وزیر اعظم عمران خان براستہ جدہ نیویارک روانہ ہوئے ہیں جہاں وہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے کشمیر کے معاملہ پر پوری دنیا کے لیڈروں کو متاثر کرنے کا وعدہ اور عزم لئے اس سفر پر گئے ہیں۔ سعودی عرب میں انہوں نے شہزادہ محمد بن سلمان سے باہمی دلچسپی کے امور پر بات چیت کی ۔ پاکستان کے دفتر خارجہ کے بیان کے مطابق وزیراعظم نے سعودی ولی عہد کو کشمیر کی سنگین صورت حال کے بارے میں مطلع کیا اور سعودی تیل تنصیبات پر ہونے والے حملوں پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔
سعودی تیل تنصیبات پر ہونے والے حملوں کے بعد سعودی تیل کی پیداوار نصف سے بھی کم ہوگئی ہے اور عالمی منڈیوں میں تیل کی سپلائی میں کمی اور تیل فراہم کرنے والے ملکوں کی سیکورٹی کی صورت حال کی وجہ سے خام تیل کی قیمتوں میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ پاکستان ناقابل برداشت مالی بوجھ سے نمٹتے ہوئے فطری طور سے اس صورت حال سے متاثر ہوگا ۔ حکومت کو تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے بحران میں مزید ہاتھ پاؤں مارنے کی ضرورت ہوگی۔ وزیر اعظم کے دورہ سعودی عرب کے دورہ کے دوران یقیناً اس حوالے سے یقین دہانی حاصل کرنے کی کوشش کی گئی ہوگی کہ سعودی عرب اور اس کے تعاون سے متحدہ عرب امارات نے آئیندہ تین برس تک معطل ادائیگی پر تیل فراہم کرنے کا جو وعدہ کیا ہے، وہ بدستور اس پر قائم رہیں۔
گو کہ اس کا انحصار مشرق وسطیٰ کی صورت حال اور ایرا ن اور سعودی عرب کے درمیان تنازعہ کی نوعیت پر ہوگا۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کے ساتھ 2015 کا جوہری معاہدہ ختم کرتے ہوئے اقتصادی پابندیاں عائد کی ہیں اور دنیا بھر کے ملکوں کو ایران کا تجارتی ناطقہ بند کرنے پر مجبور کیا ہے۔ اس صورت حال کی وجہ سے ایرانی معیشت تباہی کے کنارے پہنچ چکی ہے۔ اس کے تیل کی برآمدات ختم ہوچکی ہیں اور ملک میں مہنگائی اور بیروزگاری میں اضافہ ہورہا ہے۔ ایسے میں امریکہ یا کسی دوسرے ملک کے پاس ایران پر دباؤ ڈالنے کے کوئی زیادہ ہتھکنڈے باقی نہیں رہے اور نہ ہی ایران کے پاس کھونے کو بہت کچھ ہے۔
یہی وجہ ہے کہ سعودی تیل تنصیبات پر 14 ستمبر کو ہونے والے اچانک ڈرون حملوں کے بعد امریکہ کی طرف سے تند و تیز رویہ ضرور اختیار کیا گیا تھا اور صدر ٹرمپ نے بھی ٹوئٹ پیغامات میں یہ اعلان کیا تھا کہ امریکی افواج نے نشانے تاک کر انہیں لاک کرلیا ہے یعنی کسی بھی لمحے امریکی میزائل ایران پر حملہ کرسکتے تھے۔ تاہم چوبیس گھنٹے کے اندر ہی ٹرمپ کی اس گھن گرج میں ڈرامائی تبدیلی واقع ہوگئی تھی اور انہوں نے کہا تھا کہ نہ تو امریکہ جنگ چاہتا اور نہ ہی اس نے سعودی عرب کی حفاظت کا وعدہ کیا گیا ہے۔ یہ بیان مشرق وسطیٰ میں واضح امریکی پالیسی سے برعکس تھا۔ امریکی وزیر خارجہ مائیک پومیو اس وقت سعودی عرب میں موجود ہیں اور اب امریکہ کا مؤقف ہے کہ سعودی عرب اپنی تنصیبات پر حملوں کا بدلہ لینے کا حق رکھتا ہے اور امریکہ اس حق کی تائد کرتا ہے۔
