ہجوم بے کساں تھا
سہما سہما، کھویا کھویا
نظر میں رَت جگوں کا زہر تھا اور نیند کا مارا ہوا دِل
لباسِ بے بسی کے تار چُنتا پھِر رہا تھا
لُغاتِ فکر کے حرف و معانی ہی بدل ڈالے تھے اک جبرِ مسلسل نے
عجب تھے روز و شب گلشن کے تاحدِّ نظر تیرہ شبی تھی
ہیولے سے لرزتے پھِر رہے تھے وحشتوں کی راہداری میں
اور عکسِ ذات بھی معدوم ہوتا جا رہا تھا دھند کے ہاتھوں
پرندے آس کے احرام باندھے باوضو محوِ دُعا تھے
کہ اک مدت سے شاخِ آرزو پر موسمِ گل نے
کوئی دستک نہیں دی تھی
طلسمِ جبر ایسا تھا
کہ شاخیں رقص کرنے سے گریزاں تھیں
دِلوں میں خوف کی فصلیں اُگانے والے بنجر ہاتھ
پھر نَورستہ کلیوں کے لہو سے تر بہ تر ہونے کی
تیاری میں شامل تھے
اچانک موسمِ گل نے
درِ زنداں پہ دستک دی
ہوا نے پیرہن بدلا
درختوں پر شگوفوں نے گلابی آیتیں لکھیں
بدلتے منظروں کی دلکشی میں خواب
تعبیروں کے چُنگل سے رہا ہو کر
فقط اک حرفِ شیریں کی ادا سے یوں چہک اٹھے
کہ نظمِ رنگ و بو بدلا
پرندوں کی اُڑانوں میں ابھی صیاد کا کھٹکا تو ہے پھر بھی
نئے موسم نے وعدوں کی سنہری پوٹلی پلکوں پہ رکھ دی ہے
کہ ہم امید کے بھیگے ہوئے موسم
کی بارش میں نہائیں گے
نئے سورج اگائیں گے
نئی دھرتی بنائیں گے
ہم نے ایک تاریک دور جھیلا ہے مگر آج بہت کچھ بدل چکا ہے۔ مرد اور عورت کیلئے اخذ کئے گئے حاکم و محکوم کے تصورات نئے مفہوم میں ڈھل چکے ہیں۔ دنیا نے عورت کی دانش کو خوش آمدید کہنے کا آغاز کر دیا ہے۔ برتر اور کمتر کے معیار کا تعین کرنیوالے پیمانے مسلسل ٹوٹتے جا رہے ہیں۔ عورت کی دانش، حیثیت اور جداگانہ تشخص کو جھٹلانے والی سوچ فرسودہ ہو چکی ہے۔ ایک دور تھا جب مرد عورت مسابقت کی دوڑ میں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی طرف مائل تھے مگر اب زندگی نے انہیں لایعنی بکھیڑوں میں توانائیاں صرف کرنے کی بجائے انسان کی حیثیت سے جینے پر قائل کر لیا ہے۔ میڈیا اور سوشل میڈیا نے ترقی پذیر ممالک کے عوام کو ترقی یافتہ ملکوں کی طرح انسانیت کے کُنبے سے جُڑنے کی طرف مائل کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مرد و عورت کی اکثریت آپسی موازنے، مقابلے اور حقوق و فرائض کی مباحث میں اُلجھ کر حیات کا چہرہ ملول کرنے میں وقت ضائع نہیں کرتی بلکہ خوشی اور روشنی کا مل کر پیچھا کرنے کی طرف راغب نظر آتی ہے۔ آج کی مائیں اور باپ بھی بیٹوں اور بیٹیوں میں کوئی تفریق روا نہیں رکھتے۔ گھر سے شروع ہونیوالی تربیت معاشرے پر اثرانداز ہوتی ہے۔ میڈیا بھی اس حوالے سے اپنی ذمہ داریوں سے پوری طرح آشنا ہے۔ عورت کے استحصال سے جڑی منفی رسمیں دن بدن خاتمے کی طرف بڑھ رہی ہیں۔ جدید ٹیکنالوجی تک ہر فرد کی رسائی سے خواتین کے استحصال کی شرح کم ہوتی جا رہی ہے کیوں کہ ہر فرد کو اپنے حقوق کی آگاہی حاصل ہو رہی ہے۔ آج معاشرے نے عورت کی تعلیم، ووٹ اور رائے کے احترام کا حق تسلیم کر لیا ہے اور اس کا عملی مظاہرہ لڑکیوں کے بے شمار ا سکولوں میں انکی بڑھتی ہوئی تعداد اور استعداد کا مظاہرہ ہے۔ مرکزی اور صوبائی حکومتوں نے بھی پوری نیک نیتی سے عورتوں کو درپیش مسائل اور انکی ترقی کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے کے لئے قانون سازی کی ہے۔ والدین بھی بچیوں کی تعلیم و تربیت کے ساتھ ساتھ ان کی ملازمت کے حق میں بات کرتے نظر آتے ہیں۔ یہ کوئی چھوٹی تبدیلی نہیں۔ تبدیلی کا یہ سفر جاری ہے کیوں کہ ایک دن میں پورا منظر نامہ نہیں بدل سکتا۔ ہمارا معاشرہ بتدریج ترقی کی طرف گامزن ہے اور ہر شعبۂ حیات میں آگے بڑھتا دکھائی دے رہا ہے۔ یہ وہی معاشرہ ہے جہاں مرد و زن کی اکثریت نے ایک عورت کو وزیراعظم بنا کر نہ صرف اُسے معتبر مانا بلکہ اس کی تعظیم اور دانش کی گواہی دی اور پوری دنیا کو بتایا کہ پاکستانی قوم روشن خیالی پر یقین رکھتے ہوئے عورت کو خوشی سے حکمراں منتخب کرتی ہے جب کہ امریکہ جیسے ترقی یافتہ ملک میں ابھی تک کوئی عورت ملک کی سربراہ نہیں بن سکی۔ کیوں کہ ابھی پاکستان میں خواندگی کا معیار سو فیصد نہیں اس لئے ابھی کچھ ذہنوں میں ابہام، تفریق اور استحصال موجود ہے۔ بہت کچھ ہے جو دکھ دینے والا ہے اور اس کا زیادہ تر دارومدار کچھ لوگوں کے منفی رویوں اور دقیانوسی سوچ پر ہے لیکن انفرادی منفی رویوں کو پورے معاشرے کی سوچ قرار ددے کر روشنی کے سفر کو جھٹلایا نہیں جا سکتا۔ روشنی کی کرنیں ایک نہ ایک دن تاریک غاروں تک بھی رسائی حاصل کر کے رہتی ہیں اس لئے اُمید رکھنی چاہئے کہ وقت کے ساتھ ساتھ وہ لوگ بھی اپنی سوچ کا دھارا بدلنے کی طرف چلیں گے جو ابھی مخالف سمت میں کھڑے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ مائیں اپنی اولاد کی تربیت ان انسانی قدروں پر کریں جہاں تفریق کی گنجائش ہی نہ رہے۔ بیٹیوں کو ڈرانے دھمکانے اور کمزور ہونے کا تاثر دینے کی بجائے انہیں اعتماد سے زندگی کی رہگزر پر چلنے کا سلیقہ سکھایا جائے۔ ان کی رائے کو اہمیت دی جائے۔ آج کا سورج نئی امید لے کر طلوع ہوتا دکھائی دیتا ہے جس میں عورت کو اہمیت دی جاتی ہے ہے۔ سنہری وعدوں کی پوٹلی سورج کی کرنوں پر رکھی دکھائی دیتی ہے۔ اسی پوٹلی میں ہمارے لئے کچھ خواب بھی پڑے ہیں جنہیں ہمیں اپنی پلکوں پر سجا کر زندگی کو دیکھنا ہے اور راستوں کا تعین کرنا ہے۔
(بشکریہ : روزنامہ جنگ)
فیس بک کمینٹ