بہت زور و شور سے یہ پروپیگنڈا کیا جارہا ہے کہ ٹیکنالوجی میں نت نئے انقلابات کی بدولت اب سرمایہ دارانہ نظام ہمیشہ کے لیے قائم رہے گا اور کارل مارکس کی طبقات، طبقاتی جدوجہد اور سوشلسٹ انقلاب کی تھیوریاں اب متروک ہو چکی ہیں‘لیکن سرمایہ دارانہ انقلاب کی تاریخ اورجدید ٹیکنالوجی کے اثرات کا بغور جائزہ لینے پر یہ پروپیگنڈا بے نقاب ہو جاتا ہے۔ مارکس کی اپنی تحاریر کے مطابق ٹیکنالوجی کے ذریعے سرمایہ داری کی ترقی سوشلزم اور انسانیت کی نجات کے لیے بنیادی شرط ہے۔
مارکس کے مطابق ماضی میں مظلوموں کی بغاوتیں‘ اسی لیے ناکام رہیں کہ یہ شرط ابھی مکمل نہ ہوئی تھی۔ ٹیکنالوجی میں یہ انقلابات سرمایہ داری کی بقا کے لیے ضروری رہے ہیں۔ بھاپ کے انجن سے بجلی ‘ ٹرانسمیشن لائنوں سے کنٹینرز کی تجارت اور انفارمیشن ٹیکنالوجی سے آرٹی فیشل انٹیلی جنس ( مصنوعی ذہانت) میں ہونے والی پیش رفتیں سرمایہ دارانہ نظام کے انہدام کو ٹالتی چلی آئی ہیں ‘لیکن ان سے غربت اور محرومی میں خاتمے کی بجائے استحصال میں اضافہ ہی ہوا ہے۔
سرمایہ داری میں سب کچھ سرمائے میں اضافے اور اسے ذاتی دولت اور املاک میں بدلنے کے لیے کیا جاتا ہے۔جدید آلات ِ پیداواراور سائنس اور ٹیکنالوجی کے استعمال قومی سرحدوں اور نجی ملک کے حدود سے آگے بڑھ چکے ہیں۔فزکس کے شعبے میں ایٹمی ذرات کی حرکت اور ٹکراW کی مشینیں ( مثلاً: دنیا کا سب سے بڑا پارٹیکل ایکسلریٹر سی ای آر این) کوانٹم کمپیوٹر‘ آرٹی فیشل انٹیلی جنس اور خلائی تحقیق میں بین الاقوامی تعاون اس کی چند مثالیں ہیں۔
قابل تجدید توانائی ( رینیو ایبل) ڈرائیور کے بغیر گاڑیاں‘ ڈیجیٹل اور بائیو ٹیک کے امتزاج سے نابینائوں کو بصارت دینے کی کوششیں‘ نانو ٹیک (بہت باریک پیمانے کی ٹیکنالوجی) سے زریعے ادویات کو مطلوبہ خلیوں تک پہنچانا اور موسمیاتی تبدیلیوں کو محدود کرنے کے امکانات حیرت انگیز ٹیکنالوجی کے شاہکار ہیں ۔بڑی ہوائی چکیوں (ونڈ ٹربائن) کی تنصیب ‘ سولر سیل کی صلاحیت میں بہتری اور بڑے پیمانے کی بیٹریوں کی صلاحیت میں اضافہ گلوبل وارمنگ کو روکنے اور اس میں واپسی کے ساتھ انسانیت کے خوشحال مستقبل کو ممکن بنا سکے ہیں۔
انٹرنیٹ‘ فائبر آپٹکس‘ سمارٹ فون‘ لیپ ٹاپ وغیرہ سے سماجی روابط کی بے پناہ راہیں کھلی ہیں۔کوانٹم کمپیو ٹرز کی حیرت انگیز طاقت کی بناء پرمصنوعی ذہانت اور ری انفورسمنٹ لرننگ (کمپیوٹر کا خود سے سیکھنا) سے کمپیوٹرز حقیقی معنوں میں حقائق کی بنیاد پر فیصلے کر کے تشخیص اور علاج معالجے میں بہت مدد گار ثابت ہو سکتے ہیں۔ توانائی کے ذرائع کی قیمتوں میں کمی سے انسانیت کی بہت بڑی ترقی ممکن ہو چکی ہے لیکن سرمایہ دارانہ نظام اس کی راہ میں بڑی رکاوٹ بنا ہوا ہے ۔
