بھیاجانی بہت کنجوس طبیعت کے ثابت ہوئے تھے ،یہی وجہ تھی کہ گھر میں پورے ہفتے میں چار دن تو دال پکتی تھی اور پھر دو دن سبزی، ایک دن گوشت ۔۔ بھیا جانی کی اس کنجوسی کی وجہ سے علی شان ،نعیمہ زہری،اورامی جان بہت پریشان تھے ۔ابو وفات پاچکے تھے گھرکاسارا بوجھ بھیاجانی پرآ چکاتھا ابو کے آفس اورگھربار کوبھیا جانی نے ہی سنبھال رکھا تھا۔
ایک دن ایسا ہوا کہ بھیا جانی ایک عدد سانپ کا مجسمہ لے کر آئے اوربتایا کہ یہ ہیرے کامجسمہ ہے اور 15لاکھ کا ہے سب کو حیرانی ہوئی اتنا مہنگا ہیرے والا مجسمہ اور وہ بھی بھیا جانی لائے جو کسی کو پھوٹی کوڑی بھی نہیں دیتے تھے۔
رات کے تقریباً ایک بج رہے تھے کہ بھیا جانی کے کمرے میں آواز گونجی،آواز اتنی بلند تھی کہ بھیا جانی ہڑبڑا کراٹھ بیٹھے اور لگے ادھراُدھردیکھنے مگر کمرے میں کوئی نہ تھا۔اچانک ان کی نظر اپنی جوتی پر پڑی جوکہ سانپ بن چکی تھی۔
سانپ سانپ بھیاجانی شور مچاکر نیچے برآمدے میں آگئے اچانک ان کو ایسے لگاجیسے ان پرکسی نے بھاری چادر گرا دی ہے اورپھر بھیا جانی پرڈنڈے برسنے لگے اورساتھ ہی یہ آواز سنائی دی ”ہم نے چور پکڑ لیا“ بھیا جانی بیہوش ہو چکے تھے۔ علی شان نے چادر اُٹھا کردیکھی توچادر مٰیں مارکھانے والے بھیا جانی تھے ۔ اوہ ! ہم نے یہ کیا کیا نعیمہ زہرہ نے کہا،علی شان نے بھیاجانی کوکندھے پرلادا اور کمرے کی طرف بڑھنے لگے۔علی شان دھڑام سے فرش پر گرگیا کیونکہ فرش پرکیلے کے چھلکے پڑے تھے۔جوعلی شان نے رات کوسونے سے پہلے کھائے تھے اورچھلکے فرش پرگرادیئے تھے ۔
بھیا جانی کوہوش آیا تونعییمہ زہرہ نے معافی مانگی اوربتایا کہ ہم نے سمجھا کہ کوئی چور ہے ۔بھیاجانی نے سانپ والی بات سب کوبتائی اورسارے ہی ڈرنے لگے ۔ بھیاجانی نے علی شان سے کہا دیکھو کمرے میں سانپ ہے اگر ہے تو مار دو علی شان نے کہامجھے ڈر لگتاہے میں نہیں جاتا توبھیانے علی سے کہا تم کتنے بہادر ہومیرا بھائی اتنا بہادرہے کہ اس جیسا بہادر اس دنیامیں توہے ہی نہیں۔علی شان نے اپنی تعریف سنی توکہنے لگا میں ضرور سانپ کومارنے جاؤں گا اورکمرے سے نکل کر اوپر والے کمرے کی سیڑھیوں سے نیچے گرگیا۔دوسری طرف امی نعیمہ ،زہرہ اوربھیا جانی نے شور مچانا شروع کردیا کچھ دیر بعد علی شان کمرے میں ہانپتا کانپتا داخل ہوا اورکہایہ دیکھو میں نے سانپ کوماردیاہے ۔سب ہنسنے لگے علی شان کے ہاتھ میں بلی کی دم تھی بھیا جانی نے کہا علی شان اپنی عینک درست کرویہ بلی کی کٹی ہوئی دم ہے دم ۔ علی شان نے بلی کی دم نعیمہ کی طرف گرائی ،نعیمہ نے شور مچایا اورامی جان سے لپٹ گئی اتنے میں شی شی سانپ کی آواز دوبارہ سنائی دی۔بھیاجانی نے کہا سانپ اسی طرف آرہاہے ۔سب ایک ساتھ دم سادھ کربیٹھ گئے۔
