جی صاحبانِ علم و فن،دنیا کے رنگ انیک۔کیا کیا بتائیں،کیا کیا دکھائیں اور کیا کیا سنائیں؟.لیکن ایک بات ضرور ہے کہ اس رنگین دنیا میں رہنے بسنے والے کچھ انسانوں کے رنگ ڈھنگ ایسے نرالے ہوتے ہیں کہ پہلے تو بندہ دیکھ کر دانتوں میں انگلیاں دبا لیتا ہے اور حیرت کے مارے گنگ ہو جاتا ہے پھر زبان کھولنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ ان کی زبانیں ہی کچھ ایسی تیزی سے چلتی ہیں اور دل چیرتی جاتی ہیں کہ جیسے تیز دھار قینچی کپڑے کو سرعت سے کاٹ کر رکھ دے۔
ابھی کل ہی ہماری ایک سہیلی کا فون آیا کہ یار فلاں عورت کو دیکھو ہر وقت فیس بک پر اپنی مظلومیت کا رونا روتی رہتی ہے اور خود کو عظیم ثابت کرکے لوگوں کی ہمدردیاں اور واہ واہ سمیٹتی ہے اور جناب،بات تو سچ تھی،ہوتا بھی یہی ہے کہ خودرحمی اور خود ترسی کے پس پردہ خود ستائی اور خود نمائی کا جذبہ ہی کارفرما ہوتا ہے۔ اب زندگی میں سب کو ہی الله جانے خوشیوں اور دکھوں کے کتنے رنگ دیکھنے پڑتے ہیں۔محنت مشقت،صبر و برداشت،تحمل،درگذر،سمجھوتے،دکھوں اور سکھوں کی وزنی گٹھڑی کاندھے پر رکھ کر زندگی کا سفر طے کرنا پڑتا ہے۔کامیابیوں اور مسرتوں کی عطائے خداوندی پر بہت سے لوگوں کی حسد آمیز باتیں سننی پڑتی ہیں اور محرومیوں اور آزمائشوں پر تحقیر و طنز بھرے جملے سہنے پڑتے ہیں۔لیکن ہر کوئی بیچ چوراہے میں یہ گٹھری کھول کھول کر ہر آتے جاتے کو دکھانا نہیں شروع کر دیتا۔
اہل دل یوں بھی نبھا لیتے ہیں
درد سینے میں چھپا لیتے ہیں
اس پر ہمیں اپنے ایک رفیق کار کے حوالے سے ایک واقعہ یاد آگیا جو ہمیشہ دل میں نقش رہے گا۔ہوا یوں کہ ان صاحب کی والدہ کی شدید علالت کے سبب ہسپتال میں کئی روز داخل رہنے کے بعد ان کی گھر واپسی پر عیادت کے لئے ان کے گھر گئے۔ان کی والدہ نےپہلی بار اپنےمرحوم شوہر کے حوالہ سے کچھ باتیں اور یادیں ہم سے شئر کیں۔کہ ان کے مرحوم شوہر پیدائشی گونگے اور بہرے تھے۔لیکن جس طرح انہوں نے ہمت اور حوصلہ سے اپنے اہل وعیال کی ذمہ داری نبھائی۔محنت سے رزق حلال کمایا۔ہمیشہ،محبت،شفقت اور ایک امید افزا مسکراہٹ ان کے چہرے پر رہتی تھی۔ان کی یہ کرداری خوبیاں ہی ان کے ہوتے ہوئے اور ان کے بعد بھی ان کی بیوی اور بچوں کے لئے نامساعد حالات میں بھی ہمت،محنت اور وقار سے زندگی گزارنے کے لئے مشعلِ راہ ثابت ہوئیں۔اور سب بچے اپنے اپنے شعبوں میں کامیاب رہے۔ہمارے محترم رفیقِ کار اور ان کی والدہ اتنی محبت بلکہ عقیدت سے اپنے مرحوم والد اور شوہر کا ذکر کر رہے تھے کہ سر بےاختیار اس گھرانے کے احترام میں جھک گیا کہ شریف النفس خاندانوں میں کس باوقار انداز میں ایک دوسرے کی محرومیوں اور معذوریوں کے ساتھ نبھایاجاتا ہے۔کوئی واویلا نہیں مچایا جاتا اور نہ ہی چوک میں کھڑے ہوکر مظلومیت کا ڈھول پیٹا جاتا ہے۔کہ کچھ بچارے پیدائشی معذور یا گونگے بہرے شوہروں کی بیویوں اور ان بیویوں کی” تربیت یافتہ "اولادوں کے بولنے بلکہ”آؤٹ سپوکن” ہونے کے ایسے ایسے رنگ ڈھنگ دیکھے ہیں کہ بندہ کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے یہی سوچتا ہے کہ ایسے بولنے بلکہ” گند گھولنے "سے تو گونگا بہرہ ہونا ہی بہتر۔اور پھر کچھ خواتین تو اپنے شوہر کی ہمت اور حوصلہ کو سراہنے اور اس سے کوئی اچھی سیکھ لینے کےبجائے دوسری عورتوں سے اپنی زندگی کی محرومی کا انتقام اس طرح بھی لیتی ہیں کہ ان کا بس نہیں چلتا کہ ہر بیوی کے شوہر کو اپنی مظلومیت کی داستان سنا اور اپنے دعوت دیتے نازوانداز دکھا کر اس حد تک اپنا اسیر کر لیں کہ وہ ساری باتیں ان سے ہی کر ڈالیں ،ایک ایک حرف اپنی دولت کے ساتھ ساتھ ان کے قدموں میں ڈھیر کردیں اور گھر جاتے ہی بیویوں کے لئے کنگال ہونے کے ساتھ ساتھ گونگے اور بہرے بن جائیں۔اور بیویاں بیچاریاں آہیں بھر بھر کر یہی سوچتی رہ جائیں کہ "جانے کس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں”
ویسے ایک مجبوری ان جیسی عورتوں کی بھی ہوتی ہے کہ "قیمتی تحائف” کی مد میں وصول ہونے والی "بلیک منی”کو "وائٹ”کرنے کے لئے انہیں کسی بےوقوف مالدار مرد کا تعاون بھی درکار ہوتا ہےجو اس سارے کالے دھن کو اپنی طرف سے دیا گیا "ادھار "ڈیکلئر کر کے سفید کردے۔اور انہیں آمدن سے زیادہ اثاثے رکھنے کےجرم سے بچا لے ااور اس کے لئے ہر طرح کی” قیمت "دینا ان عورتوں کی بھی مجبوری ہوتی ہے”ہائے ہائے یہ مجبوری”
مسٹر شیکسپیئر بھی کیا حق سچ بات کہہ گئے کہ یہ دنیاایک سٹیج ہے اور ہر انسان سٹیج پر آتا ہے، اپنا کردار ادا کرتا ہے اورچلا جاتا ہے”تو جناب سچ پوچھئے تو آج کل کے نام نہاد دور جدید کے کچھ "یونی سیکس سیلون” کے بورڈز دیکھ کر نجانے کیوں غلام عباس کا افسانہ”حمام میں”اور اس کے کرداریاد آجاتے ہیں۔ ساتھ ہی ان نام نہاد شریف اور معزز گھرانوں کی "فرخندہ بھابیاں”نگاہوں میں گھوم جاتی ہیں اور ابرار الحق کا مشہور زمانہ گیت کانوں میں گونجنے لگتا ہے
اسی تے جانا اے،بلو دےگھر
کنے کنے جانا اے ،بلو دے گھر
ٹکٹ کٹاؤ لین بناؤ،ٹکٹ کٹاؤ
فیس بک کمینٹ