خلیفہ مہدی نے ایک نیا محل تعمیر کروایا۔اس نے حکم دیا کسی کو بھی اس محل کے نظارے سے منع نہ کیا جائے۔وزٹ کرنے والے یا تو دوست ہوں گے یا دشمن۔اگر دوست ہیں تو یہ محل دیکھ کر خوش ہوں گے اور ہمیں دوستوں کی خوش دلی مطلوب رہتی ہے۔اگر کوئی مخالف ذہن کے ہوں گے تو اس خوبصورت محل کو دیکھ کر جلیں گے یعنی رنج اٹھائیں گے اور ہر شخص کی تمنا ہوتی ہے کہ اس کے دشمن تکلیف میں رہیں۔یہ بھی ہو سکتا ہے کہ مخالفین محل کی تعمیر میں کوئی عیب یا نقص ڈھونڈ نکالیں اور ہم اس نقص کو دور کر لیں۔محل لوگوں کے لیے کھول دیا گیا،دیکھنے والوں میں ایک درویش بھی آیا۔بادشاہ نے رائے پوچھی تو اس نے برملا کہا : ”اِس محل میں دو نقص ہیں۔ایک یہ کہ آپ اس میں ہمیشہ نہیں رہیں گے، دوسرا یہ کہ یہ محل بھی ہمیشہ نہیں رہے گا۔“
خلیفہ اس کلام سے اس قدر متاثر ہوا کہ اس نے وہ محل غریبوں اور درویشوں کے لیے وقف کر دیا۔
اس تمثیل کو پڑ ھ کر ہمارا دھیان اپنے حکمرانوں کی طرف جاتا ہے تو ایک احساس ندامت ابھرتا ہے۔ ہمارے ہاں بھلے نگران سیٹ اپ ہو اور چند ماہ کے لیے بھی کسی کو اقتدار کی کرسی عطا کر دی جائے تو وہ بھی پھولے نہیں سماتا اور ہر جگہ دکھاوے اور نمائش کے لیے قومی خزانے سے بے دریغ خرچ کرتا ہے۔غور کریں اُن منتخب شدہ افراد کا کیا حال ہوگا ، جنہوں نے پانچ برس اقتدار کی ”جھولنے“ والی کرسی کے مزے لیے ۔وہ تو خود کو شاہی مخلوق سمجھتے ہیں۔ان کے اقتدار کی مدت کیا ختم ہوئی ہے وہ تو” باﺅلے “ ہوئے پھرتے ہیں اور دوبارہ اسی چسکے کے لئے ان کی سانسیں پھولی ہوئی ہیں۔اقتدار کا نشہ اور خمار ہی کچھ ایسا ہے۔الیکشن میں حصہ لینے والی اس مخلوق کے اثاثے ،جو از خود انہوں نے ڈکلیئر کئے ہیں ،اس سے پتہ چلا کہ یہ سبھی کروڑ پتی غریب ہیں۔ کئی کے پاس تو اپنی گاڑی بھی نہیں ۔یقیناً کچھ اثاثہ جات ابھی ایسے بھی ہوں گے جو انہوں نے پوشیدہ بھی رکھے ہوئے ہوں گے۔عام آدمی ان کروڑ پتی نمائندوں پر انگشت بدنداں ہے۔اگر کسی کے پاس اللہ کا دیا سب کچھ ہو تو پھر بھی وہ اقتدار اور اختیار کے لئے اپنی عزت تک کو داﺅ پر لگا دے تو حیرت ہوتی ہے۔اگر دنیا جہان کی نعمتیں انسان کو حاصل ہوں تو وہ ” کوئلوں کی دلالی “میں اپنا وقت کیوں ضائع کر تا ہے؟اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کی حرص و ہوس ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی۔نجانے اتنی دولت اور جائیداد ہونے کے باوجود بھی وہ قوم کی ” خدمت“ کے لئے بے چین اور بے قرار کیوں ہیں۔ووٹ کی پرچی کے لئے آج کل یہ لوگ اپنے اپنے علاقوں میں ” رسوائی کا کشٹ“ کاٹ رہے ہیں اور قوم کی خدمت کے سلسلے میں حلقے کے لوگ اِن سے برملا سوال کررہے ہیں۔بعض جگہوں پر تو ان کی ایسی ” عزت افزائی “ ہو رہی ہے کہ وہاں سے بھاگنے پر مجبور ہو رہے ہیں۔شاید یہ سب کچھ کرسی کا ”معجزہ “ ہے۔یہ کرسی ہی کا ”خمار “ ہے جب یہ لوگ صاحب ِاختیار ہوتے ہیں تو اپنے لوگوں، خاص طور پر غریبوں کے لئے عید کا چاند بن جاتے ہیں مگر آج کل سوشل میڈیا کا دور ہے جس نے عام آدمی کے ہاتھ میں بھی کیمرہ دے دیا ہے ۔سو بہت سے کرتا دھرتا نمائندے بھی بے نقاب ہو رہے ہیں ۔شہباز شریف کراچی کے لوگوں کو بھی خواب دکھا آئے ہیں کہ کراچی بھی پیرس بنے گا بالکل لاہور کی طرح´۔