آج مرشدی استاذی اللہ بخش المجروح کے ملفوظات آپ کی نذر ہیں۔ فرمایا استاد نے ۔۔۔ مرشد آج صبح تربوش عبا اور عقالہ میں ملبوس زنان خانہ سے برآمد ہوئے باہر مردانے میں کافی لوگ جمع تھے ، بعد سلام مسنون فرمایا؛ آج سے ہم خلیج تعاون کونسل سے یکجہتی کے اظہار کے لئے لباسِ عرب میں ملبوس رہا کریں گے ، غذائےعرب تناول فرمایا کریں گے، اپنا تخلص شریف بھی زخمی سے بدل کر المجروح کر رہے ہیں ،
ہم دست بستہ عرض پرداز ہوئے کہ بخش بھی تو عجمی ہے فرمایا یہ ہمارے جد مرحوم الشیخ جند وڈا النجدی کا دیا ہوا نام ہے اس میں تبدیلی کے ہم مجاز نہیں ،
سلسلہ گفتگو کو آگے بڑھاتے ہوئے فرمایا ہم اس امر کے لئے تمام تر مساعی عمل میں لائیں گے کہ اپنے کلام اور مکالمہ میں الفاظ عجم کی اس طرح قلت پیدا کر دیں جس طرح ہمارے صاحبان امر اور عمال میں شرم، حیا، صدق اور غیرت جیسی جاہلانہ اقدار کی قلت ہو گئی ہے .. اس امر کی بھی سعی فرمائیں گے کہ صحرائے دامان میں جا کر قاز اور تلور پر رمی بالبندوق کریں اور بصورت رضائے الٰہی عقد ثانی و ثالث و رابع فرمائیں.. یہ کہتے ہوئے آپ نے لہجہ دھیما فرما لیا اور کنکھیوں سے زنان خانے یا ان کے نئے عربی لہجے میں کہئے کہ حرم کی طرف دیکھا… پھر بولے
آج میں آپ سے ایک عام محنت کش بلکہ کاسب کیوں نہ کہوں ، کاسب حیوان خر کی خصوصیات کے بارے میں کلام کروں گا ، معذرت …حمار کے بارے میں کیونکہ خر عجمی ہے ، تو سامعین عزیز! حمار کا تذکرہ مقدس کتابوں میں بھی ہے ، یہود و نصاریٰ کے علماء کو کتابوں کا وزن اٹھائے حمیر سے تشبیہ دی گئی ہے حمیر حمار کی جمع ہے ، اسی طرح صوت حمیر کو سب سے بری آواز کہا گیا ہے، جیسے ہندوستانی پکے گانے ہوتے ہیں یا روسی اوپیرا اوووووو ای ی ی ی ی آ آ آ آ آ سماعت فرمائی ہوں گی آپ نے … یہ قابل مذمت ہیں انہیں سننا قابل تعزیر ہونا چاہیے ، جب ہم صالحین مجلس شوریٰ میں اکثریت حاصل کر لیں گے تو ہم اس کے لئےقانون تعمیر کریں گے مقصد یہ کہ بنائیں گے اور عقدہائے کثیر کے لئے بھی قانون سازی کریں گے .
ویسے آپ شوریٰ کو اسمبلی یا پارلیمنٹ کہہ سکتے ہیں کیونکہ لفظ شوریٰ ایرانی عجمی بھی اپنی اسمبلی کے لئے استعمال کرتے ہیں لہذا افضل یہی ہو گا کہ ہم شوریٰ نہ کہیں.
ایک بات بہت صراحت سے کہتا ہوں کہ حمار حرام نہیں ، بدوی حمیر یا وائلڈ ایس تو شکار کر کے انتہائی ذوق و شوق سے تناول کیے جاتے ہیں ، عام حمار بعض فقہا کے نزدیک مکروہ ہیں…. یعنی حرام بالکل نہیں.
