ہسپتال کی او پی ڈی میں ایک خاتون میرے پاس آئیں، دنیا جہاں کے معدے کے ٹیسٹ کرا چکی تھیں، کیمرے والی اینڈوسکوپی سمیت ہر طرح کی رپورٹس موجود تھیں، جہاں بھر کی دوائیاں کھا رہی تھیں،مگر معدے کی جلن تھی کہ کم ہی نہیں ہوتی تھی، وہی کہ کھانا ہضم نہیں ہوتا، ہر وقت معدے میں درد ہوتا ہے اور عجیب سے مروڑ اٹھتے ہیں۔ بطور معدے و و جگر کے ڈاکٹر کے جانتا ہوں کہ کسی مریض کے سب ٹیسٹ نارمل آجائیں تو اس کی یہ تمام علامات ایک ایسی بیماری سے منسلک ہوتی ہیں کہ جس کا براہ راست بیماری سے کوئی لینا دینا نہیں ہوتا، دنیا اسے stress ، سٹریس کے نام سے جانتی ہے۔ یہ لفظ اردو زبان کے ساتھ ہماری روز مرہ زندگی کا اس قدر حصہ بن چکا ہے کہ اسے کسی ترجمے کی ضرورت نہیں ۔ Kelly McGonigal سٹریس پر مشہور زمانہ کتاب کے مصنف ہیں ، اپنی آتش جوانی کے دنوں میں یہ کتاب پڑھنے کا تجربہ ہوا تو ایک جملہ ذہن پر نقش ہوگیا ’ عشق اور سٹریس دونوں کی کوئی تعریف نہیں ہوتی، اس کی تعریف انسان خود بناتا ہے،اور اس پر قربان ہوجاتا ہے‘۔ ایک ڈاکٹر کی آتش جوانی کے کتابی دن تھے اور یہ دونوں بیماریاں یکجا تھیں، میڈیکل کالج کے دن تھے، ہاسٹل میں یہ وقت مشکل تھا ،اور مجھ سے عشق سے پھر لڑ لیا جاتا تھا، مگر سٹریس سے لڑنا مشکل تھا۔ یہ ایک ایسی کیفیت تھی ،جو ہر وقت تھی، حتی کہ نیند میں برے برے خوابوں کی صورت میں حاوی رہتی ، مگر جان نہیں چھوڑتی تھی۔ پھر میں نے اپنی زندگی میں چند اصلاحات کیں ۔ میں نے ذاتی طور پر ڈاکٹر ہوتے ہوئے بھی ،سٹریس کو بیماری سے زیادہ ایک کیفیت کے طور پر سمجھا ہے، بنیادی طور پر ہمارے رویے ہمارے لیے حالات ایسے بنا دیتے ہیں کہ ہم شدید اضطرابیت کا شکار ہوجاتے ہیں،اور جب ہمارا جسم اس قدر پریشانی سے لڑنے کی طاقت کھونے لگتا ہے تو وہ کسی بھی شکل میں بیماریوں کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔ آپ شوگر، بلڈ پریشر، فالج سے لے کر معدے جگرکی بڑی سے بڑی بیماری اٹھا لیں، آپ کو کہیں نہ کہیں اس کا تعلق سٹریس سے ملتا نظر آئے گا۔ یعنی ہم اپنے لیے ماحول ایسا بنالیتے ہیں کہ ہم سٹریس کے شکنجے میں آکر جسم کو انتہائی سخت چیلنج دیتے ہیں اور یو ں ہمارے جسم کا انجن فیل ہونے لگتا ہے اور ہم کسی نہ کسی بیماری کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ہمارے ملک میں نہیں، مگر پوری دنیا میں بہت سی تنظیمیں ،معاشروں میں سٹریس management پر کام کرتی ہیں، یعنی ان کا کام ہی یہ ہوتا ہے کہ معاشرے میں سٹریس میں گھرے افراد کو ایسی activities میں ملوث کیا جائے کہ ان کا سٹریس کم ہوجائے۔ راقم القلم نے جو زندگی کہ تجربوں سے اس سے لڑنے کے چند گر یا اصول سیکھے، وہ صرف زندگی کے حالات و واقعات میں تبدیلی سے جڑے تھے۔ پہلا یہ کہ جب آپ سٹریس کا شکار ہوں، آپ زندگی کی یکسانیت میں بدلاﺅ لے کر آئیں، پوری دنیا میں گورے پانچ دن کام کرتے ہیں، اور دو دن عیاشی کرتے ہیں،وہ کلب جائیں، بیچ پر کریم لگا کر دھوپ میں لیٹے رہیں، کچھ بھی کریں، وہ اپنی نارمل زندگی کی روٹین کو بریک کرلیتے ہیں، بطور ڈاکٹر ایسا ناممکن تھا، مگر زندگی میں جب موقع ملتا میں یکسانیت کو توڑنے لگا اور یوں کسی حد تک میں سٹریس سے لڑنے میں کامیاب ہوگیا، کسی کلب،بیچ کا رخ نہیں کیا، بلکہ کبھی دوستوں کی محفل جما لی، اور کچھ نہیں تو کسی ہوٹل میں ایسے ہی بیٹھ کے چائے پینے لگ گئے، آتے جاتے چہرے پڑھنے لگے، کالم لکھنے لگے ،بس یکسانیت توڑ دی۔ دوسرا یہ کہ آپ زندگی میں جو بھی کام کرتے ہیں،اس کی خیرات نکالیں، مثلا استاد ہیں تو ایسے ہی غریب کے بچوں کی ہفتے میں ایک کلاس پڑھائیں، ڈاکٹر ہیں تو مفت میڈیکل کیمپ لگائیں، وکیل ہیں تو کسی لاچار کا مقدمہ بغیر فیس کے لڑیں، اس سے یقینا سٹریس کم ہوتا ہے۔ تیسرا آپ کا جو بھی مذہب ہو، خود کو اپنے خالق کے قریب کریں، میڈیکل سائنس کی کتب،اس تحقیق سے بھری پڑی ہیں کہ جب انسان زمین پر سجدہ کرتا ہے تو زمین کی کشش ،جسے ہم gravity کہتے ہیں ،انسان کے دماغ سے منفی شعائیں اپنے اندر کھینچ لیتی ہیں۔ اس لیے رب کے ساتھ گہرا تعلق، آپ کو قلبی سکون عطا کرتا ہے اور یوں بھی سٹریس کم ہوتا ہے۔ چوتھا،SJ Scott کی کتاب Declutter your mind کا اصول کہ آپ زندگی میں سٹریس کو کم کرنے کے لیے جو منفی متبادل راستے اختیار کرتے ہیں ،وہ اصل میں سٹریس کو بڑھاتے ہیں، مثلا مے نوشی، سگریٹ نوشی، انٹرنیٹ کا پے پناہ استعمال، تنہائی ، اپنے ذوق کے برعکس کام کرنا ۔ اس لیے آپ کو جب بھی سٹریس کا سامنا ہو، آپ ہمیشہ مثبت راستے منتخب کریں،جن میں سب سے اہم فیملی کے قریب اور اچھے مخلص دوستوں کے قریب ہونا ہے۔ آپ جتنا اپنے گھر والوں یا مخلص دوستوں کے قریب ہوں گے اتنا ہی آپ اضطرابیت پر قابو پالیں گے۔اس امر میں سب سے زیادہ ضروری یہ ہے کہ آپ اپنے مشکل وقت میں کسی بھی ایسے کندھے کا انتخاب نہ کریں، جو بعد میں سوائے پچھتاوے کے آپ کو کچھ نہ دے۔ تاریخ گواہ ہے کہ آپ کمزور لمحوں میں جن افراد پر اعتماد کر بیٹھتے ہیں وہ اکثر آپ کو دھوکہ دیتے ہیں،اس لیے زندگی کے سب سے بڑے سٹریس سے بچنے کے لیے احتیاط کریں۔ پانچواں ،اصول یہ ہے کہ آپ ہمیشہ اپنی اصل نہ بھولیں، دوسرے الفاظ میں اپنی اوقات ہمیشہ یاد رکھیں، اگر آپ کی بنیاد کسی پسماندہ گاﺅں سے ہے تو آپ کا فخر ہے، تاریخ گواہ ہے کہ کچے مکانوں سے محلات کا سفر کرنے والے، ہمیشہ بچپن کی کچے فرش کی اس نیند کے متلاشی پائے گئے، جو انہیں مخمل کی پرتعیش خواب گاہوں میں نصیب نہیں ہوئی۔ چھٹا اصول یہ ہے کہ کبھی آپ سٹریس کی حالت میں کوئی بڑا فیصلہ نہ کریں، یہ انسان کی فطرت ہے کہ جب اس پر مشکل پڑتی ہے ،اس کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اس کی شدت میں،اس کا حل تلاش کرنے کی کوشش کرتا ہے اور وہیں وہ بڑی غلطی کر بیٹھتا ہے۔ ساتواں، آپ خوش اخلاق ہوجائیں، زندگی میں وہ لوگ جو زبان کے کڑوے ہوتے ہیں،ان کے انسانی تعلقات اچھے نہیں ہوتے، سماجی تلخیاں بڑھتی ہیں اور یہ ذہنی تناﺅ کی ایک بہت بڑی وجہ ہیں۔ یہ چند بنیادی اصول ہیں ۔ اب اگر ڈاکٹری کی طرف آئیں، تو سٹریس کم کرنے کا سب سے بڑا ہتھیار ورزش ہے۔ اگر میں اپنی ذاتی زندگی کا مشاہدہ بتاﺅں تو میرے سٹریس کو کم کرنے میں ورزش نے بہت اہم کردار ادا کیا۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک کا شمار، ان ممالک میں ہوتا ہے کہ جہاں دنیا بھر کی بہترین فوڈ چینز تو سرمایہ کاری کرتی ہیں، مگر یہاں بہترین ہیلتھ کلب موجود نہیں ہیں، کیونکہ ہم آرام پسند قوم ہیں اور یہی سٹریس کو شدید حد تک بڑھانے کی اہم وجہ ہے۔ جب آپ ورزش کرتے ہیں تو آپ کے جسم سے Endoorphins کا اخراج ہوتا ہے، یہ ایسا قدرتی نشہ ہے جو آپ کے ذہن میں اس قدر سکون لے کر آتا کہ جتنا آپ کو کئی نشہ آور ٹیکوں سے بھی حاصل نہیں ہوتا۔ میڈیکل سائنس کی ہر کتاب روزانہ ورزش کے فوائد سے بھری پڑی ہے ،اور ان تمام فوائد کا کیمیائی نسخہ یہی ہے کہ یہ بیماریوں کی ماں سٹریس کو جڑ سے قابو کرلیتی ہے۔ اس لیے جس قدر ہوسکے اپنی زندگی میں ورزش کو شامل کریں۔ اس کے ساتھ آپ نے سٹریس کم کرنا ہے تو Un-natural خوراک یعنی قدرت سے دور خوراک کو زندگی سے دور کردیں۔آپ تازہ سبزیاں، پھل زیادہ استعما ل کریں، اس سے آپ کو براہ راست وہ تمام اجزاءمیسر آجاتے ہیں ،جن کی جسم کو ضرورت ہوتی ہے اور آپ غیر ضروری کیمیکل کے استعمال سے بچ جاتے ہیں۔ میں اپنی ذاتی زندگی میں بہت سے افراد کو صرف اس ذہنی کیفیت سے جوانی میں موت کے منہ میں جاتا دیکھ چکا ہوں، سٹریس سے لڑنے کی قوت جسم میں ایک خاص حد تک ہوتی ہے،اور دنیا کی تمام تحقیق اسی نتیجے پر پہنچی ہے کہ پوری دنیا میں اتنی اموات دل کے دورے یاں کسی اور بیماری سے نہیں ہوئی،جتنا سٹریس سے ہوچکی ہیں۔ چنانچہ یہ سب سے مہلک ہے۔ فالج کی اپاہج زدہ زندگی سے لے کر، ہر وقت کے معدے کے مسائل ،حتی کہ جوانی کے دل کے دوروں تک،سب کی بنیادی وجہ صرف اور صرف ہمارے وہ انسانی رویے اور عادات ہیں ،جن کا حصار ہم اپنے گرد تشکیل دے کر سٹریس کے گہرے گرداب میں پھنستے چلے جاتے ہیں اور موت کو گلے لگا لیتے ہیں۔ اپنی اور اپنے آپ سے جڑے لوگوں کی زندگی سے پیار کیجیے ، زندگی میں مثبت رویوں سے بیماریوں کی جڑ اپنی زندگی سے دور کرلیں ، جتنا سٹریس آپ کی زندگی سے دور ہوگا،اتنا زندگی آپ کے قریب ہوگی۔
( بشکریہ : روزنامہ ایکسپریس )
فیس بک کمینٹ