سرمایہ دارانہ نظام میں ٹیکنالوجی عموماً محنت کشوں کے خلاف ہی استعمال کی جاتی ہے۔یہ نظام نئی ٹیکنالوجی پر قبضہ جما کر اسے نجی ملکیت اور پیٹنٹ کی شکل دے دیتا ہے۔گوگل کے بانی کمپیوٹر ماہرین کی ایک ایسی شراکت قائم چاہتے تھے‘ جہاں معلومات اور علم تک مفت رسائی ہو‘ لیکن ساجھی داری کی بجائے گوگل اب دیو ہیکل کمپنیوں کا مجموعہ بن چکی ہے‘ جس میں کئی ارب پتی ہے۔ ٹیکنالوجی میں عوامی اشتراک کے جذبے پر سرمایہ د ارانہ نجی ملکیت غالب آ گئی۔
تاریخی طور پر سرمایہ داری کی پیش رفت ذرائع پیداوار کی ترقی اور وسعت کے جڑی رہی ہے۔ آج کئی اہم تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔ پیداواری صنعت اور معاشی ترقی کے کلیدی حصے ماضی کے ترقی یافتہ سرمایہ دارانہ ممالک سے اب چین اور جنوبی ایشیا کی جانب منتقل ہو رہے ہیں۔خودکار روبوٹس اور دیگر ٹیکنالوجی پرانے طرز کی سٹورز اور خدمات کے شعبوں کو کمزور یا از سر نوع ترتیب دے رہی ہے۔ایپل‘ ایمازون اور گوگل جیسی کمپنیاں انفارمیشن ٹیکنالوجی پر اجارہ داری اور دنیا کی سب سے بڑی کارپوریٹ اجارہ داریاں بنتی جا رہی ہیں۔
مصنونی ذہانت‘ بلاک چین‘ روبوٹس اور کمپیوٹر کے خودکار سیکھنے کا عمل تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے‘ جس سے معیشت اور ریاست کے کئی شعبوں میں نوکریاں ختم ہو رہی ہیں اوربے روزگاروں کے پہلے سے موجود سمندر میں اضافہ ہو رہا ہے۔اس سے روزگار کی کیفیت میں دہ انتہائیں جنم لے رہی ہیں اور درمیانہ طبقہ سکڑ رہا ہے۔ ایک حالیہ جائزے کے مطابق امریکہ میں اگلے دس برسوں میں38فیصد نوکریاں ٹیکنالوجی کے ہاتھوں ختم ہو جائیں گی۔
ٹرمپ کی کوششوں کے باوجود امریکہ میں تیل‘ گیس اور کوئلے کے ایندھن کی صنعت کے زوال کو روکا نہیں جا سکتا۔ تیل کی مسلسل کم قیمتوں کی ایک وجہ فریکنگ ٹیکنالوجی ہے ‘جس کے زریعے بالخصوص امریکہ میں موجودہ کنوئوں سے مزید تیل اور گیس نکال کر رسد میں اضافہ ہوا ہے۔ اس کے علاوہ سستی قابل تجدید توانائی کی تیز رفتار ترقی بھی تیل اور گیس کو نقصان پہنچا رہی ہے۔ توانائی کی قیمت کے مقابلے میں بالآخر قابل تجدید ذرائع تیل‘ گیس اور کوئلے کو مات دے دیں گے۔
