آج ہم ایک ایسی شخصیت پر لکھنے جا رہے ہیں جن کے انتقال کے بعد اُن کی ہونہار بیٹی نے اُن کی دو کتابیں شائع کروائیں اور اُن کتابوں کو اپنے والد کے دوستوں تک بھجوایا۔ کہانی کچھ یوں ہے کہ ملتان کے ادبی منظرنامے میں انبالہ سے تعلق رکھنے والے پروفیسر سیّد اصغر علی شاہ کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ اُن کے دادا سیّد رجب علی شاہ اپنے علاقے کے بہت بڑے زمیندار تھے جو کاشتکاری کے ساتھ ساتھ جانوروں کی تجارت بھی کیا کرتے تھے۔ اصغر علی شاہ کے والد ﷲ دیا شاہ کا انتقال اُس وقت ہوا جب شاہ جی کی عمر چار برس تھی۔ 1937ءمیں اصغر علی شاہ کی والدہ محترمہ کنیز سکینہ اپنے دو بچوں کو لے کر ملتان آ گئیں۔ یہ شہر اُن کا ننھیال تھا اور ان کے نانا سیّد حسن شاہ ملتان کے قدیم ترین محلہ شاہ گردیز میں رہائش پذیر تھے۔ ابتدائی تعلیم ملتان کے سکولوں میں نمایاں پوزیشن سے حاصل کی اور اصغر علی شاہ یہ خود کہا کرتے تھے کہ اُن کی نمایاں کامیابیوں کے پیچھے اُن کی نانی امّاں غلام فاطمہ کی تربیت ہے جنہوں نے اپنے یتیم نواسے کی ہر مرحلے پر ہمت بندھائی اور مشکل وقت میں ساتھ دیا۔ کالج کے زمانے میں اُن کے ایک اُستاد پروفیسر منظور احمد نے اُن کو عربی کی طرف راغب کیا اور ساتھ ساتھ علمِ عروض کے قواعد و ضوابط سے روشناس کروایا۔ اس علم کی وجہ سے انہیں عربی، فارسی اور اُردو عروض پر عبور حاصل ہو گیا۔ ان زبانوں کو سیکھنے کے بعد انہوں نے انگریزی، ہندی، ہریانوی، پنجابی، سرائیکی اور سنسکرت زبانیں بھی سیکھیں۔ آپ بیک وقت سات زبانوں کے اسرار و رموز سے مکمل واقف تھے۔ 1956ءمیں اورینٹل کالج پنجاب یونیورسٹی سے ایم۔اے عربی کیا۔ اسی سال آپ کو اے جی آفس لاہور میں نوکری مل گئی۔ ملازمت کے دوران ہی اورینٹل کالج یونیورسٹی میں ایم۔اے اسلامیات میں داخلہ لے لیا۔ وہ صبح یونیورسٹی کلاسز کے بعد دفتری امور میں مصروف ہو جاتے۔ 1958ءمیں آپ کا تقرر بطور لیکچرار عربی میانوالی میں ہو گیا۔ 1959ءمیں گورنمنٹ کالج منٹگمری ساہیوال میں تبادلہ ہوا۔ تو ساہیوال میں ہی ملازمت کے دوران اُن کی شادی اپنی ایک عزیزہ سے ہو گی۔ اس دوران گورنمنٹ امامیہ کالج کے قیام کے لیے اُنہوں نے دن رات کام کیا۔ 1969ءمیں آپ کے اُستادِ محترم پروفیسر منظور احمد ایمرسن کالج سے ریٹائر ہوئے تو اُنہی کی نشست ساہیوال سے ملتان تبادلہ کروا لیا۔ 1976ءمیں وہ دو سال کے لیے سعودی عرب چلے گئے جہاں پر انہوں نے عربی کی تعلیم دی۔ اُن کا تقرر ریاض یونیورسٹی میں ہوا۔ وہاں جا کر وہ علم الاصوات کے ماہر بن گئے۔ 1979ءمیں وہ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے شعبہ عربی کے تعلیمی پروگراموں سے وابستہ ہوئے اور یہ وابستگی 2012ءتک جاری رہی۔ گورنمنٹ ایمرسن کالج ملتان 24 برس تک تعلیمی خدمات سرانجام دیں۔ 1993ءمیں آپ کا تبادلہ بطور پرنسپل خانیوال ہو گیا۔ اور 24 فروری 1993ءکو اپنی مدت ملازمت پوری ہونے پر ریٹائر ہو گئے۔
