سنسکرت کے عظیم مفکر اور دانشور بھرتری ہری نے اپنی ایک خواہش کو یوں لفظوں کا روپ دیا :
”وہ خوشی کے دن کب آئیں گے
جب میں کوہ ہمالیہ کی کسی چٹان پر
مقدس گنگا کے کنارے
”پدم آسن“ لگائے
دنیا ومافیہا سے بے خبر
آنکھیں بند کیے، بِرہم کے تصور میں محو رہوں گا
اور جنگل کے بوڑھے ہرن بے خوف وخطر
اپنے کندھوں کو میرے جسم سے مَل کر
اپنی خارش مٹائیں گے “
آج تو یہ آرزوکرنے والا بھی کوئی نہیں ہے، البتہ لاہور کی پرانی انارکلی میں ایک بھگوان سٹریٹ بھی تھی جس کے ایک کونے میں ” تخلیق “ کا ایک گہوارہ ہوا کرتا تھا۔ جہاں ایسا ہی ایک سادھو محبت کی دھونی رمائے بیٹھا ہوتا تھا۔ تخلیق بھی ادب کا برگد تھا جس کے نیچے ادب محبت کا مہاتما اظہر جاوید اپنے چاہنے والوں کی دلگیری اور پذیرائی میں پیش پیش رہتا تھا۔ ادب کے کتنے ہی پکھیرو تخلیق کی شاخوں میں پلے بڑھے اور پھر آسمان ادب پر کونجوں کی ڈار میں شامل ہوئے مگر تخلیق نے اپنی گلی نہ چھوڑی۔
اظہر جاوید ایک درویش منش انسان تھے۔ میری پہلی غزل انہوں نے ہی شائع کی تھی جو اب میری شہرت سے بھی آگے نکل گئی ہے۔ ایک شعر اظہر جاوید کے وارث تخلیق سُونان اظہر کی نذر:
میں تو اس واسطے چُپ ہوں کہ تماشانہ بنے
تُو سمجھتا ہے مجھے تجھ سے گلہ کچھ بھی نہیں
مجھ ایسے کتنے ہی شاعروں ادیبوں کو اظہر جاوید نے اہلِ ادب سے متعارف کرایا۔ تخلیق ایک ادبی جریدہ نہیں ”خاندان“ تھا۔ اسے نیاز مندان اظہر جاوید بھی کہا جاتا کہ اظہر ایک بڑے دل کے مالک تھے۔ ہر ماہ کسی نہ کسی بہانے ”محفلِ دوستاں“ آباد کرلیتے۔ کبھی فون پر ان کی میٹھی آواز آتی :” پیارے کل شام 5بجے کہیں اور نہیں جانا ۔ شیزان میں امریکہ سے ایک دوست آرہا ہے، اس کے لیے چند قریبی احباب مدعو ہیں۔“
انہی محفلوں میں لاس اینجلس کی آپا نیر جہاں، زہانت حسین، آصفہ نشاط ، یوکے سے مقصود الٰہی شیخ سے ملاقات ہوئی۔ کراچی اسلام آباد سے کوئی آگیا تو اس کے اعزاز میں بھی تقریب منعقد ہوگئی۔ ان کے احباب ”پکے پیڈے“ تھے۔ چند اہم نام جو اکثر تخلیق کے پلیٹ فارم پر دکھائی دیتے ان میں میری ناقص یادداشت کے مطابق : احمد راہی، قتیل شفائی، منیرنیازی، خواجہ محمد زکریا، حمیداختر، کنول فیروز ، سرفراز سید، اے جی جوش، شہزاد احمد، احمد عقیل روبی، عبدالکریم خالد، تنویر ظہور، ناہیدشاہد، سلیم اختر ،انور سدید ، اشفاق نقوی، اسرار زیدی، حکیم ولی الرحمن ناصر، اعزاز احمد آذر، افتخار مجاز، صدیقہ جاوید، یونس جاوید، افضال شاہد، ضیا ساجد،رانی نذیر، زریں پنا، سیما پیروز، قاضی پیروز بخت، تسنیم منٹو، ریحان اظہر، عابد منٹو، تسنیم کوثر، شبہ طراز، اسلم طارق، ڈاکٹر عالم خان، آغانثار ، زمان کنجاہی، عطیہ سید، سلمیٰ اعوان، امینہ عنبرین ، نیلم احمد بشیر، اور مجھ ایسے کئی نووارد بھی دکھائی دیتے۔ ان کے صدارتی پینل میں اشفاق احمد قتیل شفائی ، بانو قدسیہ یا احمد راہی عموماً شامل ہوتے تھے۔
عزیز قارئین! فروری آتا ہے تو ہم اظہر جاوید کو یاد کرتے ہیں محبت کے شہزادے نے دوستوں سے جدائی کا دن بھی وہ چنا جس روز لوگ محبت کا دن (ویلنٹائن ڈے) مناتے ہیں۔ کہا کرتے تھے کہ تخلیق میری آنکھیں بند ہوتے ہی بند ہوسکتا ہے میرے اس شعر کو پسند کرتے:
