یہ دنیا بہت ظالم ہے، اور تاریخ اس سے بھی زیادہ ظالم ہے۔انسان یہاں جو کرتا ہے وہ آخرت میں تو اس کا حساب دیتا ہی ہے مگر اس کی غلطیاں یا غداریاں دنیا میں ہی اس کے آگے ضرور آتی ہیں اور اکثر اس کی ان غلطیوں کی سزا اس کی نسلیں بھگتی ہیں۔سید حسین نجفی نجف کا گورنر تھا۔نجفی اورنگزیب عالمگیر کے دور میں ہندوستان آگیا۔نجفی کا پوتا میر جعفر بنگال کے حکمران علی وردی خان اور بعد میں وردی خان کے پوتے نواب سراج الدولہ کی فوج کا سربراہ بن گیا۔1757ءمیں پلاسی میں انگریزوں اور نواب کی فوج کے درمیان مشہور جنگ ہوئی جو جنگ نواب جیت کر بھی اپنے سپہ سالار کی غداری کی وجہ سے ہار گیا۔نواب کو مرشدآباد میں سرعام قتل کردیا گیا اور میر جعفر بنگال کا گورنر بنا دیا گیا۔کئی سالوں بعد اس خاندان میں سید اسکندر مرزا کی پیدائش ہوتی ہے۔یہ ا سکندر مرزا قیام پاکستان کے بعد پاکستان کا سیکرٹری دفاع بن جاتا ہے۔سکندر کا ایک دوست برگیڈیئر ایوب خان جب مہاجرین کا تحفظ کرنے میں ناکام ہوجاتا ہے اور کورٹ مارشل کا سامنا کررہا ہوتا ہے توا سکندر مرزا اسے بچا لیتا ہے اور اسے آرمی چیف بنوا دیتا ہے اور بعد میں اسی کی مدد سے 1956ءمیں پاکستان کا گورنر جنرل بن جاتا ہے۔ مگر 1958ءمیں یہی ایوب خان ا سکندر مرزا سے اقتدار چھین لیتا ہے اور یوں 1969ءمیں چند سو پاﺅنڈ کی وراثت لئے لندن میں بہت کسمپرسی کی حالت میں جلا وطنی کی زندگی گزارتے اسکندر مرزا موت کے منہ میں چلا جاتا ہے۔یوں میرجعفر جو نواب سراج الدولہ کے ساتھ کرتا ہے ،ایوب یا تاریخ کئی سال بعد اس کا بدلہ اسکندر مرزا سے لے لیتی ہے۔تاریخ کبھی کسی کو معاف نہیں کیاکرتی۔
پاکستان کا ذہین ترین وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو ملتان کے کور کمانڈر سے متاثر ہو تا ہے اور ملتان کے مختصر دورے سے واپسی پر جہاز کی کھڑکی سے اپنی اہلیہ کو انگلی کے اشارے سے اس کا دیدار کراتا ہے کہ یہ ہے میرا اگلا آرمی چیف۔بھٹو کئی سینئر افسران کا حق مارتا ہوا اسی کور کمانڈر ضیا الحق کو آرمی چیف بنا ڈالتا ہے اور یہ آرمی چیف 1979ءمیں بھٹو کو پھانسی کی صورت میں بھٹو کو ملتان میں کی غلطی کی سزا دے دیتا ہے۔مگر کہانی یہاں ختم نہیں ہوتی۔ضیاءالحق جن آقاﺅں کو خوش کرنے کے لئے ایسا کرتا ہے وہ ضیاءکے جہاز کو بہاولپور کے صحرا میں غرق کردیتے ہیں مگر اس دوران ضیاءبھٹو کی بے نظیربیٹی کے مقابلے میں ایک قوت نواز شریف کی صورت میں تیار کردیتا ہے۔ پھر اقتدار کی فٹبال لیفٹ رائٹ ہوتی رہتی ہے۔پھر نواز شریف بھی ایک غلطی کرتے ہیں۔مگر نواز شریف ، ذوالفقار بھٹو والی غلطی 1999ءمیں پرویز مشرف کی صورت میں بھگت لیتے ہیں۔مگر اس بارتاریخ تھوڑا سا رحم کرتی ہے اور خدا کے دیس میں شریف خاندان کو پناہ مل جاتی ہے۔یہی مشرف ملک میں دہشت گردی کے راستے کھول دیتا ہے اور اسی دہشت گردی کی نذر بھٹو کی بیٹی ہوجاتی ہے اور اب وہی دہشت گرد بلاول اور مشرف کو نشانہ بنانے کی سر توڑ کوشش کررہے ہیں۔یوں ملتان میں ذوالفقار بھٹو کی ایک غلطی تاریخ گھوم گھوم کر سامنے آتی ہے اور بے نظیر اور اب بلاول تک اس غلطی کے سائے منڈلا رہے ہیں۔ تاریخ کبھی کسی کو معاف نہیں کیا کرتی۔ بھٹو کو جس شخص کے قتل کے جرم کی سزا میں پھانسی دی جاتی ہے آج اس کا بیٹا احمد رضا قصوری ، پرویز مشرف کو بچا رہا ہے۔یوں وہ ایک آمر ضیاءالحق کے احسان کا بدلہ دوسرے آمرمشرف کو بچا کر ادا کرنا چاہتا ہے۔ مگر وہ شائد اس بات سے غافل ہیں کہ اسی آمر نے جہاں ان کے والد کے قتل کی سزا بھٹو کو دلوائی ، اسی آمر نے نواز شریف کو بھی تناور درخت بنایا۔یوں تاریخ اپنا کھیل کھیل رہی ہے اور تاریخ کبھی کسی کو معاف نہیں کیا کرتی۔