سرمایہ دارانہ نظام بحرانوں کے چنگل سے کبھی آزاد نہیں ہو سکتا۔ بڑے سرمایہ دار ممالک کے درمیان نسبتاً تعاون کے تعلقات کا دو ر اب قومی مفادات اور تجارتی جنگوں کی جانب بڑھ رہا ہے۔ ٹرمپ امریکہ کی بالا دستی کے لیے خطرہ بن سکنے والے یورپی یونین جیسے تجارتی گروپوں کو توڑنے کی کوشش کر رہا ہے۔ ٹیکنالوجی کی تمام ترقی کے باوجود سرمایہ داری محنت اور منڈیوں کے شدید استحصال ‘ عدم مساوات میں اضافے اور اجرتوں میں جمود کا باعث بن رہی ہے۔محنت کش لوگوں کے حالات بد تر ہوتے جا رہے ہیں۔ غیر یقینی اور پارٹ ٹائم روزگار معمول بن چکے ہیں۔ ڈی ریگولیشن کی وجہ سے حالات کار غیر محفوظ اور بدتر‘ جبکہ مالکان کی پوزیشن مضبوظ ہوتی جا رہی ہے۔ نوجوان محنت کشوں کا تو کوئی پرسان حال ہی نہیں۔ سرمایہ داری کا تضاد یہی ہے کہ جدت اور ٹیکنالوجی کی ترقی سماجی رشتوں میں خلفشار پیدا کرتی ہیں۔
مارکس اور اینگلز نے 1848ء میں کمیونسٹ مینی فیسٹو میں آج کے بحرانات اور ٹیکنالوجی میں ہونے والے انقلابات کی پیش بندی کی تھی کہ ”بورژوا طبقہ آلات پیداوار میں اور ان کی وجہ سے تعلقات پیداوار میں اور ان کے ساتھ سماج کے سارے تعلقات میں لگاتار انقلابی الٹ پلٹ کئے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا…پیداوار میں پیہم انقلابی الٹ پلٹ ‘ جملہ سماجی تعلقات میں لگاتار خلل‘دائمی عدم استحکام اور ہلچل‘ بورژوای کے عہد کو پہلے کے تمام زمانوں سے ممتاز کر تی ہیں ‘‘۔
ان کے مطابق سرمایہ داری اپنی ہی پیدا کردہ ٹیکنالوجی کو مکمل طور پر بروئے کار لانے کے قابل نہیں ہے۔ تضادات کو حل کرنے کی بجائے یہ ترقی انہیں مزید گہرا کرتی ہے۔ یہی تضادات پھٹ کر ہولناک جنگوں ‘سماجی خلفشار اور سماجی و معاشی بربادی کا باعث بنتے ہیں۔انتہائی جدید ٹیکنالوجی اور فر سودہ لیبر کانٹریکٹ کے ملاپ کا نتیجہ بڑے پیمانے پر بربادی ہوتا ہے۔ کمیونسٹ مینی فیسٹو کے مطابق ” اس سماج نے دیو ہیکل ذرائع پیداوار تو بنا لیے ہیں‘ لیکن اس کی حالت اس جادو گر کی سی ہے‘ جس نے اپنے جادو سے شیطانی طاقتوں کو جگا تو لیا ہے‘ مگر اب قابو میں نہیں رکھ سکتا‘‘۔
یہ جادوگر سمجھتے ہیں کہ یہ ایپ‘ سرچ انجن‘ روبوٹ‘جینیاتی طور تبدیل شدہ بیج سب کے لیے خوشحالی اور مسرت کا باعث بنیں گے‘ لیکن اجرتی مزدوروں اور مالکان میں بٹے سماج میں یہ حیرت انگیز ٹیکنالوجی اجرتوں اور قیمتوں کو غیر انسانی سطحوں تک لی جاتی ہے‘ جو بالآخر سماجی بغاوتوں اور انقلابی تحریکیں کو جنم دیتی ہیں‘لیکن انسانی صلاحیتوں کو نکھارنے اور کرہ ٔارض کو بچانے کی صلاحیت رکھنے والی نئی ٹیکنالوجی انسانوں میں توقعات اور امیدیں بھی جگاتی ہے کہ دنیا بدلی جا سکتی ہے۔استحصال کے خاتمے اور خوشحالی کی خاطر ان جدید ٹیکنالوجیز اور آلات کی ملکیت کو تبدیل کرنا ہو گا۔ اسی صورت میںیہ محرومی اورذلت میں اضافے کی بجائے انسانیت کی فلاح کر سکتی ہیں۔اس کا واحد راستہ ایک منصوبہ بند سوشلسٹ معاشی نظام میں سارے سماج کی مشترکہ ملکیت ہے۔
(بشکریہ: روزنامہ دنیا)
فیس بک کمینٹ