مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ُاس رات ہمارے گھر کے چولہے میں آگ نہیں جلی تھی۔اس رات ہماری لالٹین کی روشنی ماند پڑ گئی تھی۔ گاؤں کے مولوی صاحب مجھے اپنے گھر لے گئے تھے ۔اس رات میں وہیں سویا تھا کہ ہمارے گھر میں ایک ہجوم امڈا ہوا تھا۔ شام ۴بجے ہی سے ہمارے گاؤں کے ڈیرے پرسبھی انتظار میں تھے۔میری ماں کو کسی نے بتایا تھا کہ محاذِ جنگ سے کوئی خبر آنے والی ہے اور پھر ایک فوجی ٹرک ہمارے دروازے کے آگے آرُکا تھا۔۔جس میں سے فوجی اترے تھے جنہوں نے ایک تابوت اتار کر ہمارے صحن میں رکھ دیا تھا۔
مجھے اپنے گاؤں کی شامیں بہت اچھی لگتی تھیں،ان کی یاد آج بھی میرے لہو میں رواں دواں ہے۔شام کے سائے پھیلتے ہی جب تنوروں کا دھواں، ہر گھر سے اوپر اٹھتا دکھائی دیتا تو دُور سے دُھول اُڑاتے مویشی گلے کی گھنٹےاں بجاتے ،گاؤں میں داخل ہو اکرتے تھے۔شام کے ملگجی سایوں میں دھول اڑاتے چرواہے جب گھروں کو لوٹتے تو شام کے چہرے پر ایک سرخی سی چھاجاتی۔مگر وہ شام تو بے حداداس تھی ۔یوں لگ رہا تھا جیسے شام نے اپنے بال کھول لیے ہیں اور وہ بین کر رہی ہے ۔آٹھ ستمبر کی وہ شام میں اپنی نگاہوں سے کھرچ ہی نہیں سکتا۔گاؤں کی عورتیں، میری ماں کے غش کھانے کے بعد اس کے منہ میں چمچ سے پانی ڈالتی تھیں مگر اس کا دندل نہیں کھلتا تھا،بمشکل ناک پر ہاتھ رکھنے سے وہ ہوش میں آتی تو دوبارہ بے ہوش ہو جاتی۔اس ہجوم میں ایک آواز مجھے یاد آتی ہے،مولوی غلام رسول کی گھر والی ہماری بے جی نے میری ماں کے سر پر ہاتھ رکھا ہوا تھا،ماں کے سر پر دوپٹہ درست کرتے ہوئے وہ کہہ رہی تھیں : ’ ’شہیدوں کی بیوائیں روتی اچھی نہیں لگتیں ۔ان کی آنکھوں میں شکر گزاری کے آنسوہوتے ہیں۔تم ایک شہید کی بیوہ ہی نہیں، شہید کے بیٹے کی ماں بھی ہو ۔جسے تمہاری آغوش کی ضرورت ہے“۔ اور پھرجوں جوں میرے شعور کو توانائی ملتی گئی بہت سی باتیں مجھ پر منکشف ہوتی چلی گئیں۔
مجھے اپنے شہید والد کا صرف چہرہ یاد ہے، جس پر ہر وقت مسکراہٹ کے پھول کھلے رہتے تھے۔مجھے ان کی آواز یاد نہیں۔۔میری دادی نے مجھے بتایا تھا کہ میرے دادا بھی انگریزوں کے دور میں برما کے محاذمیں شہید ہوئے تھے۔ان کی خواہش تھی کہ اُن کا بیٹا بھی فوج میں جائے اور اپنی جوانمردی کے جوہر دکھائے ۔دادی نے بتایا کہ میری بھی آرزوتھی کہ بیٹا محاذ جنگ پر دشمن کی گولیوں کے آگے سےنہ سپر دکھائی دے۔گولیاں ہی مقدرہوں تو انہیں سینے سے لگائے اور پھر آٹھ ستمبر کو فوجی جوانوں نے گواہی دی کہ میرے شہید والدنے دشمن کا ہر وار اپنے سینے پر روکا تھا ۔بتایا گیا کہ انہوں نے ایک رات تن تنہا دشمن کی ایک پوری بٹالین کو رو کے رکھا اور بالآخر اپنی جان وطن پر نچھاور کر دی۔
