صبح جب کالج پہنچا تو خبر ملی کہ عورتوں کے حقوق کی جنگ لڑنے والی بہادر خاتون فہمیدہ ریاض رات لاہور میں انتقال کر گئی ہیں۔یہ خبر سنتے ہی ان کی پوری زندگی کی جدوجہد آنکھوں کے سامنے آ گئی ۔فہمیدہ ریاض کی ولادت 28 جولائی 1946ء کو میرٹھ کے ایک تعلیی خاندان میں ہوئی۔ان کے والد ریاض الدین احمد ایک تعلیم یافتہ انسان تھے۔وہ سندھ میں تعلیمی نظام کو بہتر بنانے میں مصروف رہے۔ ابھی فہمیدہ ریاض کی عمر چار برس تھی کہ ان کے والد کا انتقال ہو گیا۔ اور والدہ نے ان کی پرورش کی۔انہوں نے اپنی عملی زندگی کا آغاز ایک مجلہ سے کیا۔جو کراچی سے شائع ہوتا تھا ۔اس مجلہ کا انداز کچھ سیاسی اور لبرل تھا جو جنرل ضیاءالحق کو پسند نہ آیا ۔ جس کی وجہ سے ان کو اور ان کے شوہر متعدد مقدمات کا سامنا کرنا پڑا جس سے دونوں کو جیل بھی ہوئی۔یہ مجلہ بعد میں میں بند ہوگیا۔ سنسرشب کے بارے میں انہوں نے کچھ یوں کہا:
”ہر ایک کو ایک فن میں سنجیدہ ہونا چاہئے اور کبھی بھی سمجھوتہ نہیں کرنا چاہئے۔ فن میں ایسی تقدیس ہے کہ وہ تشدد کو نہیں اپناتا ہے۔ قاری کو چاہئے کہ وسعت قلب کے ساتھ مطالعہ کرے تاکہ معنی کی گہرائی کو پہنچ سکے۔ میں اردو،ہندی انگریزی لغت ایسی دلچپی سے پڑھتی ہوں گویا شاعری پڑھ رہی ہوں۔ مجھے الفاظ بہت بھاتے ہیں۔ "
ان کا ماننا تھا کہ فیمینزم کے کئی معنی ہوسکتے ہیں۔ میرے نزدیک فیمینزم کا مطلب یہ ہے کہ مرد کی طرح عورت بھی ایک مکمل انسان ہے جس کی لا محدود ذمہ داریاں ہیں۔ ان کو بھی امریکی کالے یا دلت کی طرح سماجی برابری حاصل کرنے لئے جدوجہد کرنی پڑتی ہے۔ عورتوں کو معاملہ مزید سنگین ہے۔ ان کو سڑک پر بلا جھجک اور بغیر کسی پریشان کا سامنا کئے ہوئے سڑکوں پر گھومنے کی آزادی ہے۔ ان کو تیرنے، محبت کی شاعری کرنے کی آزادی ہے، بالکل اسی طرح جس طرح مرد بلا کسی روک ٹوک کےکرتے ہیں اور ان پر کوئی اخلاقی پابندی عائد نہیں ہوتی ہے۔ یہ نا انصافی بہت واضع ہے، بہت ظالمانہ اور ناقابل معافی ہے۔
نسائی ادب کو ایک نئی جہت عطا کرنے والی شاعرہ، ادیبہ اور سیاسی کارکن فہمیدہ ریاض کی زندگی نہ صرف آمرانہ رویوں کے خلاف جدو جہد کرتے گزری بلکہ اُن کی شاعری نے عورت کو جراتِ اظہار کے لیے ایک توانا لہجہ بھی عطا کیا۔
فہمیدہ ریاض اپنی بصارت کی وجہ سے خون کے ان دھبوں کو پہچان لیتی تھی جو آستینوں پہ سوکھ کے کتھے کے بھورے داغ بن جاتے ہیں۔ ان صلاحیتوں کا مر د، منافقوں کے معاشرے میں کب قبول کیا جا تا ہے؟ اس کے لفظوں کی طاقت، اس کی نظموں کا آہنگ، اس کے لہجے کی تپش سہی نہ گئی۔ اس پہ فحاشی کا الزام لگایا گیا ۔فمیدہ ریاض خواتین کے حقوق کیلئے بھرپور جدوجہد کرتی رہیں۔ فہمیدہ ریاض کی شاعری میں مشرقی عورت کی مجبوریاں بھی نظر آتی ہیں اور بیسویں صدی کی عورت کی روایات سے آزاد اور خود مختار ہونے کی خواہش بھی۔ ان کا خواب ایک ایسا معاشرہ تھا جہاں عورت اور مرد کو برابری مل سکے ،جہاں عورت دوسرے درجے کی محکوم نہ ہو۔فہمیدہ ریاض نے اپنی زندگی عورت کے حقوق کے لئے وقف کر دی۔
فیس بک کمینٹ