احمد پور شرقیہ سرائیکی خطے کا ایک مردم خیز اور پر امن علاقہ ہے جہاں ٹرکوں اور کنٹینرز کو گزرنے کے لئے کوئی بھتہ نہیں دینا پڑتا ، جہاں کبھی قافلے لٹنے کی خبریں نہیں آتیں حالالکہ روہی کا وسیع صحرا اور اس میں پھیلے اونچے بنجر روہ اپنے اندر ایسے عناصر کو پناہ دینے کی بہت گنجائش رکھتے ہیں جنھوں نے ڈاکہ زنی کاپیشہ اختیار کر کےپاکستان کےکئی علاقوں کو نو گو ایریا بنائے رکھاہے ۔ یہاں پٹرول کا ایک بڑا ٹرالر ایک حادثے کے باعٹ الٹ گیا جس سے بہنے والے ہزاروں لٹر پیٹرول سے سڑک کے قریب کی نشیبی زمین کے گڑھے بھر گئے ۔۔۔ ارد گرد کے دیہات کے لوگوں کو پتہ چلا تو وہ اس ضائع شدہ تیل کو اپنے گھریلو برتنوں میں بھر کر لے جانے لگے ۔ یہ ذہن میں رہے کہ اس تیل کا اب نہ کوئی مالک تھا اور نہ کوئی دعوے دار کہ جس سے یہ لوگ زور زبردستی یہ متاع گراں چھین کے لے آرہے تھے ، نہ یہ لوگ آپس میں لڑ جھگڑ رہے تھے ۔ بس اچانک آگ بھڑک اٹھی اور پلک چھپکنے میں سینکڑوں بےگناہ مرد عورتیں اور بچے جل کر خاکستر ہوگئے۔۔۔ جس کی خبر بھی چند لمحوں میں میڈیا کے جنگل میں پھیل گئی ۔ یہ آگ روہی کےصحرا کے ایک گوشے میں لگنے والی آگ سے کہیں زیادہ اندوہ ناک بھی تھی اور ایک مہذب معاشرے کیلئے ازحد شرمناک بھی، کیوں کہ جائے حادثہ سے سینکڑوں میل دور بیٹھے بعض بقراطوں نے حقائق جانے بغیر ایک پرامن علاقے کے مسکین سے لوگوں کو ڈاکو اور لٹیرے قرار دے دیا اور نہایت بیدردی سے اس مرگ انبوہ پر جشن کا سماں بنادیا کہ دیکھو بدبخت لٹیروں کو کیسے سزا ملی ۔۔۔ ایسے اہل ایمان ہمیشہ دوسروں کے گناہ و ثواب کے ممتحن ہی نہیں بنے رہتے ، ان کا بس چلے تو منکرنکیر بھی خود بن جائیں اور قبر میں حساب لینے کیلئے مرنے والوں کی قبروں تک میں گھس جائیں اور مقررہ فرشتوں کو معزول کر کے ان کی جگہ خود سنبھال لیں ۔۔ ایسے میں کم از کم اس حادثے کے مرحومین کی بخشش کا تو کوئی سوال ہی نہیں پیدا ہوتا تھا۔
اس دوران میں ہارا چنار اور کوئٹہ میں بھی بعض اہل ایمان کے ہاتھوں معصوم مسلمانوں پر قیامتیں گزرگئیں اور کیوں کہ ان دونوں المیوں میں جاں بحق ہونے والوں کی موت کے ذمہ دار کچھ اور لوگ ہیں اس لئے بجا طور پر ان کے غمزدہ لواحقین انصاف کی طلب میں دھرنا دے کر بیٹھ گئے ۔
ان تینوں المیوں کی کوریج میڈیا پر بیک وقت لیکن مختلف انداز میں ہورہی تھی ۔۔۔ احمد پور والا واقعہ کیوں کہ ہماے ملک میں معمول بن جانے والے ایسے واقعات سے تھوڑا مختلف تھا اور اس میں کجھ منفی مصالحہ بھی موجود تھا اس لئے میڈیا کو کچھ زیادہ مرغوب ہوا، اس کی زیادہ کوریج پر ایک اور انداز کے دانںشوروں کی رگ حمیت پھڑک اٹھی اور وہ خم ٹھونک کر میدان میں آگئے اور سوشل میڈیا پر واویلا شروع کر دیا کہ پارہ چنار کا المیہ جینوئین تھا اس کی بجائے لٹیروں کے جل مرنے کو زیادہ اہمیت دی جارہی ہے ۔ ان لوگوں نے بھی اپنے توپ دم تجزیوں میں احمد پور کے مذکورہ مرحوم مسکینوں کی جلی ہوئی لاشوں اور موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا جھلسے ہوئے جسموں اور ان کی اور ان کے لواحقین کی روحوں پر طنز کے تیر برسانا شروع کر دئیے ۔