جبکہ لاہور کے لوگ کیمرے کی وساطت سے میاں شہباز شریف سے سوال کر رہے ہیں کہ ہماری ٹوٹی پھوٹی گلیا ں اور ان میں کھڑا پانی کون نکالے گا؟یہاں صفائی ستھرائی کے حوالے سے کچھ نہیں کیا گیا۔بعض سڑکیں ”اورنج ٹرین زدہ“ ہیں۔ٹریفک کا نظام ابتری کا شکار ہے۔مسلم لیگ حکومت کی مدت ختم ہوتے ہی ایسا لگتا ہے کہ وہ قالین الٹ دیا گیا ہے جس کے نیچے سابقہ حکومت نے اپنا گند چھپا رکھا تھا،کرپشن کی کہانیا ں نیب کی دیواروں پر لکھی ہیں ،جس کا کوئی جواب نہیں دیا جاتا۔سابقہ حکومت کی کارکردگی کاحال یہ ہے کہ اب تک لوڈ شیڈنگ کا عذاب مسلط ہے جبکہ حکومت سنبھالتے وقت مسلم لیگ کا پہلا وعدہ یہی تھا کہ وہ ملک سے لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ کر دیں گے اور اگر ایسا نہ کیا جاسکا تو وہ اپنا نام بدل لیں گے۔ان دنوں سیاسی پارٹیاں ٹکٹوں کی تقسیمی لڑائی میں گھری ہوئی ہیں۔پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کو کئی بار آزمایا جا چکا ہے اب یقینا عوام تیسری جماعت کو موقع دینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ہونا تو یہی چاہئے تھا کہ تحریک انصاف کسی بھی دوسری پارٹی کا کوئی ممبر قبول نہ کرتی مگر عمران خان نے بھی ،بدمعاشوں ،وڈیروں اور رسہ گیروں کے ساتھ طاقتور لٹیروں( الیکٹیبلز) کو ٹکٹ دے دئے ہیں۔غور کیا جائے تو یہی چالیس پچاس لوگ ، ہر اقتدار میں ہوتے ہیں۔ان کا پیشہ صرف اقتدار اور اقتدارہے۔ان کے پاس اسی سیاست سے کمایا ہوا کالا دھن ہے ،یہ کرپشن کی کمائی کو ڈبل کرنے کا ہنر جان گئے ہیں۔قرضے معاف کروانے اور سرکاری فنڈ کو خورد برد کرنے میں بھی انہیں ” خاص ملکہ“ حاصل ہے۔مسلسل اقتدار میں رہنے کے سبب ان کی طاقت میں اضافہ ہو چکا ہے۔یہ چہرے پرویز مشرف ہی کے ساتھ نہ تھے بلکہ زرداری اور شریف برادران کے ساتھ بھی تھے۔یہی پرندے کل کسی اور چھتری پر جا بیٹھیں گے۔پی ٹی آئی کو چاہئے تھا نام نہاد الیکٹیبلز کو اپنی پارٹی میں جگہ نہ دیتی۔آج عدلیہ آزاد ہے اور وہ طاقتوروں کے خلاف فیصلے دے رہی ہے۔سوشل میڈیا کے سبب یہ سب لوگ بے نقاب ہوچکے ہیں۔پی ٹی آئی اپنے نئے چہرے اور پرانے ساتھیوں کو ہی انتخابات میں اتارتی تو لوگ انہیں منتخب کرتے لیکن عمران خان نے اپنے نظرئیے پر یقین نہیں رکھا اور اپنے پرانے ساتھیوں کے بجائے پی ٹی آئی کے مفلر جیتنے والوں کی گردن میں ڈال کر اپنے ساتھ کھڑا کر لیا ہے۔آنے والے وقت میں عمران کے لئے بڑا مسئلہ بھی یہی ”ابن الوقت “ قسم کے لوگ ہوں گے۔ان کرپٹ کروڑ پتیوں کو تو نیب الیکشن سے پہلے ہی سلاخوں کے پیچھے ڈالتی تو بات بنتی۔ان دنوں الیکشن کے قریب سزائیں دینے سے یہ خوامخواہ مظلوم بن جائیں گے۔عام آدمی تو چیف جسٹس ثاقب نثار کو ہی اقتدار میں دیکھنا چاہتا ہے کیونکہ وہ عام آدمی کے لئے درد تو رکھتے ہیں۔عام لوگ تو کہتے ہیں اقتدار کی کرسی اس کے پاس ہونی چاہئے جو عوام کو ریلیف دے۔جبکہ یہ انتخاب میں جیتنے والے حکومت میں آکر ہمیشہ اپنا مفاد عزیز رکھتے ہیں۔ عمران اگر جیت بھی جائیں تو کچھ تبدیلی نہیں آئے گی۔یہ ایک غیر سیاسی عام آدمی کی رائے ہے۔
( بشکریہ : روزنامہ نئی بات)
فیس بک کمینٹ