ایک ولی کامل پہاڑوں کے سرسبز دامن میں کہیں رہتے تھے ( ایک روایت کے مطابق کہیں راولپنڈی کے قریب قریب)، ایک بار وہ ایک عرصے تک تخلیے میں رہنے کے بعد باہر نکلے اور عالم سرمستی و سرخوشی میں اپنے عام ہیڈکوارٹر سے باہر ٹہل رہے تھے کہ ایک خان صاحب نے جو کرکٹ کے رسیا بھی رہے تھے، قریب آکر عاجزی سے سلام کیا ۔۔۔ بزرگ نے سرپرستانہ جواب دیا اور مسکراکر پوچھا کیسے ادھر آئے ہو اور کیا چاہئے؟
خان صاحب نے جو بےحدمسکین و عاجز شکل بنائے کھڑے تھے مزید عاجزی کے ساتھ جھک کر عرض کیا” حضور غریب اور محنت کش آدمی ہوں خلق خدا کی فلاح کے کام بھی کرتا ہوں ۔۔۔ بزرگوں کے جوتے سیدھے کرتا ہوں۔میں سترہ اٹھارہ برس سے شہروں شہروں گلیوں گلیوں اپنے اور اپنی قوم کے بھلے کیلئے ارداس کرتا پھر رہاہوں اور احتجاج بھی ۔۔۔لیکن کوئی شنوائی نہیں ہوتی۔۔۔ خصوصی توجہ اور سرپرستی کی استدعا ہے!“
بزرگ بہت اچھے موڈ میں تھےمسکرا کر اشارے سے پوچھا کیا چاہتے ہو؟خان صاحب بولے اعلیٰ حضرت آپ کی آنکھ اور انگلی کا اشارہ چاہیےکہ اس عاجز کے مقدر سنور جائیں ۔۔۔
بزرگ نے چندے توقف فرمایا اور پھر ایک پہاڑ کی طرف اشارہ کیا اور پہاڑ سونے کا ہوگیا اور وہ اس کی طرف دیکھے بنا ہی بے نیازی سے ایک طرف کو چل پڑے۔۔ لیکن انہیں اپنے پیچھے کسی کے قدموں کی چاپ سنائی دی تو مڑکر دیکھا ، وہی خان صاحب سر جھکائے ہاتھ باندھے چلے آرہے تھے پھر اشارے سے پوچھا اب کیا چاہئے۔۔۔ اور ایک اور زیادہ بڑے پہاڑ کی طرف انگلی اٹھائی ،وہ پہاڑ بھی سونے کا ہوگیا اور بزرگ سرجھکا کر آگے چل دیئے لیکن خان صاحب نے پیچھا نہ چھوڑا یہ عمل کئی بار ہوا اور بزرگ کی انگلی کے اشاروں سے کئی پہاڑ سونے میں بدلے لیکن خان صاحب اسی طرح اس بزرگ اور ولی کامل کے پیچھے لگے رہے ۔ بلاآخر بزرگ تھوڑا جھنجھلا گئے،رکے ،انگلی کے اشارے سے خان کو اپنے قریب بلایا اور اپنے ہیڈ کوارٹر بلانےکا عندیہ دیا۔ خان صاحب خوش خوش لوٹے ۔
کچھ عرصے بعد جب سر شام خان کو بزرگ برتر کا بلاوا آیا تب خان صاحب بھری بزم میں قوم کے لئے سنہرا مستقبل لانے کی لاف وگزاف میں لگے ہوئے تھے پیغام ملتے ہی جوتے پہنے بغیر ہی بزرگ کے آستانے کے طرف بھاگے اور بوقت حاضری عالم رکوع میں نظر عنایت کےلئے عرض گزار ہوئے تو اس ولی کامل نے مسکرا کر پوچھا اے عاجز تجھے اتنا کچھ عطا کیا گیا لیکن تجھے قناعت نصیب نہ ہوئی اب کیا رہ گیا بتا؟ اور کیا چاہیئے؟
خان صاحب نے اور زیادہ عاجزی اور سادگی سے دست بستہ بزرگ کی انگلی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے عرض کیا حضرت میں اپنےلئے اور اپنی قوم کیلئے خود کفیل ہونا چاہتا ہوں مجھے یہ انگلی ہی عطا کردیں!
اب بزرگ ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم کے مصداق چپ کھڑے اس کو دیکھنے لگے۔
خان صاحب پھر مزید عاجزی سے عرض گزار ہوئے، حضور اتنا عرصہ کرکٹ کھیلی ہے ایمپائر کی انگلی کے اشارے کی طاقت سے واقف ہوں ، آپ کی انگلی کی طاقت بھی دیکھی اور حیران و ششدر ہوا۔۔۔ مجھے پتہ ہے یہی طاقت کا اصلی مرکز ہے اور اس کے بغیر میری قوم کی قسمت سنور نہیں سکتی اس لیے میری عرض داشت قبول کی جائے۔
بزرگ حیران و پریشاں و ششدر کھڑے سوچتے تھے خان نے ان کے دامن کو کچھ حریفانہ کھینچا تو آہستگی سے بولے تو گویا تم مجھے معذور کرنا چاہتے ہو؟ ان کے لہجے میں تشویش تھی۔
خان صاحب سادگی سے بولے میری قوم کی بھلائی بہرحال اسی میں ہے!
بزرگ چندے مراقبے میں چلے گئے۔۔۔۔!
اسکے بعد انہوں نے کیا ردعمل ظاہر کیا اور خان صاحب کو کیا ملا راوی اس پر خاموش ہے اور تحریر کے اگلے صفحے خالی ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگر کسی تک اس حکایت کی کسی روایت کا کوئی اگلا صفحہ پہنچا ہو تو اس درویش تک ضرور پہنچائے کہ
میرا اور میری قوم کا بھلا اسی میں ہے !
فیس بک کمینٹ