اسی دوران ایک ستم اور ہوا اور وہ یہ کہ وزیراعظم صاحب خود اپنی سہولت یا اپنے لاڈلے بھائی اور وزیراعلی کی خواہش پر عید کے دن لندن سے احمد پور پہنچ گئے اور حادثے میں مرنے والوں کیلئے دعا کرتے ہوئے مالی امداد کا بھی اعلان کردیا جس سے مذکورہ میڈیا جنگ میں تیزی آگئی اور پارہ چنار کے مظلومین کی تصاویر اور وڈیوز دکھا دکھا کر حکمرانوں کو کم اور مفت کا تیل لوٹنے والے مرحومین کو کہیں زیادہ شدت سے نشانہ بنایا جانے لگا ہے ۔ خامہ انگشت بہ دنداں ہے اسے کیا لکھئے ۔۔۔ ویسے یہ حقیقت بھی ہے کہ پارا چنار کے مظلوموں کے حق میں وفاقی دارالحکومت اسلام آباد سمیت صوبائی دارالحکومتوں میں عید کے دنوں بھی جاری رہنے والے دھرنوں میں ہزاروں لوگوں کی آہ و زاری اور فریاد و احتجاج پر میڈیا بھی لگ بھگ سکوت اختیار کر رہا ہے اور حکومت بھی ساکت ہے اس کے علاوہ یہ بھی ایک دردناک حقیقت ہے کہ دہشت گردی کے اکثر سانحوں میں تحقیقات میں دکھائی دینے والا عمومی تغافل اور عام لوگوں کی نظر میں ہر بار کی مٹی پائو ریاستی پالیسی عامتہ الناس کے لئے باعث تشویش ہے ۔ اس کے باعث کس کس کی ساکھ خراب ہو رہی ہے یہ متعلقہ مقتدر لوگوں اداروں اور طبقوں کو سوچنا چاہیے ۔۔۔۔ انہیں تھوڑی تاریخ بھی پڑھ لینی چاہئے کہ جب کسی غیر مستحکم معاشرے میں کچھ اداروں اور طبقوں کی ساکھ اور شہرت خراب ہو جاتی ہےتو پھر محض ان لوگوں طبقوں اور اداروں کے ساتھ کیا ہوتا ہے ؟ چند ہی برس قبل شاہ ایران کے مضبوط شاہی ادارے کیا ہوئے اور پھر سویت یونین آف رشیا اور فوجی اعتبار سے بہت طاقتور مشرقی یورپ کی سوشلسٹ ریاستوں کے ساتھ کیا ہوا تھا اور ان کا کیا انجام ؟ ہم ان سے کوئی بہت زیادہ اچھا مقدر لکھوا کر تو آئے نہیں !
سوچنے کی بات یہ بھی ہے کہ رنگ ونسل مذہب اور فرقہ واریت کے نام پر تقسیم در تقسیم کی فصل کی آبیاری کس کی ترجیح پر کی جاتی رہی ہے ؟ بعضوں کو طاقت کے جنوں کے ذریعے دوسروں کو کمزور کرنے مٹادینے کے زعم اور بعض کمزور گروہوں میں مٹ جانے کا دھڑکا پیدا کرنے کا کوئی تو مقصد ہوگا ۔۔ یہ سب کچھ نام نہاد بیرونی عناصر کر رہے ہیں تو ہم کیا کر رہے ہیں ۔ کئی دوست اور غیردوست ممالک سے آنے والا سارا پیسہ ہماری خوشحالی پر خرچ ہورہا ہوتا تو ہمارے دلدر دور ہو چکے ہوتے یہ ہرسال کے قومی بجٹ میں ممنوں احسان ہونے کا اعلان کرنے والوں کو بھی سوچنا ہوگا ۔ اسلام صدیوں پہلے عرب شریف سے آیا اور اب ادھر سے ریال درہم و دینار آرہے ہیں ۔۔۔ رہا پیسے کا معاملہ اس کا تو حساب رکھنا سنت بھی ہے اور فرض بھی کہ آخرت کو جان و مال کا حساب تو لازمی مضمون ہے جس میں رعایت کی کوئی گنجائیش نہ ہے۔ لیکن ہم تو دوسروں کی قبروں تک میں گھس کر انہیں جنت سے محروم کرنے کے مشن پر ہیں چاہے وہ آگ میں جھلس کر مرا ہو یا بموں نے ان کی لاشوں کے چیتھڑے اڑا دیئے ہوں ۔۔۔
فیس بک کمینٹ