اماں بتاتی ہیں کہ ابا فوج میں بھرتی ہی اس لیے ہوئے تھے تاکہ وہ اپنے شہید والد کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے پاک وطن پر اپنی جا ن قربان کر سکیں ۔ستمبر جب بھی آتا ہے میرے اندر خون کھولنے لگتا ہے ، مجھے فضاؤں سے اپنے شہید والد کی خوشبو آتی ہے ،اور میرا دل بھی وطن عزیز پر نثار ہو نے کو تڑپ تڑپ جاتا ہے۔میں نے اسی تڑپ کے ہاتھوں ،کھیلنے کودنے کی عمر میں آرمی جائن کی تھی مگر میری خو ش قسمتی میرا ساتھ نہ دے سکی ۔مجھے مشرقی پاکستان کے محاذ پر جانا پڑا اور وہیں میرے سینے پر ایسا گھاؤلگا جس کی کسک آج بھی اپنے سینے میں محسوس کرتا ہوں ۔ستمبر سے اکتوبر تک میں ایک عجیب درد کے حصار میں رہتا ہوں ۔کاش ڈھاکہ کی سرزمین میری متاعِ جاں کا نذرانہ قبول کر لیتی اور میں والد کے نقش قدم کو چھوتے ہوئے اپنے قبیلے کی روایت برقرا رکھ سکتا لیکن مجھے ۱۹۷۱ ءکے گھاؤنے اندر سے کھوکھلا کر دیا ہے۔مجھے شہادت کے رتبہ کی بجائے ایک جنگی قیدی بننے کی رسوائی ملی ،کئی باردشمن کی قید سے بھاگنے کی کوشش کی تاکہ آزادی کی جدوجہد میں یہ جان کام آجائے اور میں غلامی کا طوق گلے میں ڈالے وطن کی سرحد عبور نہ کروں مگر نصیبوں کا لکھا کون ٹال سکتا ہے؟جنگی قیدیوں کی واپسی ہوئی تو ناتواں قدم جسم کا ساتھ نہیں دیتے تھے ۔میں پشیمانی کا بوجھ اٹھائے وطن کی سرزمین پر قدم نہیں رکھنا چاہتا تھامگر اب میں کسی کو کیا بتاؤں کہ ستمبر اور اکتوبر میرے لیے بیک وقت احساس ِتفاخر اور احساسِ ندامت ساتھ لاتا ہے۔زندگی اللہ تعالیٰ کی دین ہے مگر میں اسے وطنِ عزیز کی امانت سمجھتا ہوں مگر میرے بھاگ میں سرخرو ہونا نہیں تھا۔میں محاذِ جنگ سے ناکام لوٹا، میری زندگی میرے وطن کے کام نہ آسکی، میں تاحال سسک رہا ہوں، کاش میں اپنے دادا اور والد کی طرح اپنے پاک وطن پر قربان ہو سکتا تو میری ماں بھی فخر سے کہہ سکتی
اے پُتر ہٹاں تے نئیں وِکدے
کاش میرے گاؤں میں میرے قبیلے کے جوانوں کے سر ایک بار پھر بلند ہو سکتے، ایک بار پھر فوجی ٹرک ہمارے ڈیرے پر آرُکتا تو فضاؤں میں شہادت کے لہو کی خوشبو سرایت کر جاتی ۔لیکن اب ہمارے گاؤں میں ایک مدت سے کسی شہید کی لاش نہیں آئی ۔گاؤں کے قبرستان کے پیڑ، پیلی سرسوں، اورپھلاہیوں کے پھول، وطن کے شہیدوں کی راہ دیکھ رہے ہیں ۔میں بھی دُور سے آتے ہوئے فوجی ٹرکوں کو حسرت سے دیکھتا ہوں ۔راستوں کی دُھول سے سرسوں کے پھول اٹ چکے ہیں۔گاؤں کی منڈےروں پر گہری شام ہاتھوں میں ستاروں کے دئیے لیے ،دُور فضا میں ٹکٹکی باندھے دیکھ رہی ہے۔ستمبر ایک بار پھر طلوع ہو رہا ہے۔ سرحد پر بزدل دشمن ہمیں گھوُرتا رہتا ہے اور میرے دل کی دھڑکنوں میں پھر ایک بار وہی گیت گونج رہا ہے :
اے راہِ حق کے شہیدو وفا کی تصویرو
تمہیں وطن کی ہوائیں سلام کہتی ہیں
اب فضا میں ایک سکوت طاری تھا۔صوبےدار گُل محمد کی داڑھی آنسوؤں سے تر ہو چکی تھی۔میں نے اس کے کاندھے پر ہاتھ رکھا تو جیسے وہ چونک گیا ۔اُس نے اپنے کاندھے کے پٹکے سے اپنا بھیگا ہوا چہرہ خشک کیا اور بولا : ”صاحب معافی چاہتا ہوں نجانے کہاں پہنچا ہوا تھا ،نجانے جذبات میں کیا کیا باتیں کرتا رہا۔سچی بات یہ ہے کہ اب یہ زندگی ایک بوجھ سی لگتی ہے۔اب تو بھارت ہمیں للکار تا ہے اور ہم امن اور دوستی کی باتیں کر رہے ہیں۔کیا ہم لوگ اپنے لہو سے ستمبر کو نکال سکتے ہیں ۔کم ازکم ہم تو نہیں نکال سکتے ۔صاحب بتائیں ہم دشمن کے ساتھ بیٹھ کر کےسے مسکرا سکتے ہیں؟ہمارے جنگی قیدیوں کے ساتھ دشمن نے جو سلوک کیا وہ فراموش کیا جا سکتا ہے ؟
(بشکریہ: روزنامہ نئی بات)