ایک بدو نے اونٹ چرانے والے اپنے ایک ذہین بیٹے کو اعلی تعلیم دلوانے کا فیصلہ کیا اور اپنے چند اونٹ بیچ کر اسے سکول میں داخل کروا دیا لڑکا ذہین تھا اور کھلاڑی بھی بہت اچھا تھا اس لئے آگے ہی بڑھتا چلا گیا۔ بدو نے اپنے اونٹ بیچ بیچ کر اسے اعلی سےاعلیٰ تعلیمی اداروں حتی کہ آکسفورڈ یونیورسٹی میں داخل کروادیا جہاں اس نے پڑھائی سے زیادہ فٹ بال کے کھیل پر اپنی توجہ اور محنت صرف کی اور اس کھیل میں اس قدر نام کمایا کہ سٹار بن گیا لیکن یہاں پڑھائی کے حوالے سے امتحان کے دوران میں ایک مسئلہ پیدا ہو گیا اور وہ یہ کہ مضمون نگاری کے پرچے میں ہمارا یہ ہیرو فیل ہو گیا۔۔۔ ایسا کئی بار ہوا جس پر ہمارے طالب علم ہیرو نے بالآخر اپنے استاد کے خلاف یونیورسٹی کے ڈین کو درخواست دیدی کہ استاد صاحب نے مجھے کسی ذاتی رنجش کے باعث امتحان میں فیل کر دیا ہے۔اس پر ڈین صاحب نے استاد اور طالب علم دونوں کو اپنے دفتر میں طلب کر لیا اور استاد سے وجہ پوچھی، استاد صاحب نے جواب دیا کہ اس کو فیل کرنے کی وجہ یہ ہے کہ وہ امتحانی پرچہ میں جواب مضمون لکھتے ہوئے نہ صرف ہمیشہ اصل موضوع سے باہر نکل جاتا ہے بلکہ اسے جس موضوع پر بھی لکھنے کو کہا جائے وہ بات گھما کر اونٹ کے بارے میں لکھنا شروع کر دیتا ہے۔ ڈین صاحب بہت حیران ہوئے اور استاد محترم کو استفسار طلب نظروں سے دیکھنے لگے۔۔۔ استاد بھی آخر استاد ہوتا ہے وہ طالب علم کا پورا ریکارڈ ساتھ لائے تھے۔ انہوں نے پرانے پرچوں کی جوابی کاپیاں آگے بڑھادیں اور ڈین صاحب کو ان کا مطالعہ کرنے کیلئے کہا۔
ایک پرچے کے مضمون کا عنوان تھا موسم بہار ۔۔۔ ہمارے ہیرو نے لکھاتھا:
موسم بہار ہمارے خطے کا بہترین موسم ہوتا ہے :اس میں ہر طرف پھولوں کے رنگ بکھرے ہوتے ہیں خوشبوئیں مہکتی ہیں اس کا ہر جلوہ بہت ہی دلنشین ہوتا ہے۔ یہی نہیں اس موسم میں ہر طرف ہریالی ہی ہریالی ہوتی ہے اور سبزے کی بہتات ہو جاتی ہے ، جانوروں کیلئے وافر چارہ ہوتا ہے یہ موسم اونٹ کو بھی بہت بہت پسند ہوتاہے اور اونٹ ایک طاقت ور جانور ہے۔ اسے صحراء کا جہاز کہتے ہیں ۔ اونٹ نہایت سخت جان اورصابر وشاکر جانور ہے۔ یہ گرم صحرا کی گرمی میں بھی دنوں تک بغیر کچھ کھائے پئے سفر کر سکتا ہے۔صحراء جس میں بہار اور خزاں برابر ہوتے ہیں عرب کے صحرائی لوگ اونٹ کو اپنا ساتھی اور دوست مانتے ہیں وغیرہ وغیرہ ( باقی پندرہ بیس صفحات اونٹ ہی کی مدح میں لکھے گئے تھے)۔۔۔۔۔۔۔
