لیجئے نسرین انجم بھٹی کی نظم ملاحظہ کیجئے: اداس نظموں میں سے ایک نظم
”میں کیاہوں! قبروں میں ایک اور قبر کا اضافہ
تو کون ہے مٹی ہوئی تاریخ کا کیلنڈر
میں کون ہوں مجھے تو کپڑے رنگنے والیوں نے بتایا
کہ میں
اَن دھلے ہاتھوں کی پکی ہوئی خشک اور گرم روٹی
جو نہ نگلی جائے
نہ چھوڑی جائے
مہر ہونے کے لیے اپنے باپ کے پاس میں نہیں تھی
اور قبر ہونے کے لیے اپنی ماں کے پاس تم
ہم دونوں نے ایک خطہ مقرر کیا خاندانوں کے شجروں اور جڑوں سے
اور دلوں پر لگی مہروں کے رنگ اڑگئے جب
اور کسی ایک کی سیاہی لکھی رہ گئی
”جسے خدا نے جوڑا اسے کوئی جدا نہ کرے“
٭٭٭
جنوری کی سرد شاموں اور د±ھند میں لپٹی طویل راتوں میں کبھی کبھی ایسی نظمیں لہو میں گھل جاتی ہیں۔ لاہور د±ھند میں ڈوبا ہوا عجیب لگتا ہے۔ اب وہ نہ پہلے جیسی بیٹھکیں ہیں نہ محفلیں، ورنہ پاک ٹی ہاﺅس کی شام تخلیق کاروں کے لیے ایک اثاثہ ہوا کرتی تھی۔ 9بجے کے بعد پاک ٹی ہاﺅس کی ایک ٹیوب لائٹ بند کرنے کا فریضہ ویٹر رفیع کے ذمے تھا اور یہ لائٹ بند ہونے کا مطلب رخصت ہونا ہوتا تھا۔ جیسے ہی بتی بند ہوتی دھیرے دھیرے پاک ٹی ہاﺅس کے مستقل بیٹھنے والے نشستیں چھوڑ دیتے اور باہر نکل جاتے فٹ پاتھ ریلنگ پر بھی کچھ دیر جمگھٹارہتا ، پھرآہستہ آہستہ لوگ منتشر ہوجاتے اور کچھ پرانی انارکلی کے چائے خانے کی طرف نکل جاتے۔ وہاں بھی رات گیارہ بجے تک محفلیں جمی رہتیں۔
جانے یہ منظر کہاں سے اس وقت آنکھوں میں آگیا ہے۔
”میں منصور آفاق، احمد لطیف، اطہر ناسک ،افضل عاجز اور شاید ایک دودوست اور بھی پرانی انارکلی سے اٹھتے ہیں کہر میں ڈوبی رات کی سردی سے ہمارے دانت بجنے لگتے ہیں۔ وہیں کھڑے کھڑے پاس کھڑی ایک ٹوپیوں کی ریڑھی سے احمد لطیف نے ایک ٹوپی سر پر چڑھالی۔ اس کی دیکھا دیکھی ہم سب نے پانچ روپے والی ایک ایک ٹوپی لی اور کانوں تک کھینچ کر سردی سے نبرد آزما ہوگئے۔ اب پیدل لکشمی چوک تک کا سفر۔ قہقہے، لطیفے ، جملے جاری رہتے یوں دھوند میں لپٹا سفر جاری رہتا۔ آخری سٹاپ لکشمی چوک ہوتا۔ وہاں تھڑے پر بیٹھنے والے چائے والے سے گرم چائے پینے کے بعد ہم بکھر جاتے۔ پھر اگلی شام تک کچھ خبر نہ رہتی کہ کون اس لاہور میں کیا کیا پاپڑ بیل رہا ہے۔ عجیب آوارگی کے دن تھے۔ میں اور ناسک اکثر ٹی ہاﺅس سے غائب ہو جاتے وہ شام ایورنیو سٹوڈیو میں گزرتی۔ ہمیں گیت نگاری کا بھوت لیے پھرتا اور چشم تصور میں ہم خود کوفلمی دنیا کے بڑے گیت نگار کی طرح دیکھتے۔ناسک کو فلمی کہانیاں لکھنے کا جنون بھی تھا۔ وہ اکثر کسی جگہ چلتے چلتے اچانک ٹھہر جاتا اور اپنے کسی فلمی سین کی منظر کشی بیان کرنے لگتا۔
”یوں ٹرین سامنے سے آرہی ہے۔ اور یوں میرا ہیرو اترا ہے اِدھر سے ہیروئن سہیلیوں کے ساتھ اسٹیشن پر دکھائی دی۔ “
