اس بار سردیوں کے موسم نے لاہور میں اپنا قیام مزید مختصر کر دیا۔ آٹھ مہینے سے رستہ دیکھتی، ٹھنڈک کے احساس سے لبریز ماحول کو ترستی آنکھیں جی بھر کر دیدار بھی نہ کر پائیں حتیٰ کہ حال احوال پوچھنے کا مرحلہ بھی صحیح طور طے نہ ہوا۔ نئے فیشن اور رنگ ڈھنگ کے کوٹ جرسیاں پہننے کی نوبت ہی نہ آئی۔ شکر ہے کچھ دن گرم کپڑوں کی سنی گئی۔ آخر انسان اور وہ بھی پاکستان کا، جہاں موسموں اور کلچر کی رنگا رنگی مزاج میں بسی ہو، تنوع اور تبدیلی کا خواہاں رہتا ہے۔ اب بندہ موسم کا ہاتھ پکڑ کر پاؤں پڑ کر ٹھہرنے پر مجبور تو کر نہیں سکتا مگر قیاس کیا جا سکتا ہے۔ سیاسی گرما گرمی کی وجہ سے درجہ حرارت میں حیرت انگیز تبدیلی ہوئی۔ ہر شخص غصے میں، کیا لیڈر کیا کارکن، سب کی شکایات کے انبار، سب کے لبوں پر مخالف فریق کے لئے نازیبا الفاظ اور آنکھوں میں شدید نفرت کے شعلے جو نہ صرف انسان کی اپنی ذات کو نقصان پہنچاتے ہیں بلکہ ماحول پر بھی اثرانداز ہوتے ہیں۔ ایک ایسی فضا جس میں کوئی بھی دوسرے کو قبول کرنے کو تیار نہیں۔ اس کے افکار و نظریات تو ایک طرف ایک دوسرے کے وجود سے ہی مُنکر، ایسے میں وہ موسم کیسے ٹھہرتا جسے وصل کا، احساس کا، لگن کا اور اپنائیت کا موسم کہا جاتا ہے۔ جب کسی کے پاس اس موسم سے کلام کرنے کی فرصت ہی نہ ہو، موسم سے کلام اسی وقت ہوسکتا ہے جب انسان اپنی ذات سے رجوع کرے کیوں کہ انسان کا باطن فطرت سے جڑا ہوا ہوتا ہے۔ موسم انسان کو محبت کے رویوں کی طرف راغب کرتا ہے۔ وہ دل میں احساس جگاتا ہے تو ہر لہجے پر نثار ہونے والے گیت جنم لیتے ہیں، فضا میں سُر بکھرتے ہیں، شاعری تخلیق ہوتی ہے، رنگ تصویروں کا رُوپ دھار کر نئی شکل میں سامنے آتے ہیں، وقت کے ساتھ ساتھ زندگی کی گوناگوں مصروفیات انسان کو احساسات کی دنیا سے دور کر دیتی ہیں مگر مکمل رابطہ منقطع کرنے سے انسان مشین بن جاتا ہے۔ فیض جیسے شاعر کو بھی ہنگامۂ شب و روز نے محبت کے بارے میں نظریات پر نظر ثانی پر مجبور کر دیا مگر اُس نے ہزار مصائب کے باوجود محبت ترک نہیں کی بلکہ پہلی سی محبت یعنی ہر لمحے محبت کے احساس میں رہنے کے مقام سے ہٹنے پر محبوب کو قائل کرنے کی کوشش کی۔ موسم اور دل کا آپس میں گہرا تعلق ہوتا ہے۔ درخت، پھول، پودے، دُھند، ہوا، بارش، چاندنی باتیں کرتے ہیں، شرارتیں اور اٹکھیلیاں کرتے ہیں۔ ان کی بات نہ سنی جائے، ان کی تعریف و توصیف نہ کی جائے اور ان کے ناز نخرے نہ سہے جائیں تو یہ کوچ کر جاتے ہیں، ان صداؤں کے تعاقب میں جو انہیں اپنے آنگن میں آنے اور ٹھہرنے کا پیغام بھیجتی ہیں، ان مقامات کی جانب جو ان کی پذیرائی کرتے ہیں۔
ترقی یافتہ دنیا مادیت پرست ہونے کے باوجود اپنے دل کی سرشاری کے لئے وقت کی جھولی سے کچھ لمحے بچا کر اپنی جیب میں محفوظ کرنا نہیں بھولی۔ تعطیلات میں وہ ہماری طرح گھر بیٹھنے اور بے سود سرگرمیوں میں وقت ضائع کرنے کی بجائے فطرت کے حسین نظاروں کی دریافت اور اُس کے حُسن کو خود میں جذب کر کے تازگی کا سامان کرتے ہیں۔ ہم اتنے مادیت پرست نہیں مگر لایعنی بحث و مباحثے، الجھنیں اور سیاسی بُخار ہمارا بلڈ پریشر بڑھائے رکھتا ہے، ہر لمحے کو ہم نے فکر کی سولی پر چڑھا رکھا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ ہماری گفتگو بھی فقط ایک موضوع تک سمٹ گئی ہے۔ اٹھتے بیٹھتے، سوتے جاگتے سیاست ہماری فکر، مزاج اور احساسات پر قبضہ کر چکی ہے جس سے ہمارا رویہ بالکل قیدیوں کی طرح ہو گیا ہے جو کبھی آہ و زاری کرتے ہیں، کبھی خاموشی اختیار کر کے اداسی کی تصویر بن جاتے ہیں اور کبھی بے وجہ دوسروں سے تکرار اور جھگڑا شروع کر دیتے ہیں۔ ہم سب کو حق تلفی، کمی، محرومی اور زیادتی کا مرض لاحق ہے۔ ہم ہر پل کوئی نہ کوئی شکوہ فضا میں اچھال کر ماحول، نظام اور زندگی سے اپنی بیزاری کا اظہار کرتے ہیں۔ جو ہے اس کی طرف ہماری توجہ ہی نہیں۔ جو چھن گیا ہر وقت اس کا رونا ہے حالانکہ اگر نعمتوں کی طرف توجہ کی جائے تو ہمارے پاس ایک آزاد ملک ہے، سماجی نظام ہے، قوانین ہیں اور لاکھ کوتاہیوں کے باوجود ہم ایک مہذب معاشرے کے باسی ہیں، بتدریج ہمارا نظام بہتری کی طرف گامزن ہے، دو جمہوری ادوار مکمل ہو چکے ہیں جو بہت خوش آئند تبدیلی اور جمہوری قدروں کی ترقی ہے۔ اب ایک دم صدیوں کا فاصلہ طے کرنا تو مشکل ہے۔ اس کے لئے جدوجہد اور صبر لازم ہے اور اس کے ساتھ ساتھ جو حاصل کیا، جو عنایت ہوا اس کا شکر ادا کرنا ازحد ضروری کیوں کہ جب نعمتوں کا شکر ادا نہ کیا جائے تو وہ روٹھ جاتی ہیں یا چھین لی جاتی ہیں۔ صرف اس ایک نکتے پر زندگی مرکوز کر لی جائے تو بہت سی اذیتوں سے چھٹکارا حاصل ہو سکتا ہے۔ جنوری میں سردی کے چند دنوں کے دوران اپنے سرکاری گھر کے ٹھٹھرتے در و دیوار میں بیٹھے میں نے دل میں سوچا کہ کاش ایسا گھر ہو جہاں دھوپ آئے، تھوڑی دیر بعد میں گاڑی میں بیٹھی تو شیشے سے چھن کر آنے والی دھوپ بہت بھلی لگی۔ دفتر پہنچی تو ایک لمبی راہداری سے گزرتے دھوپ سے ملاقات رہی۔ میں نے فوراً خدا کا شکر ادا کیا اور اپنے گزشتہ خیال پر تاسف بھی کہ میں نے اس طرح کیوں سوچا۔ شکر کی ادائیگی کے ساتھ ہی میرا وجود خوشی کے احساس میں ڈھل گیا۔ ایک طمانیت مجھے مضبوط کرتی ہوئی میرے دل میں سما گئی۔ حیران ہوتی ہوں جب بار بار اعلیٰ عہدوں پر متمکن رہنے والے لوگ شکوہ کرتے نظر آتے ہیں۔ شکر ہے سینیٹ کے انتخابات کا مرحلہ طے ہونے کے بعد جمہوری عمل مکمل ہوا اور بہت سی افواہوں کا خاتمہ ہوا۔ بلوچستان سے چیئرمین سینیٹ منتخب ہونا کوئی انہونی بات نہیں۔ انتخابات میں ہمیشہ جوڑ توڑ ہوتا چلا آیا ہے اور اسے بھی سیاست کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔ یہ کوئی پہلا موقع نہیں، ماضی میں بھی مختلف ہم خیال سیاسی جماعتیں اور مخالف فریق جیتنے کے لئے اتحاد بھی کرتے رہے ہیں۔ جمہوریت کی بقا کو کسی خاص شخصیت سے منسلک کرنے کے بجائے اداروں اور نظام کے استحکام کے لئے فکرمند ہونا زیادہ ضروری ہے۔ ادارے اچھے ہیں یا برے ہیں تو ہمارے۔ ان میں بیٹھنے اور فیصلے کرنے والے لوگ بھی ہم میں سے ہی ہیں۔ ہم ان کی کارکردگی پر سوالیہ نشان اسی وقت ثبت کر سکتے ہیں اور تنقید کا نشانہ بھی بنا سکتے ہیں جب سیاست دان ہر طرح کے عیبوں سے کم از کم ستر فیصد ہی پاک ہوں۔ جب تک سیاستدان اپنی تطہیر نہیں کر لیتے تب تک دوسرے اداروں اور افراد کو بھی نظرانداز کریں اور ہر گھڑی شکوے کرنے کی روش ترک کر دیں۔ تھوڑی سی گرمی سردی اور تلخی برداشت کرنے کا رواج بھی ڈالیں۔ پوری دنیا میں ملکی وقار کو زیر بحث لانے کی بجائے اگلے انتخابات کی طرف بڑھیں اور اس میں بھی شکایات اور الزام تراشی کی بجائے کارکردگی کی فہرست مرتب کرنے پر زور دیں۔ بالآخر بڑی سوچ بچار اور انتظار کے بعد میاں شہباز شریف کو پارٹی کا صدر بنا دیا گیا ہے۔ امید ہے مستقبل میں مزید اچھی خبریں سننے اور شکر کرنے کا موقع ملے گا۔
رَت جگوں