پاکستان کے کئی سالوں سے غیر رہنے والے علاقہ غیر میں تحریک طالبان پاکستان کا جنم ہوتا ہے۔اس تحریک کا جنم روس کے خلاف امریکہ کی مدد میں ہمارے ہی لگائے جہادی کیمپوں کے سائے میں ہوتا ہے۔دسمبر 2007 ءسے اگست 2009ءتک بیت اللہ محسود اور پھر22 اگست 2009ءسے یکم نومبر تک حکیم اللہ محسود اس کی قیادت کرتے ہیں۔یہ دونوں امریکی ڈرون کا نشانہ بن جاتے ہیں اور پھر ریڈیو ملا ، مولانا فضل اللہ اس تحریک کی قیادت سنبھالتے ہیں۔اس تمام عرصے میں متعدد بار تمام پارٹیز کی آل پارٹیز کانفرنس بلائی جاتی ہے، متعدد بار Dialogue or War کی بین بجائی جاتی ہے۔مگر سچ تو یہ ہے کہ 60000 سے زائد معصوم جانوں کی قربانی بھی ہماری قیادت کو ایک آپشن کے انتخاب پر قائل نہیں کرسکتی۔یوں دونوں آپشنز کی بیڈ منٹن کھیل جاتی ہے اور حقیقت میں سوائے بارود اور لاشوں کے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔جنوری 2014ءسب کی پیش گوئی کے عین مطابق مولانا فضل اللہ اپنا فیصلہ سب کو سنا دیتا ہے۔اب ہر طرف خون ہی خون ہے اور ہماری حکومت کی پالیسی ابھی تک کسی پر وا ضح نہیں ہے۔اسی جنوری میں دو واقعات ہمیں دونوں راستوں کی مثال دیتے ہیں۔ایک واقعہ کراچی میں ایکسپریس نیوز کے تین معصوم نوجوانوں کی دہشت گردوں کے ہاتھوں شہادت کا ہے۔جس کے بعد ایکسپریس نیوز کے مشہور اینکر پرسن اور کالم نگار جاوید چوہدری پوری قوم کے سامنے احسان اللہ سے بات کرکےDialogue کی ایک عمدہ مثال قائم کرتے ہیں اور حکومتی ایوانوں کو چیخ چیخ کر یہ باور کرواتے ہیں کہ اگر ایک صحافی ان دہشت گردوں سے پوری قوم کے سامنے اپنی صحافی برادری کے ساتھ پر امن رہنے کے لئے Dialogue کرسکتا ہے تو حکومت کیوں فالج کا شکار ہے؟ دوسری مثالWar یعنی آپریشن کی ہماری پاک آرمی کی ائیر فورس قائم کرتی ہے جب بنوں جیل کے فرار دہشت گرد اور مشرف پر حملے کے ماسٹر مائنڈ عدنان رشید کو کئی اور دہشت گردوں کے ساتھ ہلاک کردیا جاتا ہے۔طالبان کی خاموشی ایک طرف مگر ملٹری اور میڈیا کی طرف سے اس ہلاکت کی تصدیق کردی جاتی ہے۔اب ان دو مثالوں کو سامنے رکھ کر بھی حکومت کی خاموشی تشویش ناک حد تک افسوس کا باعث ہے کہ شائد وہ تاریخ کو مکمل طور پر بھلا چکے ہیں۔وہ یہ بھول گئے ہیں کہ اگر یہ دہشت گرد چوہدری اسلم خان، بے نظیر کو نشانہ بنا سکتے ہیں، امیر مقام پر متعدد حملے کرسکتے ہیں تو یہ حکمران تاریخ بھول کر اپنے انجام سے غافل کیوں ہیں؟اوپر سے کراچی کے حالات اور سانحہ مستونگ کی گونج کانوں کو دہلائے جاتی ہے۔ ایک گونج میرے کانوں میں یہ کہتی ہے کہ ہمارا ملک اب NOW or NEVER کی حالت میں ہے۔اب بھی اگر یہ ملک بم دھماکوں کی بریکنگ نیوز کی عالمی منڈی بنا رہا اور حکمران صرف اقتدار کو طول دینے اور تجوریاں بھرنے میں لگے رہے اور دوسروں کے گھر جلتے خاموشی سے دیکھتے رہے تو گھر ان کا بھی جلے گا، یہ آگ جنگل کی آگ ہے ،اگر اب نہ بجھی تو گھرتو سب کا جلے گا۔ان کی خاموشی کو تاریخ دیکھ رہی ہے اور تاریخ بہت ظالم ہے ۔ تاریخ کبھی کسی کو معاف نہیں کیاکرتی۔
فیس بک کمینٹ