بس آگے رومانٹک مکالمہ ہے :“ احمد لطیف !یار اگر یہ فلم بن کر ہٹ ہوجائے تو میں تمہیں اگلی فلم کی شوٹنگ پر یونٹ کے ہمراہ سنگاپور لے جاﺅں گا۔ ہاہاہا۔احمد لطیف زور سے قہقہے لگاتا اور کہتا فی الحال تو مجھے داروغہ والی ویگن پر بٹھا دو۔ رات گہری ہورہی ہے آگے مجھے گلی کے کتوں سے بھی دودو ہاتھ کرنے ہیں۔
منصور آفاق اس کے جیبوں میں ٹھنسے ہاتھوں کو دیکھ کر کہتا…. احمد لطیف پہلے خالی جیبوں سے ہاتھ تو نکال….اور سنوکتوں سے نمٹنے کے لیے ایک آدھ پتھر جیب میں رکھ لیا کرو ، پتھر مارو تو کتا پتھر کے پیچھے دوڑتا ہے جب وہ پتھر کی طرف دوڑے تم دوسری سمت دوڑ لگاکر ا±س سے د±ور ہوسکتے ہو۔ ہاہاہا۔
افضل عاجز ہنستے ہوئے کہتا اگر کتا پتھر کے پیچھے نہ دوڑا تو احمد لطیف کی پینٹ ”لیرولیر“ ہونے کا امکان ہے لہٰذا یہ مشورہ پاس رکھو…. آﺅ پہلے چائے کی چسکی لگاتے ہیں۔ اطہرناسک کہتا نئیں عاجز صاحب اب چائے نہیں اب تو مجھے پٹھان کی سوپ والی ریڑھی سے پیالہ یخنی کا پلواﺅورنہ مجھے سردی نے ادھ مواکردیا ہے۔ اس منڈلی میں کبھی جواز جعفری بھی شامل ہوجاتا۔ شاعری، فلمی کہانیاں، گیت اور نجانے کیا کیا خواب زیربحث رہتے۔
آج اطہرناسک تو ہمیشہ کے لیے ہم سے جدا ہوچکا ہے۔ بس کہر میں ڈوبی راتوں میں آوارگی کی یادیں باقی ہیں۔ احمد لطیف اسلام آباد میں ہے۔ منصور آفاقی کالم نگاری میں مست ہے اب تو وہ حکمرانوں کی خبرگیری میں مصروف رہتا ہے۔ جواز جعفری ڈاکٹر بن کر تخلیقی اور تدریسی زندگی میں گم گیا ہے اور میں یادوں کے نوحے تحریرکررہا ہوں۔ ا
فضال عاجز اب بھی کبھی کبھی پلاک میں مل جائے تو یادیں تازہ ہونے لگتی ہیں۔
آہ:کتنے لوگ تھے لاہور کی کوئی شام ایسی نہ تھی جب کوئی ادبی تقریب نہ ہو۔ منیر نیازی ، قتیل شفائی ،اظہر جاوید، ظہیر کاشمیری، انتظار حسین، سہیل احمد خان، اسرار زیدی ، سلیم شاہد، ناہید شاہد ، احمد ندیم قاسمی، مظفرعلی سید، جاوید شاہین، حسن رضوی، خالد احمد اورکئی دیگر شاعر اور ادیب کسی نہ کسی ادبی محفل میں موجود ہوتے پاک ٹی ہاﺅس کے اپنے شب وروز ہوتے تھے۔ حلقہ ارباب ذوق کے اجلاس بھی بڑے دھواں دھار قسم کے ہوتے تھے۔ اب تو نہ وہ شامیں ہیں نہ وہ اہل قلم، اب تو بس فیس بک بازار ہے جہاں ہر کسی نے اپنا ٹھیلہ لگا رکھا ہے تصاویر کا ٹھیلہ۔ دوچار لوگ جہاں اکٹھے ہوتے ہیں …. بھلے میز پرکڑاہی گوشت اور پلیٹیں رکھی ہوں اور کھانا کھایا جارہا ہو تصویر بناکر اپ لوڈ کردی جاتی ہے۔ اور یوں ساری دنیا میں چرچا ہوجاتا ہے کیپشن میں لکھا جاتا ہے ”دیسی ہوٹل میں مشاعرہ “….اب رسائل جرائد اور ادبی ایڈیشنوں کی طرف کون دیکھے۔ اپنی غزل نظم مع تصویر فیس بک پر لگاکر سوپچاس کمنٹ مِل گئے تو واہ واہ کی ضرورت ہی نہیں رہتی۔ ہائے وہ دن !
اک زمانہ تھا کہ سب ایک جگہ رہتے تھے
اور اب کوئی کہیں کوئی کہیں رہتا ہے
(بشکریہ:روزنامہ نئی بات)