میں ایک شور مچاتی دنیا میں خاموش لیٹا ہوں۔۔۔وہ سب باتیں جو میں نہیں کر سکا تھا میرے دل میں زہر کی مانند اترتی رہی تھیں آج میرے سینے میں مچل رہی ہیں۔ کل بولنے کی ہمت نہیں تھی آج بولنے کی اجازت نہیں ہے۔۔۔ میرے حلق سے نکلنے والی واحد آواز میرے سانس کی روانی کو بحال رکھنے کے لیے ڈالی جانے والی عارضی نالی سے آتی ہے۔۔۔جب میرے گلے کی رطوبتیں جو عام حالات میں نگلنے یا اگلنے کی وجہ سے صاف ہو جاتی تھیں آج ایک مشین اور پلاسٹک کے پائپ کی محتاج ہو گئی ہیں۔
میرا جڑواں بھائی فوراً سے اٹھتا ہے کبھی خود کبھی کسی ڈاکٹر کو بلا کر لاتا ہے اور میرے ادھڑتے ہوۓ وجود میں پھر چند سانسیں بھر دیتا ہے۔۔وہ میرے کندھے دباتا ہے کبھی چھاتی پر تھپکی دیتا ہے۔۔۔اگر کندھوں پر پڑے بوجھ کوئی جھاڑ دیتا۔۔۔میرے دل کے بوجھ اتار پھینکتا ۔۔۔۔اگر یہ تھپکی مجھے چند روز قبل ملی ہوتی تو میری حالت بھی کچھ اور ہوتی۔۔یہ سب پریشان ہیں کہ کالا پتھر کھانے سے میرے جسم اور دل کے پٹھے ٹوٹ رہے ہیں اور ان کے ٹوٹنے سے میرے گردے ناکارہ ہو رہے ہیں۔۔۔۔وہ مجھے اداس اور نم زدہ دیکھ کر تسلی دیتے ہیں ۔۔۔میں انہیں کیسے سمجھاؤ ں کہ میرا دل اور میرا وجود تو کئی برسوں سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔۔۔۔اس وقت سے جب ہمارا آشیانہ ابا کی کسی اور سے آشنائی اور اماں سے بے وفائی کی وجہ سے لمحوں میں بکھر گيا تھا۔۔۔اماں نے ہمیں اپنے آغوش میں سما کر دنیا سے چھپا کر کئی برس بہت حد تک زمانے کی سختیوں سے بچا کر رکھا ۔۔۔انہوں نے گھر میں جگہ دی اور زندگی میں بھی۔۔لیکن مجھے یہ زندگی ہمیشہ مستعار لگی۔۔۔آخر اماں بھی زندگی کا بوجھ اکیلے اٹھاتے اٹھاتے تھک گئی اور کسی کے چار بچے پالنے کے عوض اپنے سر کی چھت پانے کے لیے ایک نئے گھر کی بنیاد رکھنے چلی گئيں۔۔۔۔ابا کے بغیر زندگی کوئی جنت نہ تھی لیکن اماں کے چلے جانے سے معلوم ہوا کہ مرد کی غلطی فطرت اور نادانی ہو سکتی ہے لیکن عورت کی خواہش اور اس کی تکمیل اس کے خاندان والوں کے لیے باعث تذلیل بن جاتی ہے ۔۔۔ابا اماں کی علیحدگی پر۔۔اماں کے چلے جانے پر ۔۔۔میرا بھائی ہمیشہ بہت رویا۔۔۔مگر مجھ سے کبھی یہ ہو نہ سکا۔۔۔۔میں رو نہ سکا اس لیے شاید غم بھی کم نہ ہو سکا۔۔۔۔ہمارا معاشرہ عورت کو عزت دے نہ دے گالیاں سب اسی کی نسبت سے دیتا ہے۔۔۔