اللہ نے جب اس کائنات کو تخلیق کیا،زمین اور اس جیسے نہ جانے کتنے سیارے وجود میں آئے مگر انسان کے رہنے کے لیے سب سے موزوں اور بہتر زمین کو بنایا جہاں ہم بستے ہیں، سورج اور چاند بنائے جو وقت کو دن اور رات میں تقسیم کرکے اوقات کار وضع کرتے ہیں، دن کو نیلگوں آسماں کائنات میں پھیلے ہوئے اندھیروں کو ہم سے اوجھل رکھتا ہے اور رات کے وقت چاند کے ساتھ کروڑوں ستاروں کا آسمان پر جگمگانا اور زمین پر بسنے والوں کا جی لبھانا حیرت انگیز ہے۔ ہماری زندگی اور کائنات کی بقا ایک قاعدے اور ضابطے کی پابندی میں مضمر ہے۔ وہ قاعدہ اعتدال کا ترازو ہے یعنی ہر حال میں اعتدال کو مقدم رکھنا۔ توازن بگڑنے سے نظام بگڑتا ہے۔ انسان نے جب صنعتی ترقی کو اپنا مقصد بنایا تو زمین میں موجود سارے ممکنہ وسائل کو اس میں جھونک دیا، ہر ملک کی کوشش تھی کہ وہ زیادہ صنعتی پیداوار کر کے زیادہ منافع کمائے مگر اس صنعتی ترقی نے ہمارے اس خوبصورت سیارے کے حُسن کو گہنا دیا، اس کی فضاؤں کو گدلا کر دیا، اس کی زمینوں کو بنجر کر دیااور اس کے پانیوں کو زہریلا کر دیا۔
ایسا ہی کچھ ہمارے وطن پاکستان میں بھی ہوا۔ آج فضائی آلودگی کے اعتبار سے کراچی اور لاہور دنیا کے پانچ سب سے زیادہ آلودہ شہروں میں شمار ہوتے ہیں اور سال کے کچھ مہینے فضائی آلودگی میں لاہور پہلے نمبر پر ہوتا ہے۔ اس سے بھی زیادہ خراب صورتحال پانی کی ہے جسے ہم نے فیکٹریوں کے گندے فضلے اور شہروں کے سیوریج سے بھر بھر کر شدید زہر آلود کر دیا ہے۔ آج جہاں ہمارے اکثر و بیشتر دریاؤں اور جھیلوں میں آبی حیات نہ ہونے کے برابر ہے، وہیں انسانوں کے پینے کے لیے میسر میٹھے پانی کے ذخائر بھی بہت کم ہو چکے ہیں۔ حالیہ دنوں ایک بین الاقوامی جریدے نے پاکستان کو میٹھے پانی کی کمی کا سامنا کرنے والے ممالک میں تیسرے نمبر پر رکھا، یہی پاکستان جہاں 1961ء میں ہر شخص کے لیے کم و بیش 4 ہزار کیوبک میٹر پانی میسر تھا، آج آبادی کے بے ہنگم اضافے اور آبی آلودگی کے باعث یہ لیول ایک ہزار کیوبک میٹر سے بھی کم پر آ چکا ہے۔ آئی ایم ایف کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان اس وقت پانی کے بحران کا شکار ہے، 2025ء کے بعد یہ سنگین بحران کی صورت اختیار کر جائے گا اور اگر اس بارے میں مؤثر حکمت عملی نہ بنائی گئی تو 2040 میں پاکستان میں پینے کا صاف پانی میسر نہیں ہو گا۔
