ایک سیاح نے دیہاتی سے پوچھا : ”کیسی گزر رہی ہے ؟“
دیہاتی نے جواب دیا :”جناب مزے سے گزررہی ہے، مجھے درخت کاٹنے تھے، اتنے میں زبردست طوفان آیا اور سب درخت گر پڑے ، میں درختوں کی کٹائی کی زحمت سے بچ گیا۔“
سیاح:” بہت خوب بھئی واہ کیا قسمت پائی ہے۔“
دیہاتی بولا :”یہ تو کچھ بھی نہیں، ایک بار مجھے گھاس جلانی تھی، بجلی گری اور گھاس جل گئی اور مجھے تکلیف نہیں کرنی پڑی۔“
سیاح حیرت سے :” بہت زبردست یار! اب کیا ارادے ہیں ؟“
دیہاتی :”اب مجھے کھیت سے آلو نکالنے ہیں، اس کے لیے زمین کھودنا پڑتی ہے۔ میں زلزلے کا شدت سے انتظار کررہا ہوں۔“
پی ٹی آئی کی حکومت بھی اس دیہاتی کی طرح زمین سے آلو نکالنے کے لیے زلزلے کا انتظار کررہی ہے۔ عمران خان کی شخصیت نوجوانوں اور بالخصوص قوم کے لیے آخری امید تھی، قوم کا خیال تھا کہ حقیقی تبدیلی آئے گی اور عمران خان نے جو خواب دکھائے ہیں انہی کی تعبیر سے قوم کی قسمت تبدیل ہوگی۔ مگر …. اب تو سال سوا سال میں ہرطرف ایک مایوسی پھیل رہی ہے۔ اگلے روز احباب میں یہی موضوع زیربحث تھا کہ ایک صاحب بولے! عمران خان کرپٹ نہیں ہے ۔ دیانت دار ہے،“ ابھی اس کی بات مکمل نہیں ہوئی تھی کہ ایک بزرگ دھاڑے اور کہا آگ لگے ایسی دیانت داری کو …. دیانت دار تو ہماری مسجد کا مولوی دین محمد بھی ہے اب اسے وزیراعظم بنادیا جائے۔ اصل بات لیڈر شپ ہوتی ہے۔
”عمران خان میں ،لیڈروں والی کوئی بات نہیں وہ تو اپنی ٹیم کو کنٹرول کرنے سے قاصر ہے۔ کرکٹ ٹیم میں چند کھلاڑیوں کو کرکٹ کھلانا اور بات ہے اور ملک چلانا دوسری بات …. لیڈر کی شخصیت ایسی ہو کہ اس کی جماعت اس کی مٹھی میں ہو….
میں نے کہا : بزرگ دوست فرمارہے ہیں۔ عمران خان کو تو امور سلطنت کی بعض باتوں کا کئی روز بعد پتہ چلتا ہے اور وہ اعتراف بھی کرتے ہیں بلکہ حیران ہوتے ہیں کہ یہ کیسے ہوگیا؟ پنجاب اسمبلی کے ممبران کی تنخواہوں کا معاملہ ہو یا بعض سرکردہ اور اثرورسوخ والے حضرات کے قرض معاف کرنے کی باتیں …. عمران خان کو حقائق چند روز بعد پتہ چلتے ہیں۔ وہ کہاں کے وزیراعظم ہیں کہ اب تک اپنی ”اطلاعاتی ٹیم“ بھی ڈھنگ کی نہیں بناسکے۔ شروع میں فواد چودھری اور فیاض الحسن چوہان کم ازکم اپوزیشن کی باتوں کا جواب خوب دیتے اور پی ٹی آئی کا دفاع کرتے رہے۔ اب تو وزیراطلاعات یا وزیر خزانہ تک ان کی اپنی پارٹی کا نہیں۔ عمران خان نے برسوں اسد عمر کی صلاحیتوں کے گن گائے اور چند ماہ بعد ہی انہیں وزارت سے الگ کردیا۔ آئی ایم ایف کی شرائط تسلیم کرکے قرضہ بھی لیا اور دوست ممالک سے اربوں کی امداد حاصل کرنے کے باوجود بھی، حالات جوں کے توں ہیں۔ وزارتوں اور اداروں کی تنخواہیں ہی نکل رہی ہیں۔ تیل کی قیمتیں عالمی منڈی میں کم ہونے کے باوجود ہمارے ہاں اس قدر بڑھی ہیں کہ عام آدمی بلبلا اٹھا ہے۔ مہنگائی، بے روزگاری ، میں سوفیصد اضافہ ہوچکا ہے۔ کئی اہم سرکاری اداروں میں تقرریاں تک نہیں کی جاسکیں۔ علمی ادبی ثقافتی اداروں میں پرانے لوگ بیٹھے ہیں۔ بیوروکریسی حکومت کے کنٹرول میں نہیں، پنجاب میں پولیس کے ظلم وستم سوشل میڈیا پر دیکھے جاسکتے ہیں۔ اب حکومت نے تھانوں میں موبائل انٹری بند کردی ہے تاکہ تھانوں میں ہونے والے مظالم کی ویڈیوز نہ بن سکیں۔ حال ہی میں پنجاب کے وزیراعلیٰ کے مشیر شہباز گل سے استعفیٰ لیا گیا ہے۔ ہمیں معلوم نہیں یہ صاحب کون ہیں اور کہاں لاکر مشیر وزیراعلیٰ بنائے گئے۔ کمزور وزیراعلیٰ لگانے کے باعث عوام شہباز گل کو وزیراعلیٰ سمجھتے تھے۔ بندہ پوچھے ، یوٹرن لینا کوئی عظیم کام ہے تو پنجاب کے لیے کئے گئے اپنے ”احمقانہ “ فیصلے پر بھی یوٹرن لے کر یہاں کوئی شخصیت لگادیتے۔
مگر وہ وسیم اکرم پلس وزیراعلیٰ کے بارے میں ڈٹے ہوئے ہیں۔ اگر وزیراعلیٰ دو لفظ ڈھنگ سے بولنے کی اہلیت نہ رکھے تو پنجاب کی ”شاطر“ بیوروکریسی کیسے قابو کی جاسکتی ہے؟؟ بس ایک مذاق سا بنا ہوا ہے۔ اس سے تو کہیں اچھا تھا چودھری پرویز الٰہی کو ہی وزیراعلیٰ بنادیا جاتا۔ پہلے بھی تو کئی وزیر مشیر ق لیگ ، پی پی یا مشرف دور کے لگائے ہوئے ہیں۔
وزیراعظم قومی نشریاتی رابطے پر مقررہ وقت پر تقریر تو نشر کرانہیں سکتے۔ صرف آپ کی قناعت پسندی، دیانتداری کس کام کی جبکہ آپ کے تمام ساتھی وہی روایتی لوگ ہیں جو پیسہ بنانے اور عیش وآرام اور طاقت، اختیارات کے لیے سیاست میں آئے ہیں۔ آپ اکیلے کیا کریں گے ؟؟۔قوم تو مطمئن تھی آپ کی تقاریر اور وعدوں سے، آپ کہا کرتے تھے کہ پی ٹی آئی کی حکومت بنتے ہی ہر شعبے میں ”عظیم ایکسپرٹ“ لوگ دنیا بھر سے یہاں آکر آپ کو جائن کریں گے، ڈالروں کی بارش ہوگی اور نظام درست ہو جائے گا۔ آپ نے سابق حکمرانوں اور ان کے عزیز ورفقاءکو قید میں ڈال کر بھی کچھ وصول نہیں کیا۔ پنجاب تو پولیس اسٹیٹ بن چکا ہے کہ اوپر کوئی ”والی وارث“ نہیں نہ کوئی پوچھنے والا ہے۔ ساہیوال کیس پرانا ہوگیا صلاح الدین کیس بھی ماضی کا قصہ بن جائے گا۔ آپ نے کیا انصاف دلایا ہے قوم کو …. بہانے بازی کب تک چلے گی۔ ڈلیور کرکے دکھائیں۔ کرپٹ لوگوں کو الٹا لٹکائیں ۔ ظالموں سے حساب لیں ورنہ تمہاری داستان تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں۔
(بشکریہ: روزنامہ نئی بات)