رمضان المبارک کی آمد آمد ہے۔ ہم سب مسلمانوں کے لیے یہ ایک بابرکت اور مقدس مہینہ ہے۔ عبادات کے اس مہینے میں ہم اللہ کی رحمتیں سمیٹتے ہیں۔ سحروافطار کی نعمتیں میسر آتی ہیں۔ اسے قناعت کا مہینہ بھی قرار دیا جاتا ہے مگر ہوتا یہ ہے کہ ہمارے ہاں سب سے زیادہ اخراجات اسی مہینے میں ہوتے ہیں۔ صبح و شام سحر اور افطار میں کئی کئی ڈشزاور مشروبات کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ فروٹ چاٹ، دہی بڑے، پکوڑوں کے بغیر تو ہماری افطاری مکمل نہیں ہوتی۔ افطار کا وقت قریب آتے ہی سموسوں اور پکوڑوں کی دکانوں پر رش دیدنی ہوتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ کوئی مفت چیز بٹ رہی ہے اور لوگوں کا ایک ہجوم امڈ پڑا ہے۔ گھروں میں بھی اسی طرح کے پکوان تیار کیے جاتے ہیں۔ روزانہ کلو دو کلو بیسن تو ہرگھر میں استعمال ہوتا ہے۔ سال بھراتنا بیسن کسی معدے میں نہیں جاتا جس قدر رمضان المبارک میں ہم اپنے معدوں میں بھرلیتے ہیں۔ روزہ کے دیگر روحانی فوائد کے علاوہ انسانی بدن پر بھی اس کے اثرات ہوتے ہیں۔ بدن کی بھی ایک طرح کی ”اوورہالنگ“ ہوجاتی ہے۔ بعض افراد اس لیے بھی روزہ رکھتے ہیں کہ اس طرح کی نیکی کے ساتھ ان کی ڈائٹنگ بھی ہوجاتی ہے۔
لیکن فی زمانہ دیکھا جائے تو رمضان المبارک کے بعد عموماً ہر شخص کا وزن بڑھ جاتا ہے۔ وجہ صرف یہ ہے کہ ہم افطار کے وقت ضرورت سے زیادہ کھاجاتے ہیں۔ پھر گھی یا آئل میں تلی ہوئی اشیاءقدرے زیادہ استعمال ہونے سے بھی ہمارا وزن بڑھ جاتا ہے۔ اگر قناعت کے اِس مہینے میں واقعتاً قناعت کی جائے تو گھر کے بڑھتے بجٹ کے کم ہونے کے ساتھ ساتھ، ہمارا ذاتی وزن بھی کم ہوسکتا ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ ہرروز پاؤبھرپکوڑوں سموسوں کے ساتھ ہی روزہ افطار کیا جائے۔ عام دنوں میں بھی ہم کب اس قدر بیسن اور تلی ہوئی اشیاءاستعمال کرتے ہیں۔ روزہ تو کھجور، نمک اور سادہ پانی سے بھی افطار کیا جاسکتا ہے۔ نماز کے بعد ڈنر بھی اگر سادہ ہو تو رات سکون سے عبادت کی جاسکتی ہے۔ اور پھر سحری کے وقت آپ بھرپور انداز میں کھانا تناول کرسکتے ہیں۔ لیکن ہمارے ہاں تو سحری کے اوقات میں بھی مرغن غذاؤں کا استعمال بڑھ گیا ہے۔ اب جو اشیاءہم افطاری کے وقت نہ کھاسکیں، سحری کے اوقات میں کھانے لگے ہیں۔ بعض گھروں میں سری پائے بریانی سحری میں بھی کثرت سے استعمال کی جاتی ہے۔ انسان کو اگر رمضان المبارک کا حقیقی روحانی لطف اٹھانا ہوتو اسے اپنی خوراک اعتدال کے ساتھ کھانی چاہیے۔ یہ تو تھا ایک پہلو۔ دوسرا پہلو یہ ہے کہ رمضان المبارک کا چاند نظر آنے سے قبل ہی خوردنی اشیاءکی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگتی ہیں۔ فروٹ ، سبزی ،گھی دالیں سب کچھ دوگنا مہنگا ہوجاتا ہے۔ اور اوپر سے گلی سڑی سبزیاں بیچنے والے بھی پہلے سے زیادہ چوکس ہوجاتے ہیں۔ ملاوٹ کرنا دین میں ویسے بھی منع کیا گیا ہے، مگر اس بابرکت مہینے میں جعلی اشیاءبھی بک جاتی ہیں۔ ظاہر ہے ہر شخص نے افطاری کرنی ہے اور پھر خوب کرنی ہے۔ سو پکوڑوں سموسوں میں گلی سڑی باسی سبزیاں بھی کام آجاتی ہیں۔ اس پر بھی دکاندار منافع دوگنا کماتا ہے کوئی پوچھنے والا جو نہیں۔ پھر جوں جوں عید قریب آتی ہے جوتے کپڑے اور دیگر اشیاءبھی کئی گنا مہنگی ہوجاتی ہیں یہاں بھی جعلی مال پہلے نکالا جاتا ہے۔ کیا اس برکتوں اور رحمتوں کے مہینے میں یہ سب کچھ کرنا جائز ہے؟ نہیں ہرگز نہیں۔ سب کو پتہ ہے یہ رحمتوں کا مہینہ ہے مگر ہم سب مال مہنگا بیچتے ہیں۔ ملاوٹ کرتے ہیں اور اپنی عید بناتے ہیں۔ بعض ممالک میں مذہبی تہواروں پر اشیائے خوردونوش بے حد سستی کردی جاتی ہیں تاکہ عام آدمی بھی اس سے فائدہ اٹھا سکے۔ جو لوگ استطاعت نہیں رکھتے ان کو خوشیوں میں شریک کرنے کے لیے سستے بازار جو واقعی سستے اور معیاری اشیاءسے مزین ہوتے ہیں۔ وجود میں آتے ہیں۔ بازارتو ہمارے ہاں بھی لگتے ہیں مگر یہاں معیاری اشیاءکم ازکم سستی نہیں ملتیں۔ یہ سب دکھاوے کی باتیں ہیں جو حکومتی سطح پر ہوتی ہیں اور کہا یہی جاتا ہے کہ عوام کے لیے رمضان اور عیدبازار لگائے گئے ہیں مگر ان بازاروں میں کبھی اچھا اور معیاری سودا سلف نہیں ملتا نہ ہی ریٹ مناسب ہوتا ہے البتہ ریٹ لسٹ ضرور آویزاں کی جاتی ہے اگر کوئی گاہک ریٹ لسٹ کا ذکر کرے تو اسے تضحیک کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اس ریٹ لسٹ کے مطابق جو اشیاءدکھائی جاتی ہیں آپ انہیں خریدنا گوارا نہیں کرسکتے کیونکہ وہ انتہائی ناقص اور غیرمعیاری ہوتی ہیں۔ کیا رحمتوں اور برکتوں کے مہینے میں ہماری یہ حرکات اور اعمال ہماری عبادات کے لیے مناسب ہیں؟ یہ سوال اہم ہے اور سوچنے کے لائق ہے۔ کوئی مسلمان جعلی ناقص اشیاءبیچ کر اگر یہ کہے کہ میرا روزہ ہے تو کیا اس کا روزہ برقرار رہ سکتا ہے؟؟ ضرورت اس بات کی ہے کہ رمضان المبارک میں صرف عبادات پر توجہ دینے کے علاوہ اپنے روز مرہ معمولات پر بھی دھیان دینا چاہیے۔ دوسروں کے لیے باعث رحمت بنیں گے تو رمضان ہمارے رحمتوں کا باعث ہوسکتا ہے ورنہ بھلے مدینے میں جاکر آخری عشرہ عبادات میں گزار دیں، اگر ہمارے رویے دوسروں کے ساتھ درست نہیں۔ لوگوں کے ساتھ معاملات میں ہم اچھے نہیں تو یہ عبادات کسی کام کی نہیں۔
(بشکریہ: روزنامہ نئی بات)
فیس بک کمینٹ