سوشل میڈیا پراِن دنوں ڈاکٹر ناصر عباس نیئر کی بہ طور ڈائریکٹر جنرل اُردو سائنس بورڈ تعیناتی کی خبروں کا خوب چرچا ہے۔مبارک سلامت کی صدائیں اورایجاب وقبول کی ادائیں دلوں میں گھر کررہی ہیں۔چوں کہ میں بھی ڈاکٹر صاحب کے معتقدین کی صف میں شامل ہوں اس لیے میں نے بھی اپنی بساط کے مطابق اس خوش خبری کی تشہیر کی۔کئی دوستوں نے ڈاکٹرناصرعباس نیئرکے بارے میں استفسارکیاا تو میں نے مناسب جاناکہ جتنا میں انھیں جانتا ہوں ،سب کو بتادوں۔تودوستو ڈاکٹر ناصر عباس نیئرکی شخصیت کے کئی پہلو ہیںجن میں زیادہ تر میری کوتاہ بیں نگاہوںکی دسترس میں نہیں ہیں۔ہاں جو چند ایک پہلو مجھے نظر آئے اُن میں ڈاکٹر صاحب کی بہ طور استادایک الگ شان اور ایک منفردمقام ہے۔میری اُن سے پہلی جان پہچان اُس وقت ہوئی جب میں اورینٹل کالج میں بہ طورطالب علم وارد ہوا۔ابھی میں فائنل لسٹ اور کلاسز کے اجراکے درمیانی برزخ میں ہی تھا کہ مجھے ایک ایسے طبقے نے آگھیرا جس کا کاایجنڈا کچھ لفظوں کے ہیر پھیرکے ساتھ کچھ ایسا تھا ۔۔۔ ”بچ کے رہنا“،”بھائی چُپ ہی بھلی “،” رستہ بدل لینا،ڈاکٹرصاحب رَج کے بے عزتی کرتے ہیں “۔میں حیران تھا کہ آج کے دور میں بھی لوگوں کا یہ چلن ہوسکتاہے۔میںصحیح معنوں میں ہر اُس ”معصوم“طالب علم کی طرح سہم گیاجوگورنمنٹ کالج لاہور کی آزاد فضاو¿ں کاحظ اٹھا چکاہو۔چوں کہ اُس مادرِعلمی میں حصولِ علم کے ساتھ میں آزادی رائے کابھرپور استعمال کرتا اورغیر نصابی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا رہاتھا، اس لیے مجھے نہایت افسوس ہوا کہ کیوں ایسے ادارے میں آگیا ہوں جہاں استادوں کے بارے میں طلبا کی ایسی رائے ہے اور اگر یہ رائے درست ہے توپھرواقعی چپ ہی بھلی۔مگریہ کیفیت صرف اتنی دیر کے لیے تھی جب تک کلاسز شروع نہیں ہوئیں۔جیسے ہی ڈاکٹر صاحب نے پہلی کلاس پڑھائی، یہ بات درست ہونے کے باوجود سارے خدشے باطل ہوگئے کہ”ڈاکٹرصاحب رَج کے بے عزتی کرتے ہیں“۔ہاں مگر اُن لوگوں کی جوکسی بھی قیمت پراپنی جہالت کا لبادہ اتارنے پر تیارنہیں ہوتے،اُلٹا اِس پر فخر کرتے ہیں۔دوسرے وہ جوکلاس میں لیٹ آنے کواپنا امتیاز، اسائنمنٹ بناتے ہوئے کاپی پیسٹ کوکاپی رائیٹ اور موقع ملے تو موضوع سے ہٹ کرگفتگوکرنااپنی قابلیت سمجھتے ہیں۔۔۔ ”مگروہ لوگ نہیں جو ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے۔“
ڈاکٹر صاحب کی دوسری پہچان بہ طور نقادہے۔ادبی کانفرنس پاکستان میں ہویابھارت میں،ترکی میں ہو یا جاپان میں ،ڈاکٹرناصرعباس نیئرکی شرکت منتظمین کے لیے باعث اطمنان ہوتی ہے کہ شوفلاپ نہیں ہوگا۔یہی وجہ ہے کہ ادب کے جدید رجحانات پرگہری نگاہ نہ صرف ڈاکٹر صاحب کواپنے ہم عصر وں میں ممتاز کرتی ہے بلکہ پیش روو¿ں کی صف میںبھی لاکھڑا کرتی ہے۔اُن کی تصانیف میں ”دن ڈھل چکا تھا“،”جدیدیت سے پسِ جدیدیت تک“،”معمارِادب:نظیر صدیقی“،”جدیداور مابعدجدید:مغربی اور اُردو تناظرمیں“،”مجیدامجد: شخصیت اور فن“،”لسانیات اور تنقید“،”متن سیاق اور تناظر“،”مابعدنو آبادیات:اُردوکے تناظرمیں“،”مجیدامجد:حیات،شعریات، جمالیات“،”اُردوادب اورعالمگیریت اوردیگرمضامین“اور”اُردوادب کی تشکیلِ جدید:نوآبادیات کے تناظرمیںشامل ہیں۔