اس شاعرہ کا فون سننے کے بعد مَیں نے سوچا کہ اگر احمد فراز کی کوئی بیٹی ہوتی تو اس کی عمر بھی اس سے کہیں زیادہ ہوتی اور یہ بتانا تو مَیں آپ کو بھول ہی گیا کہ اس شاعرہ نے مجھے 15 فروری کو یہ بھی بتایا کہ احمد فراز کی فلائٹ 13 فروری کی شام کو تھی لیکن انہوں نے 14 فروری کا دن میرے ساتھ گزارنے کے لئے اپنی ٹکٹ کینسل کروا دی۔ اس بات کی تصدیق مَیںنے برادرم حامد رضا سے کی تو اس نے بتایا 13 فروری کی شام کو پی آئی اے کی فلائٹ فنی خرابی کی وجہ سے روانہ نہ ہو سکی جس وجہ سے مسافروں کو اگلے دن شام کی فلائٹ سے اسلام آباد بھیجا گیا۔ مَیں نے اس شاعرہ کو اس ساری صورتحال سے آگاہ نہ کیا کہ وہ دلبرداشتہ ہو جائے گی کیونکہ اس نے اپنے ویلنٹائن یعنی احمد فراز کے اظہارِ محبت کو زندگی کا حاصل جانا تھا اور جب وہ اپنا سب کچھ احمد فراز کو دان کرنے کی بات کر رہی تھی تو مجھے کشور ناہیدکی لکھی ہوئی وہ بات یاد آ گئی جس میں انہوں نے لکھا تھا کہ یہ لڑکیاں سمجھتی تھیں کہ اب ڈھولک رکھ دی جائے گی۔ وہ شاعرہ بھی احمد فراز کے نام کی اپنے گھر میں ڈھولک رکھنا چاہتی تھی۔ احمد فراز نے اس سے محبت کا اظہار یوں بھی کیا کہ اس شاعرہ کو کہا کہ وہ ان کے ہر شعری مجموعے سے غزلیات کے مقطعوں کا انتخاب کرے جس کو دوست پبلی کیشنز اسلام آباد کے آصف صاحب پاکٹ سائز میں شائع کریں گے۔ اس شاعرہ نے احمد فراز کی خواہش پر ان کے تمام شعری مجموعوں پر کام بھی شروع کیا جس پر احمد فراز نے بھی اپنے ہاتھوں سے کچھ شعر لکھے۔ نمونے کے طور پر اس شاعرہ کے ہاتھ کا لکھا ہوا انتخاب اور احمد فراز کی تصحیح ملاحظہ فرمائیں۔
اس واقعے کے کئی سال بعد وہ شاعرہ ملیں مَیں نے اس سے احمد فراز کی بابت پوچھا تو کہنے لگی وہ مجھ سے شادی نہیں کرنا چاہتے تھے بس دوستی رکھنا چاہتے تھے۔ مَیں نے اس رشتے کو ختم کر دیا ہے بلکہ مَیں آپ سے یہ کہنے آئی ہوں کہ میری شاعری کے تینوں مجموعوں کو نذرِ آتش کر دیں کہ مَیں اس طرح کی شاعری کو گناہ سمجھتی ہوں۔ اس ملاقات میں اس شاعرہ نے یہ بھی بتایا کہ وہ عمرہ کے لیے اگلے ہفتے سعودی عرب جا رہی ہیں۔ واپسی پر ملاقات ہو گی۔ دو مہینے بعد جب وہ کتاب نگر آئی تو اس نے اپنے ہاتھوں پر دستانے چڑھا رکھے تھے۔ میرے حوالے نعتیہ شعری مجموعہ کیا اور کہا اس کو ایک ہزار کی تعداد میں شائع کر کے تقسیم کر دیا جائے شاید اس عمل سے میرے کچھ گناہوں کی تلافی ہو سکے۔ آج اس بات کو گزرے دس سال سے زیادہکا عرصہ ہو گیا ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ اس شاعرہ نے شادی کی یا نہیں البتہ ایک بات کا یقین ہے کہ وہ شاعری سے توبہ تائب ہو چکی ہو گی۔ اس نعتیہ مجموعے کی اشاعت کے بعد اس نے کبھی رابطہ نہیں کیا۔