میرا بھائی بھی عجیب ہے ۔۔کہتا تھا شکر ہے ہم دو بھائی ہیں۔۔۔بہن ہوتی تو اس کی نسبت سے گالی بھی سننی پڑتي۔۔۔اور بہن ہوتی تو کیسے یہ سب برداشت کر پاتی۔۔۔۔مجھ سے شکر ہو سکا نہ میں صبر کر سکا۔۔۔دل کا بوجھ بڑھا تو کالا پتھر نگل لیا۔۔۔۔شاید میں اپنی جوانی میں لاحق بڑھاپے کو کالے رنگ لگا کر زندگی دینے کی کوشش میں تھا۔۔۔۔لیکن سب الٹا ہو گيا۔۔۔میرے گلے کو ان دیکھی سے طاقت نے دبوچ لیا میری زبان بھاری ہو کر منہ کے اندر سمانے سے ناکام ہونے لگی۔۔۔مجھے دو سفید سے ہیولے نظر آنے لگے۔۔۔جو کہ مجھ پر بہت خفا اور ناراض نظر آتے تھے۔۔۔۔مجھے لگا مجھے جہنم کے داروغہ لینے آۓ ہیں۔۔۔۔مختصر سی زندگی کے الم سے گھبرا کر میں نے اپنے لیے ہمیشہ کی جہنم خرید لی ہے ۔۔۔اسی ادھیڑ بن میں نہ جانے کب ان سفید کپڑے والوں نے میرے گردن پر جراحی ہتھیار چلاۓ گلے میں ٹیوب ڈال کر ٹانکے لگا دیے۔۔۔۔چھاتی پر تاریں لگا کر میرے دل کی زبان کو کاغذوں پر منقول کر کے میرے دل کے درد کو پڑھنے کی کوششیں کرتے رہے۔۔۔
نفسیات والے بھی آۓ۔۔۔مجھے زندگی کو دیکھنے کے کئی زاویے بتلاۓ۔۔۔۔دھیرے دھیرے سانس اور آس دونوں بحال ہونے لگے۔۔۔۔لیکن گردوں پر پڑی کالے پتھر کی گرد بہت بھاری پڑی۔۔۔۔ہر ایک دن بعد مجھے مشینوں کے ذریعے خون کی صفائی اور گردوں کی دھلائی کے لیے لے جایا جاتا رہا۔۔۔یہاں تک کہ میں بھلا چنگا ہو گيا۔۔۔ان بہت سارے دنوں میں میرے بھائی نے جتنے آنسو بہاۓ وہ مجھے شرمندگی کے مارے ڈوب جانے کے لیے کافی تھے۔۔۔
میں نے زندگی کے اس کٹھن سفر میں اس کو اکیلا کر دیا تھا۔۔۔میرا بھائی اور میرے معالج یہی سوچ کر پریشان تھے کہ میں دوبارہ کبھی پریشان ہو کر ایسی حرکت کا مرتکب ہوا تو شاید جانبر نہ ہو سکوں۔۔۔۔میں ان کو یہ یقین دلانا چاہتا تھا کہ میں سمجھ گيا ہوں۔۔۔۔نہ ہی سب کو بابا کے کندھے ملتے ہیں اور نہ ماں کی آغوش۔۔۔نہ ہی ہر موسی کے پاس ہارون ہوتا ہے اور نہ ہی ہر شہزادی کو بچانے شہزادہ آتا ہے۔۔۔میں سمجھ گیا ہوں۔۔۔۔مجھے خود کو خود ہی بچانا ہے۔۔۔یہ سب جونئير ڈاکٹر جن پروفیسر صاحب سے سب سے زیادہ ڈرتے ہیں وہ مجھے ایک بات کہہ کر گئے تھے۔۔۔اماں ابا جو کرتے ہیں کرنے دو۔۔۔تمہارے لیے وہ قابل احترام ہیں۔۔۔لیکن خود پر رحم کرو۔۔۔۔زندگی بہت مشکل سہی۔۔۔۔۔تم ایسی موت کے حقدار تو نہیں ہو۔۔
فیس بک کمینٹ