محترمہ عاصمہ جہانگیر خواتین کے حقوق کی علمبردار رہی ہیں ، یہاں تک کہ گھر سے بھاگ کر آنے والی لڑکیوں کو پناہ دیتی رہی ہیں ان کے مقدمے لڑتی رہیں ہیں ، ایک بدقسمت خاتون ان کے دفتر میں قتل بھی ہو گئی تھی، عاصمہ صاحبہ ان معاملات کو میڈیا پر اٹھاتی رہی ہیں احتجاجی جلوس نکالتی رہی ہیں …….
لیکن بدلتی ہے رنگ عاصماں کیسے کیسے…
لاہور میں ایک معروف وکیل کے صاحبزادے نے ٹھکرائے جانے کا بدلہ لینے کے لئے ایک بچی پر خنجر کے 23 وار کئے ، اس کے دن باقی تھے وہ بچ گئی ، ملزم کی حفاظتی ضمانت منسوخ ہونے پر وکلاء اسے گرفتاری سے بچا کر لے گئے، بعدازاں اسی جج نے کوئی نئی دلیل یا ثبوت پیش نہ کیے جانے کے باوجود مبینہ طور پر وکلاء کے دباؤ پر ضمانت منظور کر لی ، بچی اور اس کے والدین کو مسلسل دھمکیاں مل رہی ہیں ، ایک ٹیلیویژن چینل نے اس مظلوم بچی پر پروگرام کیا تو سپریم کورٹ بار کے جنرل سکریٹری نے انہیں پچاس کروڑ روپے کا لیگل نوٹس بھیج دیا . چینل نے اس اشو پر بات کرنے کے لئے محترمہ عاصمہ جہانگیر کو دعوت دی ، انہوں نے کیا فرمایا سنیے اور سر دھنیے. .
مجھے اس حوالے سے زیادہ معلومات نہیں ہیں
معاملہ عدالت میں subjudiced ہے اس پر بات نہیں ہونی چاہئے تھی.
ملزم اور اس کے والد کو بھی اپنا مؤقف پیش کرنے کے لئے بلایا جانا چاہئے تھا
وکلاء گردی کا لفظ استعمال نہیں ہونا چاہیے تھا.
بہرحال بچی کی ساتھ زیادتی ہوئی ہے تو اس کی مذمت کی جانی چاہئے. … …. محترمہ کوئی زیادتی نہیں ہوئی بچے کو کھلونا نہ ملے تو وہ ناراض ہو کر کچھ نہ کچھ توڑپھوڑ کرتا ہے ، آپ کے کولیگ کے بیٹے نے بس خنجر سے 23 زخم ہی تو لگائے ہیں ، وہ لڑکی مری بھی تو نہیں … آپ کو اکیس قانون کی کتابوں کی سلامی……
فیس بک کمینٹ