برسوں پہلے ہمارے دور طالب علمی کی بات ہے کہ تعلیمی اداروں میں بےحد متحرک ایک مذہبی سیاسی طلبا تنظیم نوجوانوں کی اخلاقیات کو اپنے پالیسی سازوں کے نظریات کے مطابق اسلامی تعلیمات سے ہم آہنگ کرنے کیلئے ترییتی پروگرام کرواتی لیکچروں اور گفتگو کا اہتمام کرتی تھی ۔۔۔ اس تنظیم کا ہمدرد رفیق اور رکن بننے کیلئے کڑی شرائط کا اعلان کیا جاتا تھا اور اکثر اس کے ناظم انتہائی مرنجاں مرنج اور صوم وصلواتہ کے پابند نوجوان ہوا کرتے تھے ۔۔۔ یہ طالب علموں کی واحد تنظیم تھی جس کے پاس اس قدر وافر وسائل بھی تھے کہ یہ باقاعدگی سے اپنے پمفلٹ رسائل کتابچےاور دیگر لٹریچر شائع کرتی تھی اور اطلاعات کے مطابق اپنے مخصوص کارکنوں کو وظائف بھی دیتی تھی ۔۔۔۔ ان دنوں تعلیمی اداروں میں ہر سال باقاعدگی سے سٹوڈنٹس یونینوں کے الیکشن ہوا کرتے تھے جس میں اس تنظیم کے کارکن بہت منظم انداز میں حصہ لیتے تھے کیوں کہ انہیں مطلوبہ مالی وسائل بھی میسر ہوتے تھے لیکن اکثر تعلیمی اداروں میں جن امیدواروں پر اس تنظیم سے وابستگی کا الزام لگ جاتا وہ بری طرح ہار جاتے کیوں کہ اس تنظیم کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ یہ ایک انتہائی غیر مقبول مذہبی سیاسی جماعت کی ذیلی تنظیم ہے۔ اس وقت بھی یہ ایک مخمصہ تھا کہ پورے ملک میں اس تنظیم سے طالبعلموں کی عمومی لا تعلقی بلکہ مخاصمت کے باوجود یہ تنظیم پنجاب یونورسٹی لاہور فتح یاب کیوں رہتی اور عام نوجوانوں کے ذہنوں اور زبانوں پر یہ سوال رہتا تھا کہ ادھر کا ٹھیکہ اسے کس نے دیا ہے ؟کیوں کی اس یونیورسٹی کے احاطے میں کوئی مائی کا لال اس تنظیم کے عہدیداروں کی مرضی و منشا کے برعکس عمل کرنے کی جرات کرتا تو عبرت ناک انجام سے اسے کوئی بچا نہین سکتا تھا اور اس کی فریاد سننے والا کوئی نہ ہوتا کوئی پولیس کوئی عدالت کوئی بھی نہیں یہاں تک کہ پیپلز پارٹی کی پہلی اور مقبول عام حکومت کا مضبوط ترین آدمی غلام مصطفے کھر تک گورنر اور وزیر اعلیٰ بننے کے باوجود اس تنظیم کی ایک ننھی سی ریاست میں دخل اندازی نہ کر سکا اور
میٹرک پاس گورنر /وزیر اعلیٰ ٹھاہ !
کے نعرے سنتارہا ۔ممکن ہے آجکل حق گوئی کے ایک بڑے مجاہد اور اس دور میں اسی تنظیم کی طرف سے پنجاب یونیورسٹی یونین کے سیکرٹری اور پھر صدر محبی جاوید ہاشمی صاحب اس راز سے پردہ اٹھا سکیں (اگرچہ یہ ناممکن ممکنات میں سے ہے کیوں کہ جس دن اس راز سے پردہ اٹھا پاکستانی سیاست کی کئی گتھیاں سلجھ جاویں گی بعد میں محترم نواز شریف شہباز شریف جسے مضبوط اور اپنی من مانی کرنے والے پنجابی حکمران بھی اس قلعے کی طرف آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھ سکے حالانکہ یہاں القاعدہ جیسی ممنوع تنظیموں کے اہم کارندے بھی پناہ گزیں ملے ) ہم اپنے دور طالبعلمی کی بات کر رہے تھے اس تنظیم سے وابستہ کئی دلچسپ باتیں اور بھی تھیں مثال کے طور پر کئی بار یہ ہوا کہ اس کی طرف سے ایسے پمفلٹ شائع کیئے گئے جن میں مغربی تہذیب کی برائیاں دکھانا مقصود تھیں اخباری سائز کی ان اشاعتوں میں تھوڑی سیاہی پھیر کر ایسی لذیذ تصاویر بھی شائع کی جاتی تھیں جن کو نوجوان سنبھال سنبھال کر رکھتے اور سیاہی گزیدہ حصوں کا تصور باندھتے اور باہم گفتگو میں ان کا بار بار تذکرہ کرتے ۔ شامت تو اس تنظیم کے کارکنوں اور ناظموں کی بھی آتی جن سے اصل تصاویر کا تقاضا کیا جاتا تھا اور آوازے کسے جاتے تھے کہ ۔۔
