خاکروب اِس بات پر احتجاج کر رہے تھے کہ ایسٹر کا موقع ہے اور اُنہیں تنخواہ نہیں دی گئی، کسی نے اُنہیں مشورہ دیا کہ اپنا حق مانگنا ہے تو دھرنا دے دو چنانچہ اُنہوں نے یونیورسٹی میں دھرنا دے دیا، دیکھتے ہی دیکھتے سو ڈیڑھ طلبا بھی اُن کے ساتھ احتجاج میں شامل ہو گئے، نعرے بازی شروع ہو گئی، انتظامیہ مشکل میں پڑ گئی، بالآخر ایک اکاؤنٹنٹ نما اہلکار کو بینک بھیجا گیا، وہ پیسے نکلوا کر لایا جو خاکروبوں میں تقسیم کئے گئے اور یوں اُن کا احتجاج ختم ہوا۔ یہ واقعہ لاہور کی اُس جامعہ میں پیش آیا جہاں قانون اور تاریخ بھی پڑھائی جاتی ہے اور منیجمنٹ کے اصول بھی سکھائے جاتے ہیں، جو بزنس ایڈمنسٹریشن کی تعلیم بھی دیتی ہے اور معیشت کی گنجلک قوانین کی آگہی بھی، اپنا حال مگر انتظامیہ کا یہ ہے کہ خاکروب کی تنخواہ روک کر بیٹھ گئے کہ وقت سے پہلے نہیں دینی، ایسٹر ہے تو کیا ہوا!
اِس ملک میں شوگر ملوں کی ایک تنظیم ہے، جب بھی شوگر مل مالکان کے ساتھ کوئی ’ظلم‘ ہوتا ہے تو وہ خم ٹھونک کر میدان میں آ جاتے ہیں، اِسی طرح ٹیکسٹائل مل والوں کی بھی ایسوسی ایشن ہے، اُن کے خلاف اگر کوئی ’زیادتی‘ ہو تو وہ سیدھا وزیرِ خزانہ کے پاس پہنچ جاتے ہیں، ادویات بنانے والوں کا بھی گٹھ جوڑ ہے، گاڑیاں بنانے والے بھی جب چاہیں ڈالر کی آڑ میں قیمتیں بڑھا سکتے ہیں، سیمنٹ فیکٹریاں بھی ماحول کو آلودہ کرنے میں آزاد ہیں، نجی پاور کمپنیوں اور بڑے تعلیمی اداروں نے بھی(فلاحی کام کی آڑ میں ) اپنے لئے اربوں روپوں کی ٹیکس چھوٹ لے رکھی ہے، اسٹاک مارکیٹ کے جنات بھی آہ وزاری کرتے ہوئے حکومت سے رعاتیں لیتے رہتے ہیں۔ غرض معاشرے کے تمام مراعات یافتہ طبقات نہ صرف وسائل پر قابض ہیں بلکہ الٹا اپنی مظلومیت کا رونا رو کر حکومتوں سے مزید رعایتیں بھی اینٹھتے رہتے ہیں جبکہ معاشرے کا وہ طبقہ جو سب سے زیادہ مظلوم، پسا ہوا ہے اور حقیقتاً رعایت کا حقدار ہے اُس کی رسائی کسی حکومتی عہدے دار تک نہیں، وہ اپنی مرضی سے تنخواہ میں اضافہ نہیں کر سکتا اور نہ ہی کوئی اُس کی پکار سنتا ہے، یہ مزدور طبقہ ہے۔ دنیا بھر میں ٹریڈ یونین مزدوروں کی نمائندہ تنظیمیں ہوتی ہیں، وہ مزدوروں کے حقوق کے لئے جدو جہد کرتی ہیں، اِس بات کو یقینی بناتی ہیں کہ فیکٹری ملازمین کو اجرت وقت پر ملے، تنخواہ میں ہر سال اضافہ ہو، قانون کے مطابق اُن کی صحت اور بچوں کی تعلیم کا خیال رکھا جائے، اُن کا بیمہ کروایا جائے، فیکٹری میں کام کرنے کا ماحول ٹھیک ہو، کارکن کی جان کو خطرہ نہ ہو، کسی بھی قسم کے حادثے کی صورت میں فوری طبی اور مالی امداد جاری ہو مگر یہ سب باتیں اُسی صورت میں ممکن ہیں اگر ایک فعال اور قانونی ٹریڈ یونین موجود ہو جبکہ اپنا حال یہ ہے کہ مشکل سے چار پانچ فیصد لیبر ٹریڈ یونین کے زیرِ اثر ہے جبکہ باقی کا کوئی پرسان حال نہیں، عورتوں کے کپڑے تیار کرنے والی بڑی بڑی کمپنیاں ہوں یا ریستورانوں کی ملٹی نیشنل چین میں کام کرنے والے نو عمر لڑکے لڑکیاں، کسی کو اپنا حق مانگنے کی اجازت نہیں۔ ٹریڈ یونین بنانا تو دور کی بات ہے گزشتہ چند برسوں سے سرمایہ داروں نے ایک نیا ہتھکنڈہ اپنایا ہوا ہے، کوئی بھی کمپنی اب براہ راست ملازمین بھرتی نہیں کرتی بلکہ کسی لیبر کنٹریکٹر کو ٹھیکہ دیتی ہے کہ وہ اُنہیں لیبر مہیا کرے، بالکل ایسے جیسے کوئی ریستوران اپنے سپلائیر کو آرڈر لکھوائے کہ ہر ماہ اتنی ڈبل روٹیاں سپلائی کردیا کرو۔ نتیجہ اِس کا یہ نکلا ہے کہ کمپنیوں، ریستورانوں اور فیکٹریوں میں کام کرنے والے اب کسی احتجاج کے قابل نہیں رہے، لیبر کنٹریکٹر اُنہیں بھرتی کرتا ہے اور پھر اپنی کمیشن کے عوض اِن ملازمین کو اُس کمپنی کے حوالے کر دیتا ہے جنہیں اِن کی ضرورت ہوتی ہے۔ اب یہ ملازمین اگر کمپنی کی کسی پالیسی کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں تو لیبر کنٹریکٹر کان سے پکڑ کر اُنہیں نکال باہر کرتا ہے، کسی قسم کی ملازمت کا تحفظ اُنہیں حاصل نہیں، کوئی سہولت اُنہیں میسر نہیں، فی گھنٹہ کے حساب سے اُنہیں کام کرنے کے پیسے ملتے ہیں اور یہ معاوضہ کم از کم قانونی اجرت سے کہیں کم ہوتا ہے۔ لاہور کی جس یونیورسٹی میں خاکروبوں نے احتجاج کیا وہاں یہی ماڈل نافذ ہے، گویا جس یونیورسٹی میں اِس بات کی تعلیم دی جاتی ہے کہ لیبر قوانین کا نفاذ کس قدر ضروری ہے خود اُس جامعہ میں یہ قوانین نافذ نہیں۔
ہمارے دماغ میں ٹریڈ اور طلبا یونین کا ایک خوفناک تصور ہے، فلموں میں دکھایا جاتا ہے کہ ٹریڈ یونین جب چاہے بغیر کسی وجہ کے چلتی ہوئی فیکٹری بند کروا سکتی ہے، جس سے مالک کو بیٹھے بٹھائے کروڑوں کا نقصان ہو جاتا ہے، اِسی طرح ہم سمجھتے ہیں کہ طلبا یونین میں صرف بدمعاش لڑکے ہوتے ہیں جو اُٹھے بیٹھے ہر کسی سے لڑتے جھگڑتے رہتے ہیں۔ طلبا یونین کے بارے میں یہ غلط تصورات اِسی پروپیگنڈے کا نتیجہ ہیں جس کے تحت سیاست کو اِس ملک میں گالی بنا دیا گیا ہے۔ خیر یہ بحث پھر کبھی، ٹریڈ یونین کی طرف واپس آتے ہیں۔ یہ درست ہے کہ ٹریڈ یونین میں بھی دودھ کے دھلے لوگ نہیں ہوتے اور وہ اپنے ذاتی مفادات اور طاقت کے حصول کے لئے بلیک میلنگ کرتے ہیں مگر اِس کا یہ مطلب نہیں کہ اِس ملک کی لیبر فورس کو نمائندگی سے ہی محروم کر دیا جائے۔ خواتین کے کپڑوں کے برینڈ جو اپنی امیج بلڈنگ کے لئے عورت کی خود مختاری کو لے کر اشتہاری مہم چلاتے ہیں، کبھی اپنی فیکٹریوں میں کسی مزدور عورت کا احتجاج برداشت نہیں کرتے۔ رنگ برنگے اشتہاروں پر کروڑوں روپے لگانے والی ملٹی نیشنل برگر کمپنیاں لیبر کنٹریکٹر کے ذریعے اُن لڑکے لڑکیوں کی بھرتی کرتی ہیں جن کے پاس اپنی کالج کی فیس کے پیسے نہیں ہوتے، یہ بیچارے چونکہ احتجاج کے قابل ہی نہیں ہوتے اس لئے بلاں چوں چراں یہ استحصال برداشت کرتے ہیں۔
آج یکم مئی ہے، محنت کشوں کا عالمی دن، میں کوشش کرتا ہوں کہ سال میں کم از کم اِس ایک دن ضرور اِس طبقے کے بارے میں لکھوں جن کا کوئی والی وارث اِس ملک میں نہیں، شوگر ملوں اور ٹیکسٹائل کمپنیوں کی طرح اِس طبقے کی کوئی لابی ہے اور نہ کوئی ایسوسی ایشن، یہ آج بھی کام پر جائیں گے کیونکہ اگر یہ کام پر نہ گئے تو کل اِن کے بچے پیٹ بھر کر کھانا نہیں کھا سکیں گے۔ آج کل ہر کوئی یہ کہتا ہے کہ مسئلہ بیان نہ کرو حل بتاؤ، حل پہلے بھی بتایا تھا آج پھر عرض کئے دیتا ہوں، نجی کمپنیوں میں لیبر کنٹریکٹر کا تماشہ ختم کریں، وہاں ٹریڈ یونین رجسٹر ہو اور لیبر قوانین کا سکینڈے نیوین ماڈل نافذ ہو۔ مزدور کی عزت بھی بحال ہو جائے گی اور اُسے سانس بھی آ جائے گا لیکن جس دن حکومت نے یہ اقدامات کئے اگلے روز ارب پتی فیکٹری مالکان اخبارات میں کروڑوں روپے کے اشتہارات شائع کروا کر سینہ کوبی کریں گے کہ یہ ظلم ہے، انڈسٹری بند ہو جائے گی اور پھر یہ اقدامات واپس ہو جائیں گے۔
(بشکریہ:روزنامہ جنگ)
فیس بک کمینٹ