کراچی میں ”کوڑا کرکٹ“ اور کچرے کے مسائل کے بعد کتوں کی یلغار نے شہریوں کا جینا دوبھر کردیا ہے۔ ہمارے شاعر اقبال راہی جو ایک منجھے ہوئے استاد شاعر ہیں، نے قطعہ لکھا ہے :
اپنی آئی پہ آکے رہتے ہیں
نہیں بدلا رواج کتوں کا
جس کو جی چاہے کاٹ لیتے ہیں
ہے کراچی پہ راج کتوں کا
سچی بات لکھی ہے ان دنوں کراچی میں ”کتیا کتیا “ ہورہی ہے۔ کتوں کی بہتات نے عوام کا پیدل چلنا دشوار کردیا ہے۔ ایک کلپ میں بھی کتے کا راہگیروں پر حملہ دکھایا گیا ہے۔ اب اس طرح کی خبریں سوشل میڈیا کے راستے ہر شخص تک پہنچ جاتی ہیں۔ آج کے اخبار میں پھر ایک خبر شائع ہوئی ہے کہ شہید بے نظیر آباد نوابشاہ کی رہائشی پچپن سالہ حوربی بی کو کچھ عرصہ قبل ایک آوارہ کتے نے بُری طرح بھنبھوڑ ڈالا تھا جسے کراچی کے جناح ہسپتال میں لایا گیا لیکن آج وہ زخم زخم خاتون جان کی بازی ہار گئی ۔ خبر میں بتایا کہ رواں برس میں سندھ میں کتوں کے کاٹنے سے تقریباً انیس ہلاکتیں ہوچکی ہیں۔ ادھر سندھ کے ہسپتالوں میں کتوں کے کاٹنے کے علاج کی ویکسین نایاب ہے۔ گزشتہ ماہ سندھ حکومت نے ” رے بیز“ کیسز سے بڑھتی اموات کے پیش نظر صوبے بھر میں، کتا مار مہم شروع کرنے کا فیصلہ کیا،
میئر کراچی وسیم اختر سمیت تمام بلدیاتی کونسلرز کو آوارہ کتے پکڑے کا ٹاسک دیا گیا مگر لگتا ہے بلدیہ کراچی کے اہل کار بھی کتوں سے نالاں ہیں۔ چند روز قبل تو پولیس کے ایک انسپکٹر کو بھی ایک کتے نے کاٹ کھایا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اب کتا مار مہم میں سندھ پولیس کو بھی شامل کیا جاتا۔ بلکہ ان کے تجربے سے استفادہ کیا جاتا کہ جرائم کے کتوں کو تلف کرنے کے لیے پولیس زیادہ چوکس رہتی ہے مگر یہاں تو خود پولیس کے انسپکٹر سگ گزیدگی سے محفوظ نہیں ہیں۔ ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ ایک بار لاہور میں کتا مار مہم شروع ہوئی تھی۔ یہاں مختلف نشئی حضرات نے بھی کتا مار مہم میں حصہ لیا تھا۔ کتے کی دُم دکھا کر پچاس روپیہ ملنے کی لالچ میں کئی نشہ کرنے والوں کو بھی کتوں کے تعاقب میں ”لُورلُور“ کرتے دیکھا گیا۔ سندھ کے کار پردازوں کو بھی اس ” کُت خانے“ میں نشہ کرنے والوں کی خدمات حاصل کرنے میں عار محسوس نہیں کرنی چاہیے۔ ڈاکٹروں کے مطابق کتا کاٹ لے تو پلٹ کر کتے کو کاٹنے کے بجائے ویکسین لگوانا چاہیے۔ کتا کاٹ لے تو ایک وائرس ”رے بیز“ متاثرہ شخص کے خون میں شامل ہوکر اس کا سنٹرل نروس سسٹم تباہ کردیتا ہے۔ بروقت علاج نہ کیا جائے تو دماغ کام کرنا چھوڑ دیتا ہے اور متاثرہ فرد کی موت واقع ہوجاتی ہے۔ کتے کے علاوہ بندر، گیدڑ، بلی ، لومڑی اور چم گاڈر کے کاٹنے سے بھی یہ وائرس انسان کے جسم میں منتقل ہوسکتا ہے۔ سو ” انیٹی رپیز ‘، ویکسین نہایت ضروری ہے اور اسے ہرہسپتال اور عام دیہات کے ”طبی مراکز“ میں بھی ہونا چاہیے۔ یہ ویکسین بقول صوبائی وزیر اطلاعات سندھ سعید غنی، سارے ملک کا مسئلہ ہے تاہم کراچی شہر میں اس ویکسین کی کمی دورکرنے کے اقدامات کیے جارہے ہیں ۔“
آوارہ کتوں کا معاملہ واقعتاً صرف سندھ کا نہیں ہے یہ کتے ہرجگہ پائے جاتے ہیں اور کتا کاٹنے کے علاج میں استعمال ہونے والی ویکسین ہرجگہ موجود ہونی چاہیے۔
ہمارے محلے دار بشیر کتیاں والے نے کہا ہے یہ درست ہے کہ آوارہ اور پاگل کتوں کو گلیوں اور محلوں سے نکالنا یا مارنا ضروری ہے لیکن اس بات پر بھی غوروفکر کیا جائے کہ کتے پاگل کیوں ہوتے ہیں ؟ یہاں تو انسان بھی کتوں سے بدتر زندگی گزار رہے ہیں جس کے سبب ان کا دماغی توازن بگڑ جاتا ہے سوعمران خان جہاں کٹے اور مرغیاں دے کر نوجوانوں کو کاروبار پر لگارہے ہیں۔ اچھی نسل کے کتے پالنے کا بندوبست بھی کیا جائے یہی نہیں بلکہ آوارہ کتوں کے لیے بھی شیلٹر ہوم بناکر انہیں پاگل ہونے سے بچائیں۔ بشیر کتیاں والا اچھی نسل کے کتوں کا کاروبار کرتا ہے، اور کتوں سے محبت کرنے کے سبب لوگ اسے ”کتا دوست“ کہتے ہیں۔
ہمارا ذاتی خیال بھی یہی ہے کہ پاگل تو انسان بھی ہوجاتے ہیں۔ اگر سارے پاگل کسی روز اکٹھے ہوگئے تو وہ مولانا فضل الرحمن کی طرح اسلام آباد پر چڑھائی بھی کرسکتے ہیں۔
کچھ علاج اس کا بھی اے چارہ گراں ہے کہ نہیں
(بشکریہ: روزنامہ نئی بات)