اونچی ديواریں اور خاردار باڑيں حفاظتی قلعوں کی ہوتی ہیں اور قید خانوں کی بھی۔۔محرم کو مجرم اور منافق کو منتقم رویہ اپنانے میں وقت ہی کتنا لگتا ہے۔۔جب سے قلم پکڑنا سیکھا تھا ہمیشہ ایک ہی تصویر بار بار بنایا کرتی تھی پہاڑوں کی قطار،بادلوں بھرا آسمان،کبھی ابلتے ہوۓ دودھ کی طرح آسمان سے ابھرتے ہوۓ کپاس جیسے بادل اور کبھی سیاہ آنچل کی طرح گھٹا بن کے چھاجانے والے بادل۔۔بادلوں کی اوٹ سے جھانکتا ہوا سورج ، ایک چھوٹا سا گھر جس کے باہر پھول اور تتلیاں منڈلاتی تھیں اور قریباً ہر تصویر میں کسی نہ کسی رخ پر کسی کونے پر دریا بھی بہتا تھا۔۔
یہ منظرکشی گویا اس کے پہاڑوں میں جا کر بس جانے کے غیر ارادی شوق کا اظہار تھا جو حقیقت بنا تو گلے کا طوق بن گیا۔۔طوفان ایسا آیا کہ زندگی کے سب منصوبے تہس نہس کر گيا اور برا ہوا کہ بھلا ہوا بہت سے چہروں سے نقاب تو اتر گيا ۔۔جیسے فکشن کی کہانیوں میں چاند کی پوری تاریخوں کے آتے ہی عام انسانوں کا روپ دھارے بھیڑيے اصل روپ میں آجاتے ہیں اور سب کو نوچ کھسوٹ جاتے ہیں۔۔وہی جو حفاظت پر معمور ہوتے ہیں قاتل بن جاتے ہیں ایسے میں جان کی امان کےلیے بھاگنے کے سوا کوئی رستہ دکھائی نہیں دیتا۔۔اس کے ساتھ بھی یہی ہوا تھا وہ پہاڑوں کے دامن میں خوبصورت سا قصبہ تھا جسکے نیلگوں آسمان تلے سبز ی مائل زور و شور سےبہتے ہوۓ دریا سے اس قصبے کی خوبصورتی میں مزيد اضافہ ہو جاتا تھا اسی قصبے کے دامن میں ایک چھوٹا سا گھر تھا جہاں وہ اپنے ارمانوں کے زيور سے ملبوس امید کی خوشیوں سے سجی سنوری دعاؤ ں کے ساۓ میں رخصت ہو کر آئی تھی اور اس کے در و دیوار اپنی محبت اور محنت سے سجائے تھے عین ممکن تھا کہ یہی مسکن اس کا مرقد بن جاتا ۔۔ جن مکینوں کو اہل خانہ سمجھا وہی اس کی ہر خوشی کے قاتل بننے کے بعد اس کی معصوم سی کرن کو بھی بجھا ڈالنا چاہتے تھے جو نکلی تو اس کے بطن سے تھی لیکن جز ہو کر بھی اس کے پورے وجود پر حاوی تھی۔۔
يہ اطمینان کر لینے کے بعد کہ تمام شیطان صفت انسان اپنے شر سمیت گہری نیند میں ہیں۔۔زادراہ کے نام پر بچی کے چند جوڑے اور دودھ کی بوتل روزمرہ کے استعمال والے پرس میں ڈالے سردی سے بچنے کی خاطرمحض ایک لمبے کوٹ پہنےاور بچی کو سینے سے لگا کر کوٹ میں چھپا کر باہر نکل آئی۔۔۔رات جاگ رہی تھی اور اس کا نصیب سو رہا تھا خنک ہوا کے ساتھ ساتھ ہلکی برستی بارش اس کے سفر کی مشکلات بڑھانے میں مصروف تھی۔۔جن سے بھی مدد مانگی جا سکتی تھی موبائل کے برقی تار ان تک رابطہ جوڑنے سے قاصر تھے۔۔۔مایوس ہو کر صرف اپنے کمزور وجود کے زور بازو پر قصد سفر کیا۔۔تلخ لفظوں طنز و طعن بھرے جملوں اور حرص و ہوس سے لتھڑی ہوئی نظروں کی بازگشت پکڑےجانے کے خوف کے ساتھ گھل مل جا رہی تھی پاوں رکھتی کہاں تھی پڑتا کہیں تھا بارش کے باعث پہاڑی راستوں پر پھسلن بڑھ چکی تھی اور ہوا کے تھپیڑوں کے مخالف شہر کی طرف رخ کیے چلتے جانے میں شدید دشواری کا سامنا تھا۔۔۔