اُن کی شاعری کا کلیات ”عشق جب دوسرا پھیرا ہو گا“ نام سے بہاالدین زکریا یونیورسٹی نے شائع کیا۔ انہوں نے عبدالرحمن ملتانی کی مشہور کتاب ”سندیس راسک“ جو سنسکرت میں تھی کو اُردو کے قالب میں ڈھالا۔ وہ بہاالدین زکریا یونیورسٹی کے شعبہ عربی میں بھی پڑھاتے رہے۔ خانہ فرہنگ جمہوریہ اسلامیہ ایران میں اُن کا نعتیہ مجموعہ ”پیمبر فجر“ کے نام سے شائع کیا۔ عمر کمال خان نے اُن کے تنقیدی و تحقیقی مضامین بزم ثقافت کے زیرِ اہتمام شائع کروائے۔ اُن کے انتقال سے چند ماہ قبل پروفیسر ظفر عباس نقوی اور پروفیسر اصغر علی شاہ کی بیٹی عنیزہ برجیس نے اُن کا شاعری کا کلیات خوبصورت انداز میں شعبہ اُردو بہاالدین زکریا یونیورسٹی کے تعاون سے شائع کیا۔ وہ جب تک زندہ رہے ملتان میں کسی کو عربی، فارسی، انگریزی، اُردو، سنسکرت، گورمکھی اور ہندی زبان و بیان کے بارے میں کوئی مسئلہ ہوتا تو وہ پروفیسر سیّد اصغر علی شاہ سے رابطہ کرتا۔ سادہ منش شاہ جی پیدل چلنے اور سائیکل چلانے کے بیحد شوقین تھے۔ چاق و چوبند دکھائی دینے والے سیّد اصغر علی شاہ اپنے گھر میں ہر سال سردیوں کے موسم میں مچھلی کی دعوت بھی کرتے۔ چائے کے اتنے شوقین کہ ملتان کا ایسا چائے کا کونسا ہوٹل یا ڈھابہ تھا جہاں پر وہ دوستوں کے ساتھ موجود نہ ہوتے۔ وہ آخر دَم تک شہر کی علمی، ادبی اور ثقافتی زندگی میں سرگرم رہے۔ 20 اکتوبر 2016ءکو جب اُن کا انتقال ہوا تو اُن کے جنازے پر پورا ملتان اُمڈ آیا۔ اُن کے انتقال سے ملتان ایک بہت بڑے عالم سے محروم ہوا۔ آج بھی اُن کی شاعری، اُن کی علمی گفتگو اور تحقیقی مضامین لوگوں کو یاد آتے ہیں۔
اور اب وقت کی گرد نے پروفیسر سیّد اصغر علی شاہ کو بھولنا چاہا تو اُن کی بیٹی پروفیسر عنیزہ برجیس نے اُن کی دو کتابیں ”تاج محل فارسی مخطوطے کا اُردو زبان میں ترجمہ“ اور ”دیوان فاطمتہ الزہرا سلام اﷲ علیہا“ شائع کروا کر اُن کے دوستوں کو بھجوا کر یہ پیغام دیا کہ بیٹیاں اپنے والدین کو مرنے نہیں دیتیں۔ واقعی شاہ جی کی یہ دونوں کتابیں دیکھ کر یہ احساس ہو رہا ہے کہ وہ ہمارے درمیان موجود ہی تھے بس ایسے اُٹھ کر کسی مشاعرے میں گئے یا کسی تقریب میں علمی موضوع پر لیکچر دے رہے ہوں گے کہ اس طرح کی شخصیات نہ مرتی ہیں اور نہ ہی اُن کی بیٹیاں چاہتی ہیں کہ اُن کے والدین کے ساتھ مرحومین کا لفظ لکھا جائے۔
( بشکریہ : روزنامہ ایکسپریس )
فیس بک کمینٹ