اچانک کمرے کادروازہ کھلااورسانپ نماہیرے کامجسمہ اڑتاہوا اندرداخل ہوا۔ہیر ہیرے کاس سا
سانپ آ بچاؤ۔کمرے میں شورمچ گیا ،خاموش ہوجاؤ۔تمہارا ایمان کمزور ہے اس لئے توہم سے ڈرتے ہو۔ اب میں تمہیں ختم کردوں گا سانپ نما ہیرے کے مجسمے میں سے گرج دار آواز آئی وہ مجسمہ اصلی سانپ بن گیا اور بھیا کی طرف بڑھا۔
بھیاجانی ہڑبڑا کراٹھ بیٹھے اورادھرادھردیکھنے لگے اورپھر اپنے آپ سے کہایہ سانپ کہاں گیا؟اوریہ امی ،نعیمہ ،زہرہ ، اورعلی شان کہاں گئے؟کہیں میں خواب تو نہیں دیکھ رہاتھا؟انہوں نے ایک مرتبہ پورے کمرے میں نظر دوڑائی اورسانپ کے مجسمے کودیکھا اورکہاشکرہے یہ سب خواب تھا ،اچانک فون کی گھنٹی بجی بھیا جانی نے ریسیور اٹھایا توساتھ پڑا سانپ نما مجسمہ ہاتھ لگنے سے زمین پرگر کرٹوٹ گیا بھیاجانی نے ڈر کے مارے ریسیور چھوڑ دیااورمجسمے کے ٹوٹے ہوئے ٹکڑوں کودیکھا اور پھرمعائنہ کرنے والے کوبلایا۔اس نے معائنہ کرکے بتایا یہ نقلی ہیرے کا سانپ ہے بھیاجانی نے اتناسناتووہ یہ کہتے ہی بے ہوش ہوگئےہائے میرا 15لاکھ کامجسمہ۔
بھیاجانی کوہوش آیاتوان کے سرہانے امی جان بیٹھی تھیں اورعلی شان او رنعیمہ کھڑے تھے ۔امی جان نے بھیاجانی کے بالوں میں انگلیاں پھیریں اورپیار سے کہنا شروع کیا۔
بیٹا!اتنی کنجوسی ختم کرواتنی دولت ہے اس کاہم کیاکریں گے۔یہ دولت ہمارے کسی کام کی نہیں ہے۔دولت سے ہم مصنوعی خوشی خرید سکتے ہیں مگر حقیقی خوشی نہیں،جواپنوں سے ملتی ہے ۔دولت ہی کی وجہ سے تومحبت کہیں دور جاچکی ہے بلکہ ختم ہوچکی ہے ۔اسی دولت کی وجہ سے انسان رات کی نیندیں حرام کردیتاہے ۔ہم سب نے ختم ہوجانا ہے مگر دولت نے یہیں رہ جاناہے ۔امی جان کہہ کرخاموش ہوگئیں توبھیا بولےامی جان آپ نے میری آنکھیں کھول دی ہیں مجھے معاف کردیں توامی جان نے پیار سے سمجھاتے ہوئے بھیاجانی سے کہامعافی اس ذات کریم
سے مانگو جوسب کومعاف کرنے والا ہے نہایت رحم کرنے والا ہے کیونکہ وہ سب کی سنتا ہے ۔بھیاجانی نے اللہ سے معافی مانگی کیونکہ ان کو بات سمجھ آگئی تھی۔
فیس بک کمینٹ