ڈین نے سوچا کہ ہو سکتا ہے یہ ایک مناسبت کی وجہ سے بہار کے تذکرہ پر اونٹ پر لکھنا شروع کر دیا ہو اور پھر روانی میں اصل موضوع ذہن سے ہٹ گیا)۔
اگلے پرچے میں مضمون کا عنوان دیا گیا تھا "جاپان میں گاڑیوں کی صنعت” ۔ اس ذہین طالب علم نے لکھا تھا؛
جاپان دنیا کا ایک بہت ترقی یافتہ ملک ہے جسے دنیا بھر میں خاص طور پر گاڑیوں کی صنعت میں بہت اعلی اور اہم مقام حاصل ہے۔ جاپان قسم قسم کی گاڑیاں بناتا ہے اور ان گاڑیوں کی برآمد سے بے پناہ زرمبادلہ کماتا ہے ہمارے وطن عزیز میں بھی زیادہ تر گاڑیاں یہاں سے درآمد کی جاتی ہیں لیکن ہمارا ملک بہت پسماندہ ہے اور یہاں بڑے بڑے صحرا ہیں جہاں ابھی سڑکیں نہیں بنی ہیں اس لئے وہاں اونٹ اب بھی اہم ترین سواری ہے اس سے تیل کی بھی بچت ہوتی ہے اور ماحول بھی صاف ستھرا رہتا ہے ویسے بھی اونٹ بہت ہی طاقت ور جانور ہے اور اس کے دیگر بے شمار فوائد ہیں یہ بلا شبہ صحراء کا جہاز کہلاتا ہے وغیرہ ( پھر اونٹ کے اوصاف اور فوائد پر لمبی تحریر )۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈین صاحب اب کچھ پریشان اور بہت حیران ہوئے اور انہوں نے اگلا مضمون دیکھنا شروع کیا موضوع تھا”جدید دور میں کمپیوٹر کے فائیدے”۔ ڈین صاحب نے سوچا اس موضوع پر مضمون میں اونٹ کا تذکرہ ممکن نہیں لگتا لیکن لکھا تھا
کمپیوٹرجدید دنیا کی ایک نہایت ہی محیرالعقول ایجاد ہے۔ اس نے انسانی زندگی میں انقلاب برپا کردیا ہے عالم اور تجارت کی دنیا میں جوکام دنوں میں ہوتے تھے اب سیکنڈوں ہونے لگے ہیں ۔ لیکن ہم ایک پسماندہ ملک میں رہتے ہیں جہاں تعلیم کا تناسب بہت کم ہے اس لئے کپیوٹر کی فیض رسانی مناسب فائدہ نہیں اٹھایا جاتا ۔ ہمارے صحرائی اور دیہاتی لوگ اس بہترین ایجاد سے استفادہ کرنے سے قاصر رہتے ہیں یہاں پسماندہ طبقے کمپیوٹر سے صحیح فائدہ حاصل کرنے پر توجہ ہی نہیں دیتے کیوں کہ وہ اپنی روایتی سرگرمیوں میں مصروف رہتے ہیں۔ خاص طور پر صحراوں کے بدو تو کمپیوٹر سے واقف ہی نہیں اور وہ اپنے اونٹوں کی دیکھ بھال اور پرورش میں لگے رہتے ہیں کیونکہ یہ لوگ اپنی زندگی میں زیادہ تر اونٹ ہی سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔اور یہ تو سب جانتے ہیں کہ اونٹ بہت ہی طاقت ور جانور ہےاور یہ صحراء کا جہاز بھی ہے۔ اونٹ نہایت ہی صابر و شاکر جانور اور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔( اس کے بعد ملک میں اونٹوں کی مختلف اقسام اور اس کے فوائد اور جدید دور میں اس کی وجہ سے معاشرتی پسماندگی پر ایک لمبی بحث کی گئی تھی)
