شاکر شجاع آبادی وہ خوش قسمت شاعر ہیں جنہیں حکومت پاکستان کی طرف سے دو بار پرائڈ آف پرفارمنس کا اعزاز دیا گیا اور شاید یہ ریکارڈ ہمیشہ قائم رہے کہ کسی ایک فرد کو دو بار یہ اعزاز دیا گیاہو۔ ورنہ سینکڑوں کتابوں کے مصنف شعر و سخن میں بلند و بالا عمارتیں تعمیر کرنے والے اس ایوارڈ کا انتظار کرتے کرتے قبر کی تختی تک چلے جاتے ہیں۔ شاکر شجاع آبادی کی منفرد شاعری انسان کے استحصال، ہجر، درد اور اکلاپے کی آئینہ دار ہے۔ وہ بہت مقبول اور معروف شاعر ہیں۔ کلامِ شاعر بزبانِ شاعر کا اپنا لطف ہوتا ہے۔ انہیں شعر پڑھنے میں دشواری ہوتی ہے مگر اس کے باوجود ان کی شاعری نے ایک دنیا کو گرویدہ بنایا۔ جہاں ان کی مقبولیت ہر دور میں عروج پر رہی وہیں ان کی بیماری بھی تبصروں کا موضوع رہی۔ ان سے جب پہلی بار ملاقات ہوئی تو ان کا دُکھ دیکھ کر دل کانپ اٹھا۔ سوچا کاش کوئی ایسی دوا ہو جو ایک خوبصورت دل اور لطیف احساس کے مالک وجود کو توازن بخش سکے۔ لیکن کچھ بیماریاں جان کا روگ بن جاتی ہیں۔ شاکر شجاع آبادی کی بیماری بھی ایک لا علاج مرض بن گئی۔ ہر حکومت نے ان کے درد کے مداوے کی سعی کی۔ آرٹس کونسلوں، اکادمی ادبیات اور دیگر اداروں نے ہمیشہ شاکر شجاع آبادی کی بیماری اور کمزور معاشی حالات بہترکرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ پِلاک کی جانب سے انہیں پرائیڈ آف پنجاب ایوارڈ سے نوازا گیا جس کے ساتھ تین لاکھ رقم بھی تھی۔ اس کے علاوہ پِلاک نے ان کے اعزاز میں نشست اور خدمت کا کئی بار اہتمام کیا۔ ہر سیاسی جماعت نے اپنے اقتدار کے دوران کبھی رضا کارانہ ان کا خیال کیا اور کبھی سوشل میڈیا پر گردشی خبریں انہیں شاکر شجاع آبادی کے پاس لے گئیں۔سماجی رابطوں کے وسیلے یہ بات کھلی کہ پاکستان میں ہر فرد ایک منصف کی حیثیت رکھتا ہے، ایک بہترین ناقد ہے، ایک ایسا اعلیٰ تجزیہ کار ہے جسے صرف معاشرے میں پھیلی ہوئی گندگی نظر آتی ہے۔ اور گندگی نہ بھی ہو تو وہ تب بھی تلاش کر کے لفظوں کے تیر چلا سکتا ہے۔ کسی جگہ بے ہوش ہوئے بچے کی تصویر لگا کر معاشرے کو آئینہ دکھایا جاتا ہے۔ کہیں پھٹے کپڑے اور ننگے پائوں کی نمائش کر کے ذمہ داری پوری کی جاتی ہے لیکن تصویر لگانے والے سے کوئی نہیں پوچھتا، کہ اگر تم اس ایک بچے کی مدد کر دیتے اور اسےا سکول بھیجنے کے عمل میں لوگوں کو شریک کر کے کہانی بناتے تو کتنے لوگوں کو ترغیب ملتی جس سے معاشرے میں غربت اور استحصال کو ختم کیا جا سکتا ہے۔ کچھ مہینوں بعد سوشل میڈیا پر شاکر شجاع آبادی کی کوئی ایسی تصویر ضرور شیئر ہوتی ہے جو دل کو افسردہ کر دیتی ہے۔ اس بار کی تصویر نے تو دِل دہلا کے رکھ دیا۔ لوگوں نے بغیر تحقیق سرکار اور سرکاری اداروں کو کوسنا شروع کر دیا۔ اس بات میں دو رائے نہیں کہ اس ملک میں ادیب کو ابھی وہ درجہ نہیں دیا گیا جو فنون کے دیگر شعبوں کو دیا جاتا ہے۔ شاعر کا لکھا ہوا گیت گا کر ایک فنکار کروڑ روپے کما لیتا ہے لیکن شاعر کو اس کے عوض جو معاوضہ ملتا ہے وہ حوصلہ افزائی کے انعام کے برابر بھی نہیں ہوتا۔ لیکن یہ تو ہمارا مجموعی وطیرہ اور معاشرتی طرز عمل ہے کہ ہم تخلیق کار کو کتنی اہمیت دیتے ہیں۔ یہاں تک کہ فن کار کو بھی مختلف القابات سے نوازتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ کیا سماج کا کوئی کردار نہیں ہے وہ لوگ جو فن سے محظوظ ہوتے ہیں جو ادب سے اپنے ذہن کی گرہیں کھولتے ہیں ان پر کوئی ذمہ داری نہیں ہے۔ وہ صرف تصویر بنانے اور مذاق اڑانے تک محدود ہیں۔ اس ملک میں کتنے لوگ ہوں گے جو شاکر شجاع آبادی سے بھی بدتر حالت میں زندگی گزار رہے ہیں۔ ایسے سفید پوش لوگ جنھیں ہاتھ پھیلانا موت سے بدتر محسوس ہوتا ہے اور وہ امداد کے لفظ سے چِڑتے ہیں۔
شاعر معاشرے کا اعلیٰ دماغ ہوتا ہے۔ وہ دل سے سوچتا ہے، اس کی تکریم لازم ہے۔ خدا را شاکر شجاع آبادی، جو بولنے سے محروم ہے، کی آئے روز تصاویر شیئر کر کے اس کی تذلیل نہ کریں۔ اس سائیکل والے کی تلاش بھی ضروری ہے جو اپنا چہرہ چھپا کر شاعر کو ہی تماشا نہیں بناتا بلکہ ملک کی بھی تذلیل کرتا ہے۔ پنجاب کے وزیر ثقافت خیال احمد کاسترو نے شاکر شجاع آبادی کی عیادت کی اور وزیر اعلیٰ کی نیک خواہشات کے ساتھ تین لاکھ کا چیک پیش کیا۔ جو بہت اچھی بات ہے لیکن وزیر اعلیٰ پنجاب جناب عثمان بزدار سے گزارش ہے کہ شاعر شجاع آبادی کو ماہانہ وظیفے اور تا زندگی گاڑی کی سہولت دی جائے تاکہ ان کا مزید استحصال نہ کیا جاسکے۔
(بشکریہ:روزنامہ جنگ)
فیس بک کمینٹ