مان موچی ہمارے گاؤں کا موچی ہے۔ کچھ روز قبل گاؤں کا چکر لگاتو اس سے بھی ملاقات ہوگئی۔ وہ ویگنوں کے اڈے پر بنے چائے کے ہوٹل پر بیٹھا تھا۔ بڑے دنوں بعد اسے دیکھا تھا۔ علیک سلیک کے بعد پتہ چلا کہ اب وہ جوتیاں مرمت نہیں کرتا۔ وجہ یہ بتائی کہ اب لوگ کم ہی جوتے مرمت کراتے ہیں۔ مرمت کرنے کے بجائے اب لوگ نئے جوتے خریدتے ہیں زیادہ سہولت محسوس کرتے ہیں۔
میں نے کہا :یہ تو بالکل درست ہے ان دنوں جوتیاں مرمت کرانے والے بہت ہی کم لوگ رہ گئے ہیں۔ بہت سے دیگر شعبے بھی کسی حدتک ختم ہوتے جارہے ہیں۔ بڑھئی، لوہار اور مٹی کے برتن بنانے والے بھی گاؤں سے شہر ہجرت کرگئے ہیں ان کی اولادیں پڑھ لکھ کر ملازمتوں میں مصروف ہیں۔
شاید ہی کوئی بڑا بوڑھا لوہار ترکھان گاؤں میں دکھائی دیتا ہے۔
مان موچی نے کہا بس جی زندگی کافی بدل کر رہ گئی ہے میرا اپنا بیٹا تحصیل آفس میں چپڑاسی ہے، دوسرا فوج میں بھرتی ہوگیا تھا اب ترقی کرکے حوالدار بن گیا ہے ان دنوں اس کی کشمیر میں ڈیوٹی ہے۔
میں تو اخبار پڑھنے کے لیے یہاں ہوٹل پر آیا کرتا ہوں۔ گھر میں اکیلا ہوتا ہوں۔ پنڈی والا بیٹا کبھی کبھار گاؤں آتا ہے تو اس کے بچے بھی ساتھ آجاتے ہیں۔ مجھے زور لگاتے ہیں کہ ان کے پاس شہر آجاؤں مگر میرا دل شہر میں نہیں لگتا۔ بس گاؤں ہی راس آتا ہے۔“
پھر وہ اچانک پوچھ بیٹھا:” آپ کچھ کشمیر کے بارے میں بتائیں، یہ دیکھیں اخبار میں تو بڑا جلسہ کیا ہے عمران خان نے:“
میں نے کہا بھارت نے وہاں ظلم کی انتہا کردی ہے۔ ساری دنیا اس کی سفاکانہ کارروائیوں پر حیران ہے، ہماری حکومت نے اس مسئلے کو بین الاقوامی سطح پر اجاگر کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔“
مان موچی بڑے غور سے میری باتیں سن رہا تھا، میں نے وقفہ لیا تو وہ بولا : ویسے جی ایمانداری سے بتائیں کہ کیا محض احتجاج یا ریلیوں سے کشمیریوں پر ہونے والے مظالم میں کمی آسکتی ہے سچی بات ہے جی مجھے تو کشمیر کے حوالے سے موجودہ حکومت کی پالیسی کچھ زیادہ پسند نہیں آئی۔
ایک طرف تو حکومت کہتی ہے کشمیر ہماری ”شہ رگ“ ہے۔ ہمارے ازلی دشمن بھارت نے ہماری ”سنگی“ پر انگوٹھا رکھا ہوا ہے۔ شہ رگ پر ، انگوٹھارکھا ہواہو تو سانس لینا دشوار ہوتا ہے۔ یہ کیسی ہماری شہ رگ ہے جس کو دبایا جارہا ہے اور ہم یہ کہہ رہے ہیں کہ ہم کشمیریوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔ ہم یہ بھی کہتے ہیں کہ اگر بھارت نے آزاد کشمیر پر حملہ کیا یا لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی کی تو ہم اینٹ کا جواب پتھر سے دیں گے جبکہ تقریباً روزانہ ہی کوئی نہ کوئی خلاف ورزی ہوتی ہے، کوئی نہ کوئی شہری یا ہمارا فوجی شہید ہوجاتا ہے تو ہم کون سا پتھریلا جواب دے رہے ہیں ؟؟ ہمارے وزیراعظم لوگوں کو کشمیر میں اکٹھا کرکے اداکاروں فنکاروں کے ساتھ تقریریں کیے جارہے ہیں۔ کتنے لوگ تنگ ہوتے ہیں جب کوئی سڑک بند ہوتی ہے ریلیوں اور احتجاج سے ہمارا اپنا نقصان ہوتا ہے۔
”آپ شہر رہتے ہیں زیادہ بہتر جانتے ہوں گے کہ سڑکوں پر محض احتجاج یا ریلیوں سے عام لوگ کس قدر مصیبت میں پڑ جاتے ہیں۔
اگر کشمیر ہماری شہ رگ ہے تو ہمیں بغیر سوچے پہلے اپنی شہ رگ کو دشمن کے شکنجے سے چھڑانا چاہیے ۔یہ کوئی طریقہ ہے جلسے پہ جلسے کیے جارہے ہیں اور کشمیریوں سے محبت اور ہمدردی کا دعویٰ بھی کیا جارہا ہے۔ کشمیر میں عورتوں اور بچوں کے ساتھ کس قدر ظلم ہورہا ہے، مسلمان تو اپنے مسلم بھائی کو تکلیف میں دیکھ نہیں سکتا۔ مگر آج کے نام کے مسلمان سب کچھ دیکھ رہے ہیں بلکہ مودی کو ایوارڈ سے نوازاجارہا ہے۔
یہ کہتے ہوئے مان موچی کی آوازبلند ہوچکی تھی اس کی اس تقریر سے بس سٹاپ اور قریبی ہوٹلوں کے لوگ بھی اکٹھے ہوگئے تھے۔ مان موچی حکومت پر سخت تنقید کررہا تھا۔ اب تو اس کے منہ سے جھاگ نکل رہا تھا۔ اچانک نواب سکیمی نے اس کے پاس آکر آہستہ سے کہا :” مان یار!ہم سب کے یہی جذبات ہیں مگر تمہارے شور کرنے سے یہاں تماشا سا لگ گیا ہے اور ممکن ہے سڑک کا ٹریفک بھی ٹھہر جائے۔ چلو اب چائے کا آرڈر دو…. بابو بھی بڑے دن بعد گاؤں آیا ہے ….“ نواب سکیمی کی اس بات پر سبھی ہنس پڑے۔ کسی نے زور سے نعرہ لگایا تو سبھی بولے : پاکستان زندہ باد…. اب لوگ منتشر ہوگئے تھے۔
میں عبدالرحمن موچی کی آنکھوں میں دیکھ رہا تھا جہاں نمی تیر رہی تھی شاید اسے اپنا فوجی بیٹا یاد آگیا تھا جو آزاد کشمیر کی سرحد پر تعینات ہے۔
(بشکریہ:روزنامہ نئی بات)