” ڈین صاحب نے اب اپنا سر پکڑ لیا اور امتحان کے نتیجے پر استاد محترم سے اتفاق کرتےہوئے کیس نمٹا دیا۔
لیکن ہمارا با ہمت جوا ن ہار تو کبھی مانتاہی نہ تھا اور اسے وہ سپورٹس میں اسپرٹ کہتاتھا اسے یقین تھا کہ اس کی تحریر بےخطا ہے اور موضوع کے عین مطابق بھی ہوتی ہے اس لئے اس نے یونیورسٹی کی مقتدر اسٹیبلشمنٹ کو درخواست لکھ بھیجی جس میں بطور سپورٹس مین اپنی اعلی خدمات کا ذکر کرتے ہوئے مضمون نگاری میں اپنی صلاحیتوں کی ناقدری کاشکوہ کیا گیا تھا۔ انتظامیہ بطور کھلاڑی اس کی اپنی فٹ بال ٹیم کیلئے اہمیت سے واقف تھی اور اگلے بین الجامعاتی ٹورنامنٹ میں اپنی ٹیم کی جس کامیابی کی توقع کررہی تھی اس میں ہمارے ہیرو کی بہت بنیادی تھی اس لئے اس کی درخواست کو پذیرائی ملی اور استاد صاحب اور ڈین صاحب کو طلب کر لیا گیا ۔
اگلے ہفتے استاد صاحب ڈین صاحب اور طالب علم تفتیشی کمیٹی کے سامنے پیش ہوئے ۔ طالب علم نے اپنے روایتی اعتماد کے ساتھ اپنا موقف صراحت کے ساتھ پیش کیا۔۔۔ اساتذہ نے اپنی وضاحت پیش کرتے ہوئے امتحان کا مکمل ریکارڈ پیش کیا۔ تھوڑے بحث مباحثہ کے بعد کمیٹی کے چئیرمین نے طالب علم سے پوچھا کہ اگر اب اسے کوئی نیا موضوع دیا جائے تو کیا وہ نیا مضمون لکھنے کو تیار ہے؟ ہمارے شیر نے پر اعتماد انداز میں کہا جی بالکل سر میں تیار ہوں کمیٹی کے چیئرمین اور اراکین اس کے اس اعتماد سے بہت متاثر ہوئے ۔ کمیٹی کے چیئرمین نے کہا ہاں تو جوان آپ کو ایک موقع دیتا ہوں ایک بہت آسان سا موضوع ہے ادھر ا دھر کی مت ہانکنا۔ جوان بولا او کے سر! نیا موضوع تھا۔۔روڈایکسیڈنٹ۔۔ طالب علم پرسکون انداز میں مضمون لکھنے لگا۔
ایک دفعہ کا ذکر ہے مجھے میرے والد نے ایک ضروری کام کیلئے دور کے ایک شہر میں بھیجا انہوں نے اپنی نئی نویلی پراڈو گاڑی مجھے اس سفر کیلئے دیتے ہوئے احتیاط سے سفر کرنے کی تلقین کی میں نے ان سے اور امی جان سے دعائیں لیں اور سفر پر روانہ ہو گیا آپ جانیں نئی پراڈو میں سفر کا نشہ ہی کچھ اور ہوتا ہے ۔۔۔ میں کچھ دیر تو والدین کی نصیحت پر عمل کرتے ہوئے احتیاط سے گاڑی چلاتا رہا لیکن راستے میں جو صحراء پڑتا تھا وہاں پہنچا تو وہاں کھلی سڑک اور اس پر چلتی اکا دکا گاڑی دیکھ کر بزرگوں کی نصیحت بھول بھال گاڑی کے ایکسی لیٹر پر دباؤ بڑھانے لگا اور گاڑی لمحوں میں ہواسے باتیں کرنے لگی ۔۔۔ ادھر سے گاڑی ڈیک پر گانے بھی لگے ہوئے تھے اور میں اپنی مستی میں مست یہ بھول ہی گیا کہ صحرائی علاقہ ہے یہاں اونٹ بڑی تعداد میں گھومتے رہتے ہیں کبھی باربرداری کیلئے’ اور گاہے یہ سڑک پربھی آجاتے ہیں۔۔۔ اونٹ کی ایک عادت یہ ہے کہ وہ خود کو صحراء کا بادشاہ سمجھتا ہے اور گاڑی سامنے آجائے تو یہ نہ ہی گاڑی سے ڈرتا ہے اور نہ ایک طرف کو ہٹتا ہے۔ یہ تو سب جانتے ہیں کہ اونٹ بہت ہی طاقت ور اور سبک رفتار جانور ہے اسی لئے اسے صحراء کا جہاز بھی کہتے ہیں ۔ یہ بہت صابر و شاکر جانور بھی ہے صحرا میں جہاں کچھ میسر نہیں ہوتا یہ ہفتوں تک بنا کچھ کھائے پئے زندہ رہ سکتا۔۔۔(اس ذہین مضمون نگار نے اس کے بعد کئی صفحے حسب سابق اوٹ کی مدح میں لکھ ڈالے اور جب کمیٹی کے چیئرمین نے اسے یاد دلایا کہ ایکسیڈنٹ پر یہ مضمون تین گھنٹے میں ختم کرناہے تو اسے ایکسیڈنٹ کا ذکر کرنا بھی ضروری لگا اور اس نے لکھنا جاری رکھا۔۔) ۔۔۔۔ تو مہں عرض کر رہا کہ میں صحراء میں بہت تیز رفتاری سے اپنے والد کی نئی پراڈو بھگائے چلا جا رہا تھا کہ سامنے سے اونٹوں کا ایک بڑا گلہ سڑک کی طرف بڑھتا نظر آیا۔۔۔جیسے میں نے پہلے عرض کیا ہے جناب کہ مجھے تو معلوم تھا ہی کہ اونٹ کی اپنی صحرائی عادات کیا ہوتی ہیں(مضمون نگار نے روانی میں اونٹ کی عادتوں کا تفصیلی ذکر شروع کردیا جب اسے وقت کے قریب قریب ختم ہونے کا بتایا گیا تو اسے پھر اصل موضوع یاد آگیا اور اس نے جلدی میں لکھا) تو جناب اونٹوں کا یہ گلہ دیکھتے ہی میرے تو ہاتھ پاوں ہی پھول گئے میں نے بریکیں لگانے کی کوشش کی لیکن اونٹ قریب آچکے تھے اور دو اونٹ تو سڑک کے عین درمیان میں تھے میرے ذہن نے بچنے کی ایک ہی ترکیب سوچی اور میں نے گاڑی ایک طرف کو موڑنے کی کوشش کی اور پھر ایک دھماکہ سا ہوا اور اس کے بعد مجھے کچھ ہوش نہ رہا جب میری آنکھ کھلی تو اگرچہ میں ہسپتال میں پڑا تھا لیکن میری آنکھوں میں اونٹوں کے گلے کا وہی منظر تھا اور دو اونٹ میری طرف بڑھتے آ رہے تھے ۔۔۔۔اور اور اونٹ عادات اور سرشت کا تو میں پہلے ہی ذکر کر چکا ہوں جو بدل نہیں سکتی۔۔ یہ واقعی ایک لاجواب جانور یہ کسی حادثے سے انسان کی طرح ہرگز نہیں ڈرتا کیونکہ یہ بہت بہادر بھی ہوتا ہے اور بہت سمجھدار بھی ہوتاہے۔۔۔ میں نے ہمیشہ اس سے بہت کچھ سیکھا ہے اس حادثے سے بھی یہی سبق ملا کہ صحرا کو بھی یکسر خالی نہیں سمجھنا چاہیے اور شاہراہ کو خالی سمجھ کر بے مہار گاڑی نہیں چلانی چاہیے۔ اور اونٹ بہت دور سے بھی نظر آئے تو خبردار ہو جانا چاہئے کیونکہ اونٹ۔۔۔۔۔۔۔