عملی طور سے دیکھا جائے تو یہ نیا امریکی مؤقف دراصل کشیدگی کو کم کرنے کی کوشش ہے اور سعودی عرب سے اس معاملہ کو فراموش کرنے کا پیغام دیا جارہا ہے۔ بات اب سعودی عرب پر حملہ کو امریکہ پر حملہ سمجھنے اور کہنے سے سعودی عرب کے حق انتقام تک پہنچ چکی ہے۔ اب سعودی عرب کو یہ جائزہ لینا ہوگا کہ اپنی تیل تنصیبات پر حملہ کا الزام ایران پر عائد کرتے ہوئے، کیا وہ انتقامی کارروائی کرنے کا حوصلہ کرپاتا ہے۔ سعودی عرب ، امریکہ کی براہ راست عسکری اعانت کے بغیر اس قسم کی کارروائی کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے ۔ شاید میڈیا میں غم و غصہ کا اظہار کرنے کے باوجود درپردہ ڈپلومیسی میں یہی پیغام سعودی قیادت تک پہنچایا گیا ہو گا کہ اس معاملہ پر ’مٹی پاؤ‘ والا رویہ اختیار کیا جائے۔
ایران اور سعودی عرب کے درمیان براہ راست کسی بھی قسم کے عسکری تصادم کا زیادہ نقصان سعودی مفادات کو ہی پہنچے گا۔ مشرق وسطیٰ میں ایک نیا طویل المدت تنازعہ شروع ہوسکتا ہے جس میں متعدد پراکسی گروہ جنگ میں ملوث ہوں گے ۔ ایسے تصادم کی کوکھ سے ہی دہشت گرد گروہ بھی جنم لیتے ہیں ۔ بعد میں ایسے گروہوں کو لگام دینا اور ان کی پھیلائی ہوئی تباہی اور بد اعتمادی کو ختم کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ اس کے علاوہ ایران سعودی تصادم کا عالمی مالیاتی منڈیوں پر بھی منفی اثر مرتب ہوگا۔ تیل کی قیمتوں میں طویل المدت کثیر اضافہ کا اندیشہ پیدا ہوجائے گا۔ دنیا کی سب سے بڑی معیشت ہونے کی وجہ سے یہ صورت حال براہ راست امریکی مفادات کو نقصان پہنچانے کاسبب بنے گی۔
اس صورت حال کو اگر ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف کے تازہ بیان کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کی جائے تو اس کی سنگینی اور مضمرات کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ انہوں نے سی این این کو انٹرویو دیتے ہوئے واضح کیا ہے کہ ’ امریکہ یا سعودی عرب کی طرف سے ایران پر کسی بھی قسم کا حملہ ایران کے خلاف کھلی جنگ تصور کیا جائے گا‘۔ یہ بیان واضح انتباہ ہے کہ اگر سعودی عرب نے امریکہ کی حوصلہ افزائی پر ایران کے خلاف کسی بھی قسم کی کارروائی کرنے کی غلطی کی تو مشرق وسطیٰ میں خطرناک تصادم شروع ہوجائے گا۔ فریقین کو ایسی جنگ کی تباہ کاری کا اندازہ ہے۔
سعودی عرب چار برس کے دوران یمن پر شروع کئے جانے والے حملوں کی ناکامی کو سمیٹنے اور اس کے معاشی، سیاسی اور سفارتی اثرات سے نمٹنے میں بھی کامیاب نہیں ہے۔ اب جس حملے کی ذمہ داری حوثی قبول کررہے ہیں ، اس میں ایران کو ملوث کرکے جنگ کو پھیلانے سے سعودی عرب کی سالمیت یا بطور ریاست اس کی حیثیت اور طاقت پر بھی اثرات مرتب ہوں گے۔ لیکن اس کا فوری اثر سعودی شاہی خاندان کی حکمرانی پر مرتب ہوگا۔ ہاؤس آف سعود ولی عہد محمد بن سلمان کی اچانک بڑھتی ہوئی طاقت اور ان کے ہتھکنڈوں کی وجہ سے پہلے ہی اندرونی انتشار کا شکار ہے۔ کوئی براہ راست جنگ ان اختلافات کو سنگین بنائے گی اور اقتدار پر شاہی خاندان کی گرفت کمزور ہوگی۔ شہزادہ محمد یا شاہ سلمان اس قسم کا خطرہ مول لینے کے لئے تیار نہیں ہوں گے۔