اس کے علاوہ اُنھوں نے کوئی درجن بھر کتابیں مرتب کی ہیں جن میں ”ساختیات:ایک تعارف“،”مابعدجدیدیت:نظری مباحث“،”1857ءکی جنگ آزادی اور اُردوادب“،”مابعد جدیدیت: اطلاقی جہات“اور”آزادصدی مقالات“(بہ اشتراک تحسین فراقی)شامل ہیں ۔ڈاکٹر ناصر عباس نیئرنے”ارسطوکی تاریخ“کواُردوکے قالب میں ڈھالا جب کہ انشائیہ کی کتاب ”چراغ آفریدم “بھی اُن کی قلمی میراث ہے۔حال ہی میں اُن کا افسانوی مجموعہ”خاک کی مہک“بھی منظرعام پر آیا ہے مگرتیرہ بختی سمجھیںکہ یہ کہانیاں پڑھنا میرے نصیب میں ابھی تک نہیں آیا۔
میری نظر سے ڈاکٹرناصرعباس نیئرکی کتاب”مابعدجدیدیت:اطلاقی جہات“کادوسراایڈیشن گزرا ہے جس میںمجموعی طور پر ستائیس مضامین شامل ہیں۔ پیش لفظ،ابتدائیہ اور مقدمہ کے علاوہ اُنھوں نے اپنے چارمضامین بھی شامل کتاب کیے ہیں۔اِن مضامین میں ڈاکٹر صاحب نے ادب کی اِس متنازعہ تھیوری کاکامیاب دفاع کیا ہے۔اُن کے نزدیک مابعد جدیدیت کو ایسازاویہ نگاہ ٹھہرایا گیا ہے،جو جبریت اور ادعادیت کو مسترد کرتاہے،راوی اور کشادہ ظرفی کوNormکادرجہ دیتا ہے اور اس تھیوری میں بالعموم پسِ ساختیات کو بھی شامل کیا جاتا ہے۔چوں کہ اس ادبی تھیوری کی اپنی ڈکشن ہے جو ہر کسی کی سمجھ میں آسانی سے نہیں آتی اوربھاری بھرکم اور ثقیل اصطلاحات نے مابعد جدید نظریے کومزید مشکل بنادیا ہے لیکن ڈاکٹر ناصر عباس نیئر کی اس تحریر کی بدولت قاری کووہ کنجی دستیاب ہوگئی ہے جس سے وہ بہ آسانی اس اقلیم میں داخل ہوسکے۔انھوں نے کتاب کے ابتدائی ابواب میں ”دیوندراسر“کی یہ رائے شامل کر کے اس تھیوری کو سمجھنااور بھی سہل کردیا ہے: ”مابعد جدیدیت،مابعد الطبیعات،تاریخ کے مروجہ تصورات اورعقلیت کے خلاف ایسی طرزِ فکر ہے جس سے عہد حاضر کی فکر اور تہذیب بہت متاثر ہوئی ہے ۔۔ کوئی متعین اور جامد مرکز نہیں،لامرکزیت ایک اہم فکری اور تہذیبی انقلاب ہے۔ادب کا کوئی عظیم بیانیہMet Narrativeنہیں،صداقت،حقیقت، آفاقیت،انسانی فطری اور فطری جنسی اعمال عقلیت اور مابعد الطبعیات کی نفی کرتے ہوئے یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتی ہے کہ کوئی بھی،کچھ بھی مستند نہیں“۔اس صورت حال میں انُھوں نے کسی کو تشناکام نہیں چھوڑا بلکہ قاری کے ساتھ ساتھ اُردو کے ناقدین کے لیے بھی نئی راہیں کھولی ہیں۔کہتے ہیں:”اردو ناقدین کو تین راہیں سوجھی ہیں:مابعد جدیدیت کو پورے کا پورا قبول کرلیںاور اپنے سابق موقف کوسابق عہد کی ضرورت قراردے کرمسترد کردیں،مابعد جدیدیت کو یکسر رد کردیں،اُردو سے غیر متعلق قراردے کراور مغربی ایجنڈا سمجھ کر،جدیدیت اورمابعد جدیدیت کے درمیان ہم آہنگی اور امتزاج کی صورت پیدا کریں“۔