹ کم رکھا جاتا ہے پاکستان میں تعلیم کی شرح تقریبا 60فیصد ہے جسے ہنگامی بنیادوں پر بڑھانے کی ضرورت ہے۔جہالت کی وجہ سے سماجی مسائل اور جرائم میں اضافہ ہورہا ہے پاکستان میں غیر منصفانہ سیاسی اور معاشی نظام بھی عدم مساوات اور غربت کا سبب بنا ہوا ہے اگر قومی وسائل کی تقسیم منصفانہ ہوتی اور عوام کا استحصال نہ کیا جاتا تو پاکستان کے شہری بھوک اور افلاس کا شکار نہ ہوتے۔
جس ریاست میں اخلاقیات کا جنازہ نکل جائے وہ ریاست مختلف بحرانوں کا شکار ہوجاتی ہے،پاکستان کے بیوروکریٹ اور سیاستدان اگر اخلاقی اقدار کے دفاع اور تحفظ کا فیصلہ کرلیں تو پاکستان تبدیل ہوسکتا ہے اور ہر مسائل حل ہوسکتا ہے۔پاکستانی سیاستدانوں کو چاہیے کہ عام آدمی اور جو لوگ خط غربت سے بھی نیچے زندگی گزار رہے ہیں ان کے لیے کوئی مؤثر پالیساں ترتیب دیں تاکہ عام آدمی بھی خوشحا ل ہوسکے،غربت کی وجہ سے ہمارے ملک میں متعدد لوگوں نے خودکشیاں کی ہیں بحرحال غربت مسائل و جرائم کی آماجگاہ ہے اس سے چھٹکارہ تب ہی ممکن ہے جب ہمارے سیاستدان اور بیوروکریٹ عام و غریب شخص کے لیے خلوص نیت سے سوچیں گے۔لیکن افسوس صرف اس بات کا ہے کہ یہاں غربت کی بجائے غریب کو ختم کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں
وہی حالات ہیں فقیروں کے
دن پھرے ہیں فقط وزیروں کے
فیس بک کمینٹ