او مولویو خود سب کچھ دیکھتے ہو اور ہمارے لیے کالک ؟
لیکن تنظیمی سطح پر یہ سلسلہ جاری رہتا ۔۔۔ یہ ذوالفقارعلی بھٹو کا دور حکومت تھا یہ تنظیم اس کی بھی سخت مخالفت کرتی تھی اس لئے جو بھٹو صاحب کی اور بیگم نصرت بھٹو کی نجی زندگی کے بارے میں بھی قابل اعتراض تصاویر بنا کر شائع کی جانے لگیں جن کے بارے جب یہ کھلتا کہ مختلف تصاویر کو مکس کرکے اخلاق کے نام پر یہ غیر اخلاقی حرکت کی جاتی ہے تو اس تنظیم کے کارکنوں کی ہر جگہ عمومی جواب طلبی ہوتی لیکن یہ بڑی استقامت سے اپنے موقف پر ڈٹے رہتے کہ یہ بھی ان کی صالح تربیت کا ایک لازمی حصہ تھا ایسی تربیت جو اس تنظیم سے نکل کر بھی لوگوں کا ساتھ نہیں چھوڑتی۔ بھٹو حکومت کے خاتمے اور پھر بھٹو صاحب کی پھانسی تک یہ صالحانہ مشن جاری وساری رہا تھا ۔
برسوں بعد اسلامی اور دائیں بازو کی جماعتوں کا اتحاد بےنظیر بھٹو کے خلاف قائم ہوا تو اسی ذہنی افتاد کے لوگوں نے ان کے بارے بھی ایسا مواد تیار کرکے تقسیم کیا بلکہ ہیلی کاپٹروں اور جہازوں کے ذریعے گرایا کہ جس پر سوائے ان کے پوری قوم شرمندہ ہوئی ۔ یہ مستقل مزاج لوگ اب لگ بھگ ہر جماعت میں شامل ہوگئے ہیں کہیں ان پر لیڈرشپ کہ کچھ گرفت ہے اور کہیں یہ شتر بے مہار ہیں ۔۔۔ سوشل میڈیا کے بے لگام ذرائع اظہار نے اس افتاد طبع کے لوگوں کی ذہنی و جذباتی کیفیتوں کے اظہار کے لامحدود مواقع فراہم کر دیئے ہیں جس کا مظاہرہ اب ایک بے پایاں قومی شرمندگی کا اہتمام کر رہا ہے خاص طور ہر پانامہ کرپشن کیس کی سپریم کورٹ میں سماعت اور پھر اس کے فیصلےکے بعد سوشل اور الیکٹرانک میڈیا پر وہ طوفان بدتمیزی برپا ہے کہ باید وشاید اور لگتا ہے کہ اس حمام میں یاتو سبھی ننگے ہیں یا پھر اس میں تانک جھانک کر رہے ہیں ۔ ۔۔ وہ لوگ جو خود ہدف بھی ہیں شاید مزے لے رہے ہیں کیوں کہ ہتک عزت کے بہت ہرانے قانون کی طرف کوئی دیکھ ہی نہیں رہا ۔۔۔ اس قانون پر عملدرآمد کے حوالے سے عمومی طور پر لوگوں کو کوئی اعتبار کیوں نہیں اس کے بارے میں ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے معزز جج صاحبان اور چیف چسٹس صاحبان کو سوچنا اور کوئی قابل عمل لائحہ ء عمل عام لوگوں کو دینا چاہئے ۔۔۔معزز عدالتوں کو یہ تاثر بھی دور کرنا چاہئے کہ صرف میڈیا کیلئے دلکش و مرغوب معاملات ہی اہم عدالتی کیس نہیں ہوتے ۔
بات ان لوگوں کی ہو رہی تھی جسے بعض دل جلوں نے غیرت بریگیڈ اور کسی نے گالم گلوچ بریگیڈ کا نام دیا ۔۔۔ لیکن ان کی سبھی باتیں سن کر ان کا مدمقابل بریگیڈ آ گے بڑھا دیا جاتا ہے اور کوئی بے مزہ نہیں ہوتا ۔
اتنے شیریں ہیں تیرے لب کہ رقیب
گالیاں کھا کے بے مزہ نہ ہوا ۔
محترم نواز شریف شہباز شریف اور محترم عمران خان کو یہ سوچنا چاہئے کہ ان کے حق میں بولنے کادعویٰ کرنے والے غیرت/گالم گلوچ بریگیڈ خود ان کے حق میں اچھا نہیں کر رہے رمز کی یہ قدیمی بات اب بھی اسی قدر اہم ہے کہ ۔۔۔ کسی کے جھوٹے خدا کو بڑا نہ کہو کہ وہ تمہارے سچے خدا کو برا کہے !