جیسے ہی پاوں پھسلتا یا لباس کسی جھاڑی سے الجھتا بچی پر اس کے ہاتھوں کی گرفت میں مزيد طاقت آجاتی اور بچی گھبرا کر کسمساتی اور احتجاجاً رو پڑتی لیکن پھر ماں کی تھپکی سے چند لمحوں کے لیے بہل جاتی۔۔۔مڑ مڑ کر اپنے پھولوں اور تتلیوں والے خواب نگر کو اپنے مکان کو جسے گھر بنایا تھا دیکھتی اور غم کی ایک نئی لہر اس کے وجود سے زندگی لو مدھم ہو جاتی۔۔وہ زيور جن کی کھنک اور رنگ برنگ ملبوسات کی دھنک اس کے گھر میں تو آۓ لیکن زندگی میں نہ آسکے اب یاد آرہے تھے تو آنکھیں دھندلا رہی تھیں يا پھر یہ وہ آنسو تھے جو سینے میں لگی غم کی آگ کو بجھانے کی خاطر قدرت کی طرف سے بھیجے جانے والی برسات تھی۔۔جذبات کی بوچھاڑ میں اور حالات کے انبار سے نبرد آزما ہوتے ہوتے پاوں رپٹا اور وہ زمین بوس ہو گئی بالکل اس کے خوابوں کے محل کی طرح جو حقیقت کے زلزلوں کے زير اثر آکر دھڑام سے اپنی ہی بنیاد پر اوندھے پڑے تھے۔۔
گرتے گرتے بھی بچی کا خیال ساتھ تھا اس نے بازووں میں بھر کر بچی کو اپنے اوپر کر لیا اور چوٹ کا وزن اپنے بدن پر لے لیا۔۔درد سے اس کا جسم کلبلا رہا تھا اور معصوم سا وجود خوف اور بھوک سے پورے زور سے رو پڑا۔۔۔اس نے اپنے جسم کو گھسیٹ کر ایک بڑے سے پتھر کے ساتھ ٹیک لگائی اور دودھ کی بوتل بچی کے منہ سے لگائی شہر جانے والی سڑک تک پہنچنے کیلئے ابھی مزید کئی منزلیں طے کرنی تھیں۔۔بارش اور آنسوؤ ں کے قطرے مدغم ہوۓ جاتے تھے اور دل بھی لمحہ بہ لمحہ بدلتی افتاد سے خزاں رسیدہ پتے کی مانند لرزا جاتا تھا اور اس کی تھرتھراہٹ پورے بدن میں گردش کر رہی تھی اندر سے کوئی چيخ چيخ کر مدد کیلئے پکار رہا تھا لیکن گلے میں خوف کی پھانس تھی اور زبان خشک ہو کر تالو سے چپکی تھی اور بچی بھوک مٹ جانے کی وجہ سے چپ کر چکی تھی۔۔اس نے اپنے کانپتے ہوۓ سرد ہاتھوں سے ایک بار پھر فون کے ذریعے خاندان والوں اور قابل بھروسہ احباب سے مدد طلب کرنے کی کوشش کی لیکن سب کے سب رابطہ حدود سے دور تھے اور دور تک تو اس نے ابھی پہنچنا تھا تاکہ محفوظ مقام پر پہنچنے کیلئے کوئی سواری میسر آسکے آس پاس حشرات اور ایک وحشت ناک رات پورے احسساسات کے ساتھ سانس لے رہی تھی۔۔
اپنی پوری طاقت مجتمع کر کے جب اٹھ کھڑی ہوئی تو معلوم ہوا کہ ڈھے جانے سے اس کا جوتا کہیں گر کر کھو چکا ہے تلاش کی کوشش میں کامیابی نہ ہوئی تو اس نے یہ سوچ کر دوسرا جوتا بھی اتار دیا کہ جہاں سب کچھ چھوڑ کر زندگی کے نئے باب میں داخل ہو رہی ہوں وہاں اس جوتے کی کیا وقعت۔۔انہی واہموں کے جنجال سے لڑتے بھڑتے، ڈرتے ڈرتے اور گرتے پڑتے رات کا آخری پہر اختتام کو آپہنچا شب بھر برسنے کے بعد بادل بھی اب چھٹ رہا تھا اور شہر کو جانے والی سڑک نظر آنے لگی۔ ایک خانہ بدوش اپنے سامان سمیت نقل مکانی کر رہا تھا وہ بھی ان کے ساتھ ہو لی شاید بھوک پیاس خوف اور تنہائی کی آزمائش ختم ہوئی چاہتی تھی۔۔سورج کی کرنوں سے نکھری نکھری صبح انگڑآئی لیتے ہوۓ جاگنے لگی تھی اسے یقین آنے لگا کہ اس کی زندگی کے اندھیرے بھی مٹنے والے ہیں کیونکہ وہ اپنے حصے کی روشن کرن کو ماضی کے تاریک ابواب سے بچا لائی ہے ۔۔
فیس بک کمینٹ