دل اچانک بند ہونے کے بھی امکانات ہیں
یہ بھی لگتا ہے کسی ادبی رسالے کی طرح
ادبی پرچہ شائع کرنا سراسر خسارے کا سودا ہے جو اظہر جاوید کے سر میں بھی تھا اور اب سونان اسی مشن کو لیے رواں دواں ہے۔ اظہر جاوید اور تخلیق کے 50سالہ جشن کو سونان اظہر نے شاندار طریقے سے منایا۔ وہ کوشش کرتا ہے کہ شہرِ ادب کا کوئی باسی اس تقریب میں شرکت سے رہ نہ جائے۔ سبھی کو بلاتا ہے وہ تو ان احباب کو بھی محبت کے پھول پیش کرتا ہے انہیں دل کے سٹیج پر جگہ دیتا ہے جو اظہر جاوید کی فہرست میں کبھی بھی اِس لیے شامل نہ تھے کہ وہ ایک سچا کھرا ادیب تھا۔ مصلحت ومنافقت اسے آتی ہی نہ تھی۔ یہ عادت ادبی مافیا کو گوارا نہیں ہوتی۔ میں نے ایک بار دریافت کیا :”آپ مشاعروں میں کیوں تشریف نہیں لاتے تو وہ کہتے ”مشاعروں میں حفظِ مراتب کا خیال نہیں رکھا جاتا۔ ان دنوں جو مشاعرہ باز ہیں ، یہ جانتے بوجھتے بھی کہ میں ان سے سینئر ہوں، غلط مقام پر پڑھواتے ہیں“۔ لہٰذا ایسے مشاعروں کو دور سے سلام۔ “ ایسے چند اہلِ قلم نے انہیں ہمیشہ اذیت ہی پہنچائی۔ خیر…. اظہر جاوید زندہ ہوتے تو ایسی ہی تقریبات جاری وساری رہتیں ان کا محبت اور احترام کا مشن سونان اظہر اور ان کی بہو پورا کررہے ہیں۔ وہ اہلِ قلم کو عزت دیتے ہیں۔ ادب کے ایوارڈ کا اجرا کرچکے ہیں۔ اور اس بار تو اظہر جاوید کے ایک ہمدم دیرینہ سرفراز سید کو ” تخلیق ایوارڈ“ سے نوازا گیا ۔ سٹیج پر صدارتی کرسی پر ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا کے ساتھ تبسم کاشمیری، امجد اسلام امجد، غلام حسین ساجد بھی تشریف فرما تھے۔ نظامت صوفیہ بیدار کررہی تھیں۔ اس ادبی کہکشاں میں ایک سے بڑھ کر ایک ”سٹار“ موجودتھا۔ سونان کسی سے اظہار خیال کراتے کسی سے پھول دلواتے یا شیلڈز، عمدہ اور پرتکلف چائے بھی ساتھ ساتھ چل رہی تھی۔ لاہورسے ادبی کریم کے علاوہ جھنگ سے ڈاکٹر محسن مگھیانہ ساہیوال سے بسمل صابری ، سرگودھا سے ہارون الرشید تبسم ، کے علاوہ بشریٰ رحمن، کنول فیروز ، نیلم احمد بشیر، بینا گوئندی، کرامت بخاری، گلزار بخاری، حسین مجروح، غافر شہزاد، ممتاز راشد، منشا قاضی، حسن عسکری کاظمی، منور سلطانہ، فرخ سہیل گوئندی، بشریٰ اعجاز، رخشندہ نوید، فوزیہ تبسم ، اشرف شاہ، سیما پیروز، طفیل دادا، آفتاب خان، حسن عباسی، نواز کھرل اور کئی دوسرے اہل قلم یہاں موجود تھے۔ جنہوں نے تخلیق اور اظہر جاوید سے اپنے تعلق کے حوالے سے اظہار خیال کیا۔ زریں پنانے برملا کہا :”میں اظہر جاوید کی گرل فرینڈ تھی“۔ انہوں نے ایک گیت پر رقص کرکے اپنی محبت اور عقیدت کا اظہار کیا۔ خالد محمود، ڈاکٹر قیصرہ رفیق، محموداحمد بھی سونان اظہر کی معاونت کررہے تھے۔ تخلیق کا 50سالہ جشن بیاد اظہر جاوید ایک یادگار ادبی میلہ تھا جس میں شہربھر کے نیازمندانِ اظہر جاوید شریک ہوئے۔ اس کامیاب تقریب پر سونان اظہر اور ان کی ٹیم واقعتاً مبارک باد کی مستحق ہے ویل ڈن سونان ویل ڈن۔
(بشکریہ: روزنامہ نئی بات)
فیس بک کمینٹ