پانامہ کیس کے فیصلے کے بعد اب تو معاملہ عدالتوں کو بے وقعت و بے وقار کرنے تک جا پہنچا ہے ۔۔۔ بات اشاروں کنایوں سے شروع کرکے عدالتی فیصلے کے کھلم کھلا تضحیک اور اس کے استرداد سے ہوتی ہوئی یہاں تک پہنچا دی گئی ہے کہ اب کئی بظاہر بیرون ملک افراد کی وڈیو بنوا کر لانچ کی گئی ہیں جن میں ایک فضول سی کہانی بیان کی گئی ہے کہ نام نہاد اسٹیبلشمنٹ نے ججوں سے کس طرح عدلیہ کی تضحیک کی اور کس طرح زبردستی یہ فیصلہ کروایا اور لکھوایا گیا۔ اس کے علاوہ بعض نا معلوم ویب سائیٹوں پر اسی انداز کی تحریریں بھی پوسٹ کی جا رہی ہیں جن سے دنیا میں ہماری بے حد و حساب جگ ہنسائی تو ہو ہی رہی ہے ۔۔۔اس سے بتدریج عدلیہ پر عام آدمی کے اعتماد کے اٹھ جانے کا بھی خدشہ ہے اور مختلف حکومتی اداروں وزارتوں اور اہلکاروں کی اہلیت اور کارکردگی پر بھی سوال اٹھتے ہیں جو کہ یہ عناصر چاہتے ہیں ۔۔۔ عدالت کی constraint بجا لیکن یہ معاملہ اب صرف عدالت کا تو نہیں رہا قومی وقار اور عوامی اعتماد کا بھی ہے اگر خاموشی ہی اختیار کی گئی تو مجھ جیسے عامی ایسی باتوں پر یقین کرنے لگتے ہیں جو ایک خطرناک بات ہے ۔
مسئلہ بعض تقدس مآب حلقوں کے مائند سیٹ کا بھی ہے جو خیر کےحصول کے لئے ضرورت کے وقت شر کو استعمال جائز قرار دیتے ہیں اور باطل کو شکست دینے کے لئے باطل قوتوں اور باطل ذرائع سے مدد لینے کے شرعی جواز پیش کرتے ہیں ۔۔۔ جن کیلئے ہیروئن و دیگر منشیات کی فروخت سمگلنگ اور ڈکیتیوں تک سے آنے والی کمائی ان کے اسلامی جہاد کیلئے جائز اور حلال ہے ۔۔۔ جن کے مد مقابل اور دشمن مسلمانوں تک کا مال واسباب حتا کہ عورتیں ان مجاہدین پر حلال قرار دی گئی ہیں جو مفتوحہ علاقوں میں ان کی کنیزیں قرار دے دی جاتی ہیں جاتی ہیں ۔۔۔یہ کام تو خوارج اور قرامطیوں نے بھی نہیں کیا تھا ۔۔۔اس سے بھی بڑامسئلہ ان مختلف حکومتی وسیاسی حلقوں اور افراد کا بھی ہے جو خود اپنی ضرورتوں کے تحت ایسے انتہاپسندوں اور بنیاد پرستوں کو اپنے ساتھ ملائے رکھتے ہیں۔ ۔۔ اگر بعض سیاسی جماعتوں کے اصل پالیسی سازوں کی اپنی تربیت ہی اسی افتاد طبع اور مائنڈ سیٹ کے مطابق ہوئی ہے تو پھر ان جماعتوں کی بڑی لیڈرشپ کو بہت سنجیدگی سے سوچنا چاہئے کہ ایسے بقراطوں سے نجات کیسے حاصل کرنی ہے ورنہ ان کا سارا لبرل ازم آزادخیالی اور جمہوریت پسندی دھری رہ جائے گی اور بالآخر افراتفری ہی جیتے گی ۔۔۔ اسٹیبلشمنٹ کے بعض اہم اداروں کوبھی ایسے یک رخے فکروعمل کے عناصر سے نجات حاصل کرنی ہوگی ۔ ایسے اداروں کو اپنے نظریاتی و تربیتی سلیبس کا بھی بغور اوت غیر جانبدارانہ تجزیہ کروانا چاہیئے جو جنرل ضیاءالحق کے دور مین اسی ذہنیت کے عناصر نے تیار کرکے دیاتھا ممکن ہے ابھی تک اس کا تسلسل جاری ہو اگر ایسا ہے تو نتائج بھی جوں کے توں رہیں گے ۔
فیس بک کمینٹ