اسلام آباد ہوٹل کے سامنے پہنچ کر ،آصف،طاہر اور میں تھک کے فٹ پاتھ پر بیٹھ گئے۔۔ہمیشہ کی طرح آصف کے ذرخیز بورژوا ذہن نے تمام تر مفلوک حالی کوپسِ پشت ڈالتے ہوئے تجویز پیش کی کہ دوستو کیوں نہ آج کی یہ شام اسی شاندار ہوٹل میں گزاری جائے؟ اور پھر جب اس ہوشربا تصور پہ ہم نے بھی تصدیق کی مہر ثبت کی اس نے اپنا بٹوہ نکال کر ہمارے سامنے رکھتے ہوئے کہا:
” میری کل متاع اس خواب کو حقیقت میں بدلنے کے لئے حاضر ہے۔”
طاہر نے بوسیدہ بٹوے کا چاک گریباں کچھ مزید چاک کیا تو دس دس کے کچھ نوٹ منہ چڑانے لگے۔۔کچھ دیر کی مایوسی اور لعن طعن کے بعد طے پایا کہ کم از کم ہوٹل کا ایک دورہ تو ضرور کیا جائے گا۔۔یہ کہتے ہم نے فی الفور اک منصوبہ ترتیب دیا اور پھر طے شدہ منصوبے کے مطابق اعتماد بھری مہذب چال چلتے لابی کی جانب بڑھے۔ اس سے پہلے کہ کاونٹر پر بیٹھی ایک خوبصورت دوشیزہ ہم سے ہماری آمد کا سببب دریافت کرتی میں نے لپک کے کہا:
"ایکسکیوز می میڈم کرنل وجاہت صاحب کچھ دیر میں تشریف لائیں گے انہیں فی الفور ہماری آمد کی اطلاع دیجیے گا۔۔”
میری بات ختم ہوتے ہی طاہر نے اس سے قلم مانگا اور ہم تینوں کے فرضی نام اس پر لکھتے ہوئے اسے تھما دیا۔ وہ ہم سے مزید کچھ نہ پوچھ پائی۔اب ہم تینوں ہال میں سجی ایک خوبصورت میز کے گردا گرد آن بیٹھے۔۔کچھ ہی دیر میں بیرا مینو کارڈ ہمارے سامنے دھرتا چل دیا جسے ہم یوں بغور پڑھتے رہے گویا طے نہ کر پا رہے یوں کہ آخر ہمیں کیا آرڈر دینا ہے؟ یہاں تک کہ بیرا ایک راؤنڈ لیتا مسکراتا ہوا ہمارے سامنے آ کھڑا ہوا ۔۔ہم نے پہلے اسے اور پھر اک دوسرے کو دیکھا۔ایسے میں آصف نے لہجے میں ایک متانت شامل کرتے ہوے کہا:
” ریسیپشن سے معلوم کیجیے کرنل شجاعت صاحب آئے۔۔؟”
اور اس سے پہلے کہ وہ کاونٹر کی جانب بڑھتا میں نے چونک کر کہا: "شجاعت نہیں وجاہت۔۔کرنل وجاہت۔۔!”
بس یوں ہر دس منٹ بعد ہم ویٹر کو یہ زحمت دیتے اور اس کی اطلاع پر گھڑیاں دیکھتے حیرت سے بھنویں سکیڑ لیتے کہ آخر کرنل صاحب کہاں رہ گئے؟ طاہر نے تو ایک آدھ مرتبہ خدا خیر ہی کرے کا جملہ ادا کرتے ہوئے پریشانی کی شدت کو مزید بڑھاوا بھی دیا۔۔کرنل صاحب کے اسی انتظار میں آس پاس کی رنگینیوں سے لطف لیتے ہم خوش گپیوں میں مصروف تھے کہ اچانک آصف نے کم و بیش اچھلتے ہوئے کہا:
” احمد فراززززز۔۔!”
اور پھر ہماری توجہ اس ٹیبل کی جانب مبذول کروائی جہاں فراز صاحب انگلیوں میں سلگتا سگار تھامے دوستوں سے خوش گپیوں میں مصروف تھے۔۔ہم تینوں موقع کو غنیمت جانتے اس ٹیبل کی طرف لپکے اور آصف نے کچھ اس والہانہ انداز میں پکارا C صاحب۔۔۔۔۔ کہ فراز صاحب بے ساختہ کھڑے ہو گئے اور آصف اور پھر ہم دونوں سے بغلگیر ہوتے ہمیں بیٹھنے کی دعوت دینے پر مجبور ہو گئے۔۔دیگر احباب نے بے تکلفی کا یہ عالم دیکھا تو اسے ایک دیرینہ تعلق سمجھتے ہوئے فی الفور چائے کے سیٹ کا آرڈر دے دیا۔۔یہ احمد فراز سے میری پہلی ملاقات تھی۔۔کچھ دیر کی رسمی گفتگو کے بعد وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔۔فراز صاحب نے قدرے مروت سے پوچھا:
” دوستو معذرت خواہ ہوں میں آپ کو پہچان نہیں پا رہا۔۔”
اور اس سوال کے جواب میں بقول یوسفی ہم خاموش ہو گئے۔۔۔۔۔!
کچھ دیر کے اس با معنی سکوت کو بھانپتے ہوے فراز صاحب گویا ہوئے:”شاید ہم پہلی بار مل رہے ہیں۔۔”
اور میں ان کے جملے میں محض اتنا ہی اضافہ کر پایا:
” نہیں شاید آخری بار۔۔۔۔۔!
فیس بک کمینٹ