ہمارے بلد محبوب اللاہور الشریف کے رہنے والوں کے تناول لحم حمار کے بارے میں لطائف گھڑنا اور حمار کھانے والوں کی طرف سے انتخابات میں حمار منتخب کرنے کی رزیل بات کو مزے لے لے کے سنانا یا تحریر کرنا ہماری ناقص صائب رائے میں حرام ہے ..میں سوال کرنے کے لئےاٹھنے لگا تھا کہ انہوں نے مجھے ٹوک دیا اور زہریلی مسکراہٹ کے ساتھ بولے تمہاری تکلیف میرے علم میں ہے اور جو درد تمہارے بطن میں اٹھا ہے میں اس سے واقف ہوں، تمہیں ناقص صائب رائے پر اعتراض ہو گا تو سنو اے جہل مرکب میں مبتلا نامعقول معترض !ناقص ہم نے بطریق کسر نفسی فرمایا جبکہ صائب اظہار حقیقت تھا. انہوں نے خطبہ جاری رکھا…. فرمایا
تم طبقہ حاسدین غربا! اللہ تمہارے حسد سے اپنے امیر و رئیس عبدوں کو امان میں رکھے، تم جنہیں اللہ نے غربت کی ذلت میں مبتلا فرمایا ہے، اس کے معزز امیر عباد سے حسد کرتے ہو اور بالشویکی درندوں کی طرح ان کے اثاثوں پر قابض ہونا چاہتے ہو، بغور سنو تم اسی طرح تلملاتے ہوئے خالی ہاتھ اس دنیائے دنی و فانی سے دفعان ہو جائو گے ،امرائے محترم کے بلند و بالا قصر وایوان قائم و دائم رہیں گے، اور کان کھول کر سنو اعمال صالح بھی وہی بجا لاتے ہیں …خیرات و صدقات، حج و عمرہ جات و زیارات، خدمت علماء و اتقیا و اصفیا وہی کرتے ہیں ، دنیا و مافیہا اور عقبیٰ سب ان کے لئے ہیں .یہ سعادت بزور بازو بلکہ بقوت ید نہیں ، من فضل ربی ہے ….. سرے ، جاتی عمرہ اور بلدہ بحریہ کے محلات تمہارے ناقص و ضیق تصورات میں بھی نہیں سما سکتے.
حسد انسان کو ہلاک کر دیتا ہے اس سے بچو ، کیا تمہارا رب اس پر قادر نہیں تھا کہ سب کو امیر پیدا کرتا لیکن اس نے دو طبقات خلق فرمائے ، طبقہ ثانی، طبقہ اولیٰ یعنی طبقہ اعلیٰ کی خدمت کے لئے خلق کیا گیا ہے.
ایک کمزور مدقوق سا چیتھڑوں میں ملبوس شخص اٹھا اور گرجدار آواز میں بولا جو نجانے اس کے نحیف پھیپھڑوں میں سے کیسے برآمد ہو رہی تھی ؛ اور یہ جو تم تیسرا طبقہ ہو اس کے بارے میں تم نے نہیں بتایا کہ اسے کس نے خلق کیا ؟ تم انسانی معاشرے کے مخنث اور خواجہ سرا ، بالادست طبقے کے چاپلوس اور معذرت خواہ ، استحصالیوں کے ٹیسٹ ٹیوب بچے تم کہاں سے آئے ، اب تمہارے جہل مرکب کا دور ختم ہو گیا اب شعور اور سائنس کا عہد ہے ، ہم یہ سوچ کر آئے تھے کہ تم صوفی ہونے کے مدعی ہو ، انسانی مساوات حقوق اور بھائی چارے کی بات کرو گے… لیکن تم ہمارے سامنے وہی ہزاروں سال قدیم بکواس دہرا رہے ہو جو ہامان اور بلعم باعور کیا کرتے تھے ، دفع ہو جائو ورنہ تمہارے سر یا تمہاری گاڑھی زبان میں راس بلکہ راس الخیمہ پر اتنے جوتے رسید کریں گے کہ موہائے غیرمبارک سے محروم ہو کر مشاہداللہ ہو جائو گے ، مجمع ایک دم بول پڑا ،کچھ آوازیں شیخ المجروح کے حق میں بھی اٹھیں لیکن اکثر آوازیں ان کے خلاف تھیں ، لوگ ان کے سر کو شتر مرغ کا انڈا بنانے آگے بڑھے تو انہیں نعلین در بغلین کرنے کا موقع بھی نہ ملا اور وہ نعلین چھوڑ کر فر یفر فرارا ہو گئے
فیس بک کمینٹ