کئی سو سال پہلے ایتھنز میں عوامی جمہوریت کا ایک سسٹم رائج تھا۔وہاں اسمبلی یا پارلیمنٹ سپریم تھی۔ شہر بھر سے تیس اشرافیہ منتخب ہوکر جمہوریت کے نام پر آمرانہ حکومت کرتے تھے۔ یہ لوگ عوام کو ہر وقت اس بات کا دلاسہ دیتے کہ یہ ان کی حکومت ہے اور وہی سب سے بالا تر ہیں۔ انہی عوام میں تاریخ کا ایک اہم کردار سقراط بھی تھا۔سقراط کا جرم بس اتنا تھا کہ وہ اس عوام کو شعور دینے کی کوشش کرتا رہتا اور اشرافیہ کو یہ بات سخت نا پسند تھی۔سقراط کوپارلیمنٹ کے چیمبر میں بلا کر پھانسی یا زہر دینے کی سزا سنائی گئی اور پھر اسے عوام کی عدالت میں لایا گیا تاکہ اس عوامی فیصلے پر عوام کی عدالت کی مہر ثبت کی جاسکے ۔ بے وقوفوں اور جہال کا ایک ہجوم اکٹھا کیا گیا اور وکیل میلتس نے فرد جرم پڑھ کر سنانا شروع کی۔پورے ایتھنز کے شہریوں کو جمع کیا گیا اورسقراط کو آخری بار بولنے کے لیے کہا گیا : ’ مجھے معلوم ہے کہ میں ایک ہجوم سے مخاطب ہوں۔اے ایتھنز والوں میں تمہاری عزت کرتا ہوں۔پر میں تمہارے بنائے جھوٹے خداﺅں کی اطاعت قبول نہیں کرسکتا۔ مجھے معلوم ہے تم سب کی عقل کیا فیصلے کرے گی ۔‘ اس کے بعد پورے ہجوم نے اس موت کی سزا سنائی اور تیس دن بعد سقراط کو زہر کا پیالہ دے کر موت کی نیند سلا دیا گیا۔ آج دو ہزار سال گزرنے کے بعد بھی بدترین جمہوریت کے حامی اور عوام کی حاکمیت کے دعوی دار بھی اس فیصلے کی تائید نہیں کرتے۔ ایتھنز اس ایک زہر کے پیالے کے بعد تباہ ہوگیا تھا۔ مورخین کا ایک ہی موقف ہے ’ No one is Above the Law ‘ کوئی قانون سے بالا تر نہیں ہے۔ اگر چوری ،بددیانتی،فراڈ،دھوکے ،کرپشن کو عوامی تائید حاصل ہوجائے تو آپ اس کو نظریہ ضرورت یا قانون نہیں بناسکتے۔ پوری دنیا میں حق،سچ،دیانت اور انصاف کا ایک ہی ترازو ہے اور صدیوں سے وہی چلتا آرہا ہے۔ اگر وہاںکے عوام اندھے ہوجائیں، ان کے آنکھوں پر جہالت کی پٹی بندھ جائے تو آپ بددیانتی ، بے ایمانی، دو نمبری، کرپشن ، خیانت،بے حیائی کو قانون نہیں بنادیتے۔ قانون ،حق اور سچ ہی رہتا ہے۔ راقم الحروف کو ایسی ہی اذیت ناک کیفیت کا سامنا کرنا پڑا۔ چند دن پہلے منگل کی دوپہر میں اکیلا اپنی گاڑی میں لاہور سے اسلام آباد دنیا کی بہترین شاہ راہوں میں سے ایک پر سفر کر رہا تھا۔ چکری سے تیس چالیس کلومیٹر پہلے، دو پہر تین بجے، کھانے اور کشور کی غزلوں کے خمار میں اونگھ آنے لگی تو کیلولے کا خیال آیا اور تھوڑی دیر سستانے کے لیے ، موٹر وے کی مستند آرام گاہ نمبر274 پر عین مسجد اور ٹک شاپ کے سامنے گاڑی کھڑی کرلی۔ یہ بارونق آرام گاہ تھی۔نیند اتنی شدید تھی کہ سیٹ پیچھے کرتے ہی گہری آنکھ لگ گئی۔ آنکھ کھلی تو مغرب ہوچکی تھی،اندھیرا بڑھ رہا تھا۔ نماز ادا کی اور گاڑی میں بیٹھ گئے۔ ابھی گاڑی سٹارٹ نہیں کی تھی کہ گاڑی پر کپڑا مارنے والا ایک لڑکا قریب آیا اور کہنے لگا، صاحب آپ کے بائیں ٹائر کی ہوا کم ہے۔ بالکل سامنے پنکچر کی دکان تھی ، گاڑی وہاں لے کر گئے، معلوم ہوا کہ ایک کی ہوا کم نہیں، تین ٹائر پنکچر ہیں۔ ٹائر پانی میں ڈالے گئے تو ان میں سے ایسے ہوا نکلنے لگی کہ جیسے پنکچر نہیں کسی بڑے پائپ سے ہوا آرہی ہو۔ نئی گاڑی کے تین نئے ٹائر ،ہوا ہونے کے باوجو اکٹھے کیسے پھٹ گئے۔ جیسے پنکچر والے شخص نے یہ کہا کہ سر یہ تینوں ٹائر پھٹ گئے ہیں آپ کو ہم سے نئے لینے پڑیں گے۔ ساری کہانی سمجھ آگئی اور خود کو عجیب لاچار پاتے ہوئے ، فون کردیا۔ فون پر مجھے تسلی دی ،اور پھر کہا کہ آپ گاڑی کا سامان چیک کرلیں ،ان سے معمولی پنکچر لگوا کر، یہاں سے نکل جائیں ،یہ معمول کی بات ہے۔ فون بند ہوتے ہی، میں نے خود کو کالے بادلوں سے ڈھکے آسمان کے نیچے عوام کی عدالت میں پایا۔ ٹک شاپ کا مالک ، یہاں موجود گارڈز، پنکچر کی دکان کا مالک اور اس کے ملازم اور وہاں صفائی والے اور گاڑیاں صاف کرنے والے لڑکے ۔ ان کی آنکھیں ،ان میں موجود نظام کے نظریہ ضرورت کا غرور ، کبھی نہیں بھولا جاسکتا دو ہزار سال پہلے ایتھنز کا عوامی ہجوم ، اشرافیہ کا جمہوری دور حکومت اور سقراط۔ میں سقراط نہیں تھا ، مگر میرے ساتھ ہوئے ظلم کا مداوا ، بددیانت، کرپشن، دو نمبری، جھوٹ اور بے حیائی پر بنے قانون نے کردیا تھا۔یہ ٹائر برف والے سوئے سے دانستہ کٹ لگا کر پھاڑ دیے گئے تھے تاکہ میں انتہائی مہنگے داموں اسی پنکچر والی دکان سے ٹائر خریدوں اور یہی یہاں کے نظام کی عوامی عدالت کا فیصلہ تھا۔ مجھے زہر کا پیالہ پینا تھا۔ سفر پر اسلام آباد روانہ ہوا تو انہی کالے بادلوں سے بارش کی بوندیں ٹپکنے لگیں۔یہ سوچ تھی اور اس کی گونج تھی۔یہ آرام گاہ ایک نظام کی ترجمان تھی جس کی بقا کی خاطر انصاف،اخلاق،سچائی،دیانت داری ،پاسداری عہد سب کو نظریہ ضرورت کی بھینٹ چڑھایا جارہا تھا اور خود قانون بھی اس نظریہ ضرورت کو حق جان کے بیٹھا تھا یا پھر وہاں کی عوام کا فیصلہ۔ آپ اس سب کو وسیع پیرائے میں دیکھیں تو شایدسارا نظام ہی ایسا ہے۔ آپ کسی ادارے کو اٹھا لیں،آپ عوام کی حکمرانی کے الاپتے راگ کو اٹھا لیں۔ سسٹم چلتا رہے،اس سسٹم کی تعریف میںوہ اشرافیہ جو راج نیتی کے مسند پر جلوہ افروز ہیں انہیں ہر حال میں ، ہر مصیبت میں، ہر ابتلاءمیں صبر و شکر کرکے قبول کیا جائے۔ ہمیشہ کیا جائے کیونکہ کہ سسٹم ڈی ریل ہوجائے گا، سب تباہ ہوجائے گا،آمرانہ جمہوریت، آمریت میں بدل جائے گی۔ کوئی سوال نہ کرے، کوئی انگلی مت اٹھائے، کوئی خطاﺅں پر بات نہ کرے۔ سب چپ رہیں، لب سی لیں،آوازیں پست رکھیں، کبوتر کی طرح آنکھیں بند رکھیں ، بس نظام کو چلنے دیں۔ عوام کی حکمرانی رہنے دیں، ان کی عدالت رہنے دیں۔ وہی عوام کہ جس نے سات دہائیوں سے جاگیرداری،وڈیرانہ نظام میں جہالت، آبادی اور غربت کے سمندر میں اپنی نسلوں کو پروان چڑھایا ہے۔ وہی عوام جنہوں نے پرچیوں، سفارش اور رشوتوں کے سہارے جگاڑ لگا کر، کسی نہ کسی طرح معاشرے میں اپنی بقا ڈھونڈی ہے۔وہی عوام جو صحت، تعلیم اور روزگار کو سسکتی اور ترستی رہی ہے۔ وہ عوام جو کسی بھیانک انجام سے ڈرتی رہی ہے ، سہمی رہی ہے۔ اسی نے اشرافیہ کا ایک نظام دیا ہے ،جن کے بقول سب اس عوام کی حکمرانی ہے۔ وہی عوام جو کئی سالوں کی محرومیوں کے ارتقائی عمل میں نظریہ ضرورت کو جنم دیتی آج کرپشن، سفارش، پرچی، جھوٹ، بے حیائی ، بے انصافی کو اصل نظا م سمجھ بیٹھی ہے ۔ اسی نظام میں وہ عدالت لگا کر بیٹھی ہے، جس کا ہر فیصلہ اس اشرافیہ کے حق میں ہے کہ جن کے رہنے سے ان کی حکمرانی کی تسلی چل رہی ہے، پرچی،کرپشن،بے انصافی چلتی رہتی ہے، سقراط مرتے رہتے ہیں۔بس ایک دلاسہ ہے کہ نظام چل رہا ہے۔ اسی دلاسہ میں پھر جس کے ساتھ جو بھی ظلم ہوجائے، قہقہوں کی گونج میں سب ضم ہوجاتا ہے۔ بس پھر وہی کالے بادل ، بارش کی بوندیں اور نظام کے چلتے رہنے کا دلاسہ۔
فیس بک کمینٹ