اس بات کا امکان بھی نہیں ہے کہ تنازعہ کی اصل وجہ یعنی یمن میں شروع کی گئی جنگ کو سمیٹ کر مشرق وسطیٰ میں امن و سکون بحال کرنے کی راست اور مؤثر کوشش کی جائے ۔ سعودی حکمرانوں کی خواہش ہوگی کہ وہ اپنی عالمی سفارتی اور اقتصادی حیثیت کو ایرانی مفادات کو نقصان پہنچانے کے لئے استعمال کریں۔ دشمن کو زیر کرنے کا بالواسطہ طریقہ ہی فی الوقت تیر بہدف نسخہ تجویز ہوگا۔ پاکستانی وزیر اعظم ایک ایسے وقت سعودی عرب گئے ہیں جب کہ اس کے اپنے مفادات پر جنگ اور معاشی تباہی کے گہرے بادل چھائے ہوئے ہیں اور وہ خود اپنی تیل تنصیبات پر حملوں کی شرمندگی سے باہر نکلنے کی کوشش میں مصروف ہے۔ ایران پر الزام تراشی کے ماحول میں ابھی سعودی عرب سے براہ راست یہ سوال نہیں پوچھا گیا کہ بہترین امریکی اسلحہ اور راڈار سسٹم سے لیس ہونے کے باوجود اس کا فضائی دفاعی نظام کیوں کر حوثی یا ایرانی حملہ کو ناکام نہیں بنا سکا؟
عمران خان اس موقع پر اگر کشمیر کے معاملہ پر سعودی عرب کا تعاون حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو سعودی ولی عہد ان سے ضرور پوچھیں گے کہ وہ سعودی عرب پر حملہ کی مذمت کے علاوہ ایران کے خلاف اس کی کیا سفارتی، سیاسی اور عسکری مدد کرسکتے ہیں؟ اس سوال کا عمران خان تو کیا کسی بھی پاکستانی وزیر اعظم یا لیڈر کے پاس کوئی جواب نہیں ہے۔ بلکہ ملک کی مسلح افواج کے طاقت ور سپہ سالار بھی اس معاملہ پر سعودی عرب کی تشفی کروانے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ وہ بھی حرمین شریفین کی حفاظت میں بھرپور حصہ لینے کا اعلان تو کرسکتے ہیں لیکن پاکستان کسی طور سعودی عرب کی دوستی میں ایران کی دشمنی مول لینے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔
یوں بھی پاکستانی وزیر اعظم بھارتی حکومت کو فاشسٹ اور مسلمان دشمن قرار دیتے ہوئے اگر سعودی ولی عہد سے اعانت کی امید لگائے بیٹھے ہیں تو انہیں شدید مایوسی کا سامنا ہوگا۔ سعودی عرب، بھارت میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کررہا ہے اور ایران کا مکمل معاشی مقاطعہ کروانے کے مقصد سے سعودی تیل بھارت کو فراہم کرنے کے معاہدے کئے گئے ہیں۔ اس کے برعکس پاکستان اپنی دگرگوں معیشت کو سہارا دینے کے لئے سعودی عرب کی مالی امداد اور ادھار تیل کا محتاج ہے۔ ایسے میں کشمیر کے سوال پر عمران خان کا مقدمہ کتنا ہی مضبوط کیوں نہ ہو، سعودی سماعت میں اس کے لئے کوئی گنجائش موجود نہیں ہے۔
گرم جوش اور تند و تیز بیانات کے باوجود عمران خان کو تو اپنی کشمیر پالیسی پر ملک میں اپوزیشن پارٹیوں کی سیاسی حمایت بھی حاصل نہیں ہے۔ اس طرح وہ ملک کی تاریخ کے پہلے ایسے لیڈر ہیں جو کشمیر کے مسئلہ پر قوم کی یک جہتی کو بھی قائم رکھنے میں ناکام ہورہے ہیں۔ اقوام متحدہ میں جنرل اسمبلی کو ’فتح‘ کرنے کے مشن سے واپسی پر انہیں ضرور اس سوال پر غور کرنا چاہئے کہ جس مؤقف پر وہ اپنی ہی پارلیمنٹ کی تمام جماعتوں کو ساتھ ملانے میں ناکام ہیں، اس پر پوری دنیا کے ملکوں کو کیسے ہمنو ابنائیں گے؟
(بشکریہ: کاروان۔۔۔ناروے)