جب سینیٹ میں سابق ہو جانے والے چیئرمینوں کے لیے تاحیات شاہانہ مراعات کا بل ایک سینیٹر کی وجہ سے متفقہ طور پر منظور ہونے سے رہ گیا تو ہمیں تجسس ہوا کہ یہ گستاخ کون ہے ؟ معلوم ہوا کہ یہ اس جماعت کا نمائندہ ہے جسے کئی دنوں سے کراچی کے لارڈ میئر کا الیکشن ہارنے کے جرم میں گالیاں پڑ رہی ہیں ، ان کے ماضی کے مبینہ جرائم اور سانحہ عظمیٰ نو مئی کے بڑے ملزم کے گھر جا کر مدد مانگنے کی بنیاد پر۔۔
جی ہاں جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد نے قوم کے خلاف اس معاشی جرم میں شامل ہونے سے انکار کر دیا، باقی سب جماعتوں کے نمائندے اس فعل میں شامل تھے وہ پیپلز پارٹی اور اے این پی کے انقلابی ہوں ، مسلم لیگ کے جمہوریت پسند ہوں ، ایم کیو ایم کے حق پرست ہوں یا نظام انصاف کے داعی اور مبینہ چوروں ڈاکوؤں کے ساتھ ہاتھ نہ ملانے کے دعویدار پی ٹی آئی کے سینیٹرز ۔ اور ماضی میں بھی ایسا ہی ہوتا رہا ہے ، اپنی مراعات میں اضافے پر یہ سب متفق ہو جاتے ہیں ۔۔۔۔ اور پھر بآواز بلند چلاتے بھی ہیں کہ ملک کو سب نے لوٹا ہے مگر گالی صرف سیاست دانوں کو پڑتی ہے۔ اب بھی سب جمہوریت پسند کہیں گے کہ جب ریٹائرڈ آرمی چیف اور چیف جسٹس کو بھاری مراعات ملتی ہیں تو چیئرمین سینیٹ یا سپیکر قومی اسمبلی ( ویسے اس فہرست میں صوبائی اسمبلیوں کے سپیکرز اور وزراء اعلیٰ کو بھی شامل کر لیں، اور بھی عوامی نمائندے اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے والے ہوں گے ) کو کیوں نہ ملیں ؟
یار سرکاری ملازم اور عوامی نمائندے میں بہت فرق ہوتا ہے ، ایک شخص نے جوانی سے بڑھاپے تک کام میں اپنی زندگی صرف کی ہے اور دوسرا پانچ سال کے لیے قوم کی خدمت کے دعوے سے آیا ہے دونوں کا موازنہ کیسے ہو سکتا ہے۔
ویسے اسلامی جمہوریہ پاکستان ایک شاندار اور نادر و نایاب ملک ہے ، یہاں شہریوں کے حقوق انہیں خیرات اور بھیک کی طرح دیے جاتے ہیں ، سڑک پانی بجلی گیس سکول کالج یونیورسٹی کے لیے عوام کو سیاستدانوں کی منتیں کرنا پڑتی ہیں حالانکہ یہ خدمات services کے زمرے میں آتی ہیں جو عمرانی معاہدے کے تحت ریاست کے لیے لازم ہے کہ اپنے شہریوں کو فراہم کرے ۔۔۔ اور مزے کی بات یہ ہے کہ یہ آپ کو صرف آپ کے ٹیکسوں کے بدلے ہی نہیں دی جاتیں ، یہ آپ کو خریدنا بھی پڑتی ہیں ، آپ کے ٹیکسوں سے بنی چیزیں آپ کے ہاتھ فروخت ہوتی ہیں اور ساتھ ہی مقامی سیاست دانوں کے احسان کا بارگراں بھی آپ کی گردن پہ ہوتا ہے۔
موقع سے فائدہ اٹھاتا ہوئے اپنا ایک ذاتی مسئلہ اور تلخ تجربہ بھی بیان کر دیتا ہوں۔
واپڈا آپ کو بجلی فراہم کرتا ہے ، آبادیاں بڑھتی ہیں تو نئے کھمبے ، نئی تاریں اور نئے ٹرانسفارمر لگائے جاتے ہیں لیکن بدقسمتی سے یہاں بھی آپ کو سیاستدانوں کی دہلیز پر حاضری دینا پڑتی ہے ۔ میں نے گزشتہ نگران حکومت کے دور میں اپنے گائوں میں بجلی کے نیٹ ورک میں توسیع کے لیے چار عدد کھمبوں کی تنصیب اور پچاس کے وی ٹرانسفارمر کو سو میں بدلنے کی درخواست دی ، محکمے میں کچھ دوستوں سے ذاتی طور پر بھی درخواست کی اور یہ پراجیکٹ منظور ہو گیا ، جب انتخابات کے بعد نئی حکومت آئی تو اس وقت ورک آرڈر بھی جاری ہو گیا اور ٹھیکہ دار کے لوگ بھی آ کر موقع دیکھ گئے ، کہا گیا کہ جلد کام شروع ہو جائے گا لیکن کام شروع نہ ہوا ، دریافت کرنے پر پتا چلا کہ وزیر اعلیٰ صاحب کا حکم ہے کہ فی الحال صرف تونسہ میں کام کیے جائیں، خیر دو سال بعد ہماری باری آ گئی کھمبے نصب ہو گئے تاریں لگ گئیں ، ٹرانسفارمر کے بارے میں کہا گیا کہ کیونکہ زیادہ عرصہ گزر گیا ہے اور ٹرانسفارمر مہنگے ہو گئے ہیں لہذا اس کے لیے نئے سرے سے فنڈز مختص ہوں گے ،کوئی سال بھر کے بعد منظوری ہو گئی لیکن ٹرانسفارمر تبدیل نہ ہوا ، معلوم ہوا کہ کسی حواری نے مقامی ایم این اے صاحب سے کہا ہے کہ یہ کام آپ سے بالا بالا ہو رہا ہے لہذا انہوں نے منع کر دیا ہے ، پھر ایم این اے صاحب مستعفی ہو گئے ، حکومت بدل گئی ، ایک روز ہمیں خوشخبری سنائی گئی کہ آئندہ ہفتے آپ کا ٹرانسفارمر نصب ہو جائے گا لیکن ایک ماہ گزر گیا ٹرانسفارمر نصب نہ ہوا ، دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ آپ کے علاقے کے جس سیاستدان کو واپڈا میں ایک اہم ذمہ داری ملی ہے انہوں نے روک دیا ہے کہ یہ کیا ہم سے بالا بالا کام ہو رہا ہے۔۔
اب بندہ لیبیا کا ویزا لگوا کر اٹلی کے لیے کشتی نہ پکڑے تو کیا کرے !