صرف یہی نہیں ڈاکٹرصاحب نے ناقدین کے قبیلے کو مابعدجدیدیت کے حوالے سے تین گروہوں میں تقسیم بھی کردیا ہے جن میں ”پہلی راہ کے مسافرگوپی چند نارنگ،نظام صدیقی،وہاب اشرفی،مغنی تبسم،حامدی کاشمیری،ضمیرعلی بدایونی،محمد صلاح الدین پرویز،ابوالکلام قاسمی،عتیق اللہ،شافع قدوائی،احمدسہیل،حقانی القاسمی اورقاضی افضال حسین،دوسری راہ پر شمس الرحمن فاروقی اور شمیم حنفی ۔۔۔ ان سے ملتاجلتا اندازِ فکر ڈاکٹر محمد علی صدیقی اور ریاض صدیقی ، اعتدال اور امتزاج کے حامیوں میں ڈاکٹر وزیرآغا جب کہ متفق ہونے والوں میں دیوندراسر،شین کاف نظام،ڈاکٹرمناظرعاشق ہرگانوی،رو¿ف نیازی،اقبال آفاقی اور رفیق سندیلوی شامل ہیں۔“
معروف شاعر مجیدامجدکی شاعری اور اُن کی زندگی کااحاطہ کیے ہوئے ڈاکٹر ناصر عباس نیئر کی تحقیقی و تخلیقی کاوش”مجیدامجد:حیات،شعریات اور جمالیات“ہے جس میں اُنھوں نے کئی ایسے حوالوں کو دلیل کے ساتھ رد کیا ہے جو ادب کے قاری کے لیے درجہ استناد رکھتے تھے۔مجید امجد کو زندگی میں درپیش مسائل اوراُن کی فنی پختگی کا جو اعتراف اس کتاب میں ملتا ہے وہ اس سے پہلے مفقودتھا۔خاص طور پرمجید امجد کے آخری دورکے کلام نے بڑے بڑے نقادوں کوجس احساسِ تشنگی کا شکار بنا رکھا تھا،ڈاکٹر صاحب نے اُن کی تشفی بھی احسن طریقے سے کی ہے۔اس سلسلے میں ڈاکٹر صاحب کی رائے ملاحظہ ہو:”مجید امجد کے آخری دور کی نظمیں الگ اور خصوصی مطالعے کی متقاضی ہیں۔اِن نظموں کو مبہم سمجھتے ہوئے مطالعے کا موضوع نہیں بنایا گیا ۔۔۔ ہم عام طور پر یہ سمجھتے ہیں کہ جو متن آج مشکل اور پیچیدہ معلوم ہورہے ہیں وہ کل آسان اورزود فہم معلوم ہوں گے۔گویا ہم نہیں،مستقبل کاکوئی نقاد ،یازمانہ از خوداِن متون کے ابہام کوواضح کردے گا۔ایک طرح کی چالاکی سے ہم اپنی ذمہ داری مستقبل کے کسی نادیدہ نقاد کے کاندھوں پر ڈال دیتے ہیں۔“اس اقتباس سے یقینی طو رپر بات طشت ازبام ہوگئی ہے کہ ڈاکٹر ناصر عباس نیئرعملی نقاد ہیں جنھوں نے اس ذمہ داری کونہ صرف محسوس کیا بل کہ اسے بہ خوبی ادا بھی کیا ہے۔اب ڈاکٹر صاحب کے کاندھوں پر اُردو سائنس بورڈ کے ڈائریکٹر جنرل کی ذمہ داری آئی ہے۔اُن کی پیشہ ورانہ خدمات کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا نہایت آسان ہے کہ وہ اس ذمہ داری کو بھی اسی طرح انجام دیں گے جیسے انھوں نے بہ طور نقاد وہ گُتھیاں سلجھائی ہیں جواُن کے پیشروو¿ں نے بھی کسی نادیدہ نقاد کے لیے سنبھال رکھی تھیں۔میری اِ س بات کا ثبوت یہ ہے کہ عہدہ سنبھالتے ہی اُنھوں نے اُردو سائنس بورڈ کی اب تک چھپنے والی تمام کتب کی نمائش کا اعلان کیا ہے اور وہ بھی پچھتر فی صدی رعایت پر تاکہ علم سے محبت رکھنے والے افراد زیادہ سے زیادہ استفادہ کرسکیں۔مجھے یقین ہے کہ ڈاکٹر ناصر عباس نیئر کا اس عہدے پر آنا ہر ادب دوست کے لیے خوشی کا مقام ہے تاکہ یہ ادارہ حقیقی معنوں میں ایک باضمیرشخص کی نگرانی میں اپنے پاو¿ں پر کھڑا ہوسکے لیکن حق بات تویہ ہے ایسی شخصیت کے لیے اُردو سائنس بورڈ کی ڈائریکٹر شپ کوئی بڑی بات نہیں ۔۔۔
نگہ بلند، سخن دل نواز، جاں پُرسوز
یہی ہے رختِ سفر میرِ کارواں کے لیے
فیس بک کمینٹ