میں مارکسسٹ ہوں۔ میں سمجھتا ہوں کہ دنیا کو سمجھنے کے لیے ہمیں مارکسسٹ بننا چاہیے۔ لوگ کہتے ہیں کہ یہ میرا نقطۂ نظر ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ایسا ہو۔ لیکن میں نے جس گھر میں آنکھ کھولی، وہ دنیا کے اکثریتی محنت کش طبقے کا گھر تھا۔ میں نے بچپن میں اپنے والدین کی سخت معاشی مشکلات اپنی آنکھوں سے دیکھیں۔ میرے والد اپنی انفرادی جدوجہد سے ان مشکلات سے نکل گئے، لیکن وہ اپنے طبقے سے باہر نہیں نکلے۔ انہوں نے اپنے طبقے اور اس کے لیے آواز اٹھانے والوں سے محبت اپنے بیٹے میں منتقل کی۔ محنت کش طبقے سے ہماری یہ محبت ہمارے جینز میں شامل ہو چکی ہے۔ میں نے خود اپنے بیٹے کو کبھی مارکسزم کی تربیت نہیں دی، لیکن وہ اس کی جانب راغب ہو گیا۔ میری رائے میں اس کی وجہ اس کے جینز ہیں۔ لیکن وہ یہ سمجھتا ہے کہ دنیا کا ہر باشعور انسان مارکسسٹ ہے، اور ایسا ہونا بھی چاہیے۔
میں براہِ راست یہ نہیں کہوں گا کہ جو مارکسسٹ نہیں ہیں وہ جاہل ہیں، لیکن دنیا کے دانشوروں کی اکثریت طبقاتی تقسیم کی حقیقت سے جان بوجھ کر صرفِ نظر کرتی ہے۔ یہ دانشور مارکسزم کو محض بہت سے نظریات میں سے ایک نظریہ قرار دیتے ہیں۔ آئیے اس پر گفتگو کرتے ہیں۔
مارکسزم بہت سادہ ہے۔ یہ دنیا کے سیاسی، معاشی اور تاریخی حقائق کا تجزیہ کرتا ہے اور اس کی روشنی میں طبقاتی تقسیم کو دنیا کی سب سے بڑی حقیقت قرار دیتا ہے۔ حالیہ انسانی تاریخ میں مذہبی طبقہ سب سے زیادہ شدت سے مارکسزم کا مخالف رہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مذہبی افراد دنیا کو اہمیت نہ دینے کا دعوٰی کرتے ہیں اور اخروی زندگی کو اصل زندگی قرار دیتے ہیں۔ دنیا کو عارضی قرار دینے کے باوجود عبادت گاہیں دنیا میں سب سے زیادہ دولت اکٹھی کرتی ہیں، اور ان کے رہنما دنیاوی زندگی کے سب سے زیادہ مزے لوٹتے ہیں۔ وہ سرپلس ویلیو یا قدرِ زائد کو منافع قرار دیتے ہیں اور اسے اپنے اپنے مذاہب کی رو سے جائز سمجھتے ہیں۔ اس کی وجہ ان کی مذہبی تعلیمات نہیں بلکہ ان کا مارکسزم سے انکار ہے۔ مارکسزم سے انکار میں وہ جانے انجانے اپنی مذہبی تعلیمات سے بھی روگردانی کر جاتے ہیں، جن کے مطابق اخلاقی طور پر ناجائز منافع خوری، سود اور دوسری کاروباری کارروائیاں گناہ سمجھی جانی چاہئیں۔
لبرل دانشوروں کے نزدیک مارکسزم محض ایک یوٹوپیا ہے اور ناقابلِ عمل ہے۔ یہ رائے وہ شاید اس کا مطالعہ کیے بغیر ہی دیتے ہیں۔ اس کے باوجود دنیا بھر کے لبرلز یہ تسلیم کرتے ہیں کہ دنیا میں کمزور طبقات پر جبر کیا جا رہا ہے اور ان کا استحصال ہو رہا ہے۔ کارل مارکس نے یہی بات کی تھی اور اس کا حل کمیونسٹ انقلاب کی صورت میں پیش کیا تھا۔ لیکن دانشوران احتجاجی سیاست اور اس کے نتیجے میں کی جانے والی اصلاحات کو ہی ان مسائل کا حل سمجھتے ہیں۔ مذہبی اور لبرل افراد شاید اخروی زندگی کی حقیقت پر ایک دوسرے سے متفق نہ ہوں، لیکن وہ اس بات پر ضرور متفق ہیں کہ دنیا کے مسائل کبھی حل نہیں ہوں گے اور جبر و استبداد ہمیشہ قائم رہے گا۔ یہ بے سروپا باتیں اکیسویں صدی کی دنیا میں کی جا رہی ہیں، جو اس وقت انسانی ذہانت سے مصنوعی ذہانت میں داخل ہو چکی ہے۔
سرمایہ داری کے حامی ان مذہبی اور لبرل دانشوروں میں سے کچھ موٹیویشنل اسپیکر بھی بن جاتے ہیں۔ ان کی گفتگو سنیں تو یہ ہمیشہ مثبت سوچ رکھنے کا درس دیتے نظر آتے ہیں۔ یہ ہمیں بتاتے ہیں کہ ہمیں دنیا میں پیش آنے والی مشکلات کا مقابلہ کیسے کرنا چاہیے، خود کو نفسیاتی طور پر کیسے مضبوط رکھنا چاہیے، اور اپنی انفرادی کامیابی حاصل کرنے کے لیے کس طرح جدوجہد کرنی چاہیے۔ وہ اپنی تقاریر میں بڑے سرمایہ داروں کی مثالیں دیتے ہیں کہ کیسے انہوں نے بدترین مفلسی سے خود کو نکالا اور ارب پتی بن گئے۔ وہ اجتماعی جدوجہد، یونین سازی، اور محنت کش طبقے کے حقوق کی باتوں کو منفی سوچ قرار دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ باتیں ہماری انفرادی کامیابیوں کی راہ میں حائل رکاوٹیں ہیں۔ یہ آؤٹ آف کورس ہیں، ہمارے اسکوپ سے باہر ہیں، اور ہمیں ان کو نظرانداز کر کے آگے بڑھنا چاہیے۔
مزے کی بات یہ ہے کہ یہی افراد ہمیں اخلاقیات کے اسباق بھی دیتے ہیں، جیسے کہ ہمیں ہمیشہ سچ بولنا چاہیے اور دیانت داری سے کام کرنا چاہیے۔
میں سمجھتا ہوں کہ یہ دانشور نوجوانوں اور محنت کش طبقے کو گمراہ کرتے ہیں۔ یہ ان سے جان بوجھ کر جھوٹ بولتے ہیں۔ یہ لوگ دنیا کی اجتماعی ترقی کے خلاف ہیں اور جنگل کے قانون یعنی سروائیول آف دی فٹیسٹ کے حامی ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ یہ لوگ خود جاہل ہوں، لیکن میں انھیں جاہل قرار دینا بداخلاقی سمجھتا ہوں۔ یہ لوگ یقینا باشعور اور اہلِ مطالعہ ہیں، لیکن اس صورت میں مجھے یہ کہنے میں کوئی عار محسوس نہیں ہوتی کہ یہ دانشورانہ طور پر بددیانت، یعنی انٹیلیکچوئلی کرپٹ ہیں۔
فیس بک کمینٹ