دیکھا جائے تو یہ صورتحال بہت ہی خطرناک ہے۔ جہاں ایک طرف مستقبل میں ممکنہ طور پر پیش آنے والے سنگین حالات کا سامنا ہے تو دوسری طرف اس آلودہ پانی کے استعمال سے بہت سے لوگ اپنی جانیں گنوا رہے ہیں کیونکہ یہ پانی معدے، جگر کی خرابی کا باعث بن رہا ہے جبکہ اس کی وجہ سے جِلدی امراض میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ آج یومِ ماحولیات ہے۔ اسے یوم مخولیات کہا جائے تو زیادہ مناسب ہو گا اس لیے کہ سب سے زیادہ نظر انداز کیا جانے والا شعبہ یہی ہے۔ پوری دنیا میں ماحولیاتی تبدیلیوں کا منفی اثر موسموں کی شدت اور آلودگی کی شکل میں سامنے آرہا ہے۔ امریکہ، چین، ہندوستان اور دیگر صنعتی ممالک کی صنعتی آلودگی ماحول کو خراب کرنے کی بڑی وجہ ہے۔ جغرافیائی محل وقوع کے باعث پاکستان ماحولیاتی تبدیلیوں سے متاثر ہونے والوں دس ممالک میں شامل ہے۔ ہمارے گلیشئر پگھل رہے ہیں، جنگلوں میں آگ لگ رہی ہے۔ گرمیوں میں شدید گرمی اور سردیوں میں ایسی شدید سردی پڑنے لگی ہے جو یہاں کے باشندوں اور فصلوں کیلئے ناقابلِ برداشت ہے۔ اس بار سخت گرمی کے باعث آم کی پیداوار میں 30فیصد کمی ہوئی ہے۔ پانی کی کمی کے باعث پاکستان میں چاول کی کاشت والے زیادہ تر رقبے پر چاول کاشت ہی نہیں ہو سکا جو آنے والے دنوں میں ایک اور بحران کی شکل اختیار کرےگا۔سوال یہ ہے کہ کیا ہماری کاوشوں سے ماحول کو بہتر بنایا جا سکتا یانہیں۔ میں سمجھتی ہوں ایسا ممکن ہے۔ ہمیں فوری اور ہنگامی بنیادوں پر کچھ اقدامات کرنا ہوں گے۔ یہ کام صرف گورنمنٹ کے متعلقہ محکموں تک محدود نہ ہو بلکہ ہر فرد اسے اپنی ترجیح بنائے اور انفرادی و اجتماعی حوالے سے اس پر کام ہو۔ ورنہ ہماری بقا کے لیے سنگین مسئلہ پیدا ہو جائے گا۔ پاکستان میں ستر فیصد سے زائد بیماریاں پانی کی آلودگی سے ہوتی ہیں۔ انڈسٹری والے فاضل مادے کو ٹریٹ کئے بغیر نالوں میں پھینک دیتے ہیں جس سے صاف پانی آلودہ ہو جاتا ہے۔ پانی ماحول کو صاف ستھرا رکھنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ زراعت کے شعبے میں بہت تحقیق ہوچکی ہے۔ اب اس پر عمل کا وقت ہے ورنہ آنے والے دنوں میں ہم موسمی شدت کے ساتھ ساتھ غذائی قلت کا بھی شکار ہو جائیں گے۔ اب ان مسائل سے نمٹنے کے لیے جہاں ممکن ہو نئے جنگلات لگائے جائیں، موٹر ویز اور دیگر شاہراہوں کے اطراف پھل دار درخت لگائے جائیں جن سے نہ صرف موسمی پھل حاصل ہوں گے بلکہ شاہراہوں پر خوبصورت منظر سفر کو خوشگوار بنائے گا۔ فیکٹریوں کے فضلے کو خارج کرنے سے پہلے اس کو پراسس کیا جائے تا کہ یہ ہمارے میٹھے پانیوں کے ذخائر کو زہریلا نہ کرے۔ ایسی فصلیں اُگانی ہوں گی جو کم پانی لیں اور ہماری موسمی شدت کو برداشت کر سکیں۔ سرکار اس حوالے سے سخت قانون سازی کرے اور لوگوں کو اس حوالے سے میڈیا کے ذریعے آگاہی دے تاکہ ہر فرد اس حوالے سے اپنا کردار ادا کر سکے تب ہی ہم اپنے اس گلستان کو مزید اُجڑنے سے بچا سکتے ہیں اور اسے پھر سے ہرا بھرا کر سکتے ہیں۔
(بشکریہ: روزنامہ جنگ)
فیس بک کمینٹ