یہ نیا مضمون پڑھ کر سبھی کے ہونٹوں پر مسکراہٹ کھیلنے لگی اور بعض تو اپنے قہقہے بھی نہ روک سکے لیکن جب معاملہ طے کرنے کی بات ہوئی تو سبھی متفق ہوئے کہ حسب معمول سابقہ اونٹ کے طولانی ثذکرے کے باوجود مضمون ہے تو روڈ ایکسیڈنٹ کے ہی بارے میں اس لئے طالب علم کو پاس کردیا گیا۔ بعد میں اس نے متذکرہ بین الجامعاتی ٹورنامنٹ میں بھی بہترین کارکردگی دکھائی اور اپنی ٹیم کو جتوانے میں بنیادی کردار ادا کیا اسی بنا پر کئی بہترین کاونٹی کلبوں نے اسے بہت اچھے معاوضے پر اپنے پاس آکر کھیلنے کی دعوت دی اور اس نے ایک عرصے تک ان کلبوں میں کھیل کر بہت پیسہ کمایا ۔۔۔ بعد ازاں وہ قومی ٹیم کے ساتھ کھیلنے لگا اور اور اپنی محنت سے اس ٹیم کا کپتان بھی بن گیا اب ورلڈ کپ قریب آیا تو سب کی آنکھیں اس پر جمی تھیں۔۔۔ اس نے اپنی ٹیم کے کھلاڑیوں پر بہت محنت کی وہ تھک جاتے تو کپتان ان کو لق و دق صحراء میں اونٹ کی ہمت اور برداشت کے قصے سناکر حوصلہ دلاتا ۔ ورلڈ کپ میں اس کی ٹیم اور خود اس نے جان لڑادی اور پہلی بار اپنی قومی ٹیم کو ورلڈ کپ جتوا دیا ۔ اب وہ ایک قومی ہیرو تھا اور پورے ملک کے نوجوانوں کی آنکھوں کا تارا تھا۔۔۔ کچھ عرصہ بعد جب اس نے کھیل سے ریٹائرمنٹ اختیار کی تو وہ قومی فلاح کے کاموں میں مصروف ہوگیا اس کے اس جذبے اور کام کو بھی بہت سراہا جانے لگا ۔۔۔۔۔
پھر یہ ہوا کہ بدو کا یہ بیٹا اپنی مداحوں اور ملک کے مقتدر حلقوں کی حمایت سے اپنے ملک کا وزیراعظم بن گیا اور۔۔۔۔اب وہ اپنی ہر تقریر ، ہر گفتگو، اور ہر حکم نامے میں بھی حسب عادت "اونٹ” کو گھسیٹ لاتا ۔۔۔ اس سب کچھ میں اتنی تکرار ہوئی اور کئی اہم ملکی معاملات اس قدر نظرانداز ہونے لگے کہ اس کو پاس/ کامیاب (منتخب/ select) کروانے والے اس کی کامیابی کو بھگتنے سے تنگ آئے لگے اور ان میں سے بعض یہ سوچنے لگے کہ انگریز واقعی بہت چالاک ہوتے ہیں۔آکسفورڈ یونیورسٹی کی اسٹیبلشمنٹ نے بھی بہت سمجھداری کا ثبوت دیا تھا کہ اسے کامیابی کی سند عطا کر کے یونیورسٹی سے باہر بھیج دیا جبکہ ادھر وطن عزیز میں اس کی کامیابی اسکے اپنے ملک کے اندر کھل کھیلنے کا جواز بن گئی ۔۔۔ لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ اپنے اس کئے دھرے کی ذمہ داری پھر بھی وہ دوسروں پر ہی ڈالتے نظر آئے
فیس بک کمینٹ