ذکر ہو رہا تھا احمد فراز کی اُن مصروفیات کا جہاں وہ مہتابی چہروں کے درمیان رہ کر زیادہ خوشی محسوس کرتے تھے۔ ملتان میں میری موجودگی میں یہ ایک معاملہ سامنے آیا البتہ ایک مرتبہ پیر ریاض حسین قریشی کے گھر محفل سجی ہوئی تھی احمد فراز نے پیر صاحب سے کہا پیر صاحب یہ محفل تب یادگار ہو گی جب کوئی صنفِ مخالف بھی اس کا حصہ ہو گی۔ پیر صاحب ضلع ناظم تھے۔ انہوں نے اپنی ضلعی اسمبلی کی سب سے خوبصورت خاتون رکن کو فون کیا اور کہا احمد فراز صاحب میرے گھر موجود ہیں آپ کھانا اکھٹے کھا سکتی ہیں۔ رات کے ساڑھے گیارہ بجے تھے وہ ابھرتی ہوئی خوبصورت سیاست دان اپنے خاوند کے ساتھ کچھ ہی دیر میں پیر صاحب کے ڈرائنگ روم میں موجود تھیں۔ سب نے اس کے خاوند کو ساتھ دیکھا تو بدمزہ ہوئے۔ وہ ابھرتی ہوئی خوبصورت سیاست دان اپنے ضلع ناظم کی خوشامد کے لیے آ گئی تھی ورنہ اس کا احمد فراز اور اس کی شاعری سے کوئی تعلق نہ تھا۔ آج کل وہ پی ٹی آئی ملتان کی نمایاں رہنما کے طور پر کام کر رہی ہے لیکن خوشی اس بات کی ہے کہ وہ احمد فراز کی مداح نہیں تھی ورنہ فراز صاحب اس سے بھی اظہارِ محبت کر دیتے۔
انہی دنوں کی بات ہے کہ رضی الدین رضی نے مجھ سے کہا کہ مَیں احمد فراز کا ایک تفصیلی انٹرویو اپنے اخبار کے لیے کرنا چاہتا ہوں۔ وقت لے کر دو، مَیں نے فراز صاحب سے انٹرویو کے لیے بات کی انہوں نے صبح دس بجے کا وقت دے دیا۔ اور یہ بھی شرط رکھی کہ صبح رضی اکیلا نہیں ہو گا مجھے بھی آنا ہو گا۔ میرے تمام احباب کو معلوم ہے کہ صبح سویرے اٹھنا میرے لیے کتنا مشکل ہوتا ہے۔ لیکن رضی اپنی صحافتی مجبوریوں کی وجہ سے رات کو دیر میں سونے کے باوجود صبح جلدی اٹھ جاتا ہے۔ اسی وجہ سے وہ مقررہ وقت پر اپنے اخبار کے فوٹوگرافر عقیل چوہدری کو لے کر رمادا پہنچ گیا۔ استقبالیہ پر جا کر رضی نے ان کو فون کیا، انہوں نے کہا کہ آپ پانچ منٹ تک میرے کمرے میں آ جائیں۔ رضی بتاتا ہے کہ جب مَیں پانچ منٹ بعد ان کے کمرے کے باہر پہنچا تو کمرے سے ایک نقاب پوش خاتون باہر آ رہی تھیں۔ رضی نے جاتے ہی احمد فراز سے کہا یہ خاتون بھی کسی اخبار سے تھیں؟ احمد فراز نے مسکراتے ہوئے کہا نہیں یہ ایک ابھرتی ہوئی شاعرہ ہیں، مَیں اس کا ”لب و لہجہ“ درست کر رہا تھا یہ کہتے ہوئے احمد فراز زیرِلب مسکرائے اور کہنے لگے پہلے چائے پیتے ہیں بعد میں گفتگو کریں گے۔ اسی اثناءمیں فوٹوگرافر عقیل چوہدری نے احمد فراز کی تصاویر بنانا شروع کیں۔ احمد فراز اس وقت اپنے بستر پر نیم دراز تھے۔ جیسے ہی انہوں نے فوٹوگرافر کو تصاویر بناتے دیکھا، انہوں نے کہا ”مجھے صوفے پر آ کر بیٹھ لینے دو۔ لوگ کیا سوچیں گے کہ احمد فراز بیڈ پہ اکیلا لیٹا ہوا ہے۔“ اتنی دیر میں مَیں فراز صاحب کے کمرے میں داخل ہوا رضی نے مجھے ”لب و لہجے“ والی شاعرہ کا ذکر کیا تو مَیں سمجھ گیا کہ یہ وہی شاعرہ ہے جس کے عشق میں احمد فراز آج کل مبتلا ہو چکے ہیں۔
اُن کے فرزانہ ہونے کے قصّے یوں تو بہت عام تھے لیکن شمیم اکرام الحق نے اپنی یادوں میں جب یہ واقعہ لکھا تو ہمیں یقین آ گیا کہ وہ سب کچھ اپنی اہلیہ کی ”رضامندی“ سے کرتے رہے۔ شمیم اکرام الحق لکھتی ہیں: ”مجھے نہیں یاد کہ فراز نے کب اور کیسے مجھے بہن بہن کہنا شروع کیا۔ یاد ہے تو بس یہ کہ ہمیشہ بہن سمجھا بھی۔ فراز کے حلقہ احباب میں سے شاید مجھے ہی یہ اعزاز حاصل ہوا کہ انہوں نے ایک بار کچھ غیرملکی سفارت کاروں کے ساتھ مجھے بھی اپنے گھر ڈنر پر مدعو کیا اور اس موقعہ پر ریحانہ بھابھی سے میرا تعارف کرواتے ہوئے اُن سے کہا لو بھئی ان سے ملو یہ تمہاری اکلوتی نند ہیں۔ فراز کے بارے میں عام تاثر یہ تھا کہ وہ بے حد رنگین مزاج ہے۔ عاشق ہونے میں دیر نہیں لگاتا۔ اسی تاثر کو ذہن میں رکھتے ہوئے ایک بار مَیں نے اسلام آباد کلب میں فراز کے ساتھ ہونے والی تقریب میں مضمون پڑھتے ہوئے پنجابی کی کہاوت پڑھی تھی ’جیوے میرا بھائی میری گلی گلی بھرجائی“ حاضرین نے اس جملے کو بہت سراہا۔ خود فراز بھی بہت لطف اندوز ہوئے اور اس کے بعد جب بھی اپنی کسی نئی دوست سے تعارف کرواتے تو مسکرا کر کہتے ”بھرجائی ہے“۔ لیکن ان سب باتوں کے باوجود جہاں تک میری یادداشت کام کرتی ہے مَیں نے فراز کو کبھی کسی خاتون پر ریشہ خطمی ہوتے نہیں دیکھا جیسا کہ اکثر شاعروں بلکہ بزرگ شاعروں کو بھی مَیں نے دیکھا ہے۔ فراز کے رویے میں کبھی مَیں نے کوئی ناشائستہ انداز یا لچر پن نہیں دیکھا۔ معاملہ بالکل اس کے برعکس تھا۔ مَیں نے خواتین کو فراز پر پروانہ وار نثار ہوتے دیکھا۔ ایک بار مَیں نے فراز سے کہا ”برا ہو ان زنانِ مصر کا اپنی انگلیاں تو کاٹتی ہیں سو کاٹتی ہیں میرے بھائی کو خوامخواہ بدنام کرتی ہیں۔“ فراز بہت ہنسے۔ کہنے لگے ”بھئی تم میری گواہ رہنا“۔ رہی بات حسن پرستی کی، اتنے بڑے شاعر کو اتنا تو حق ہونا ہی چاہیے اور یہ چھوٹ تو انہیں ریحانہ بھابھی نے بھی دے رکھی تھی اور بے دریغ دے رکھی تھی۔ کبھی پلٹ کر نہ پوچھا
”چن کتھاں گزاری ہئی رات وے“
(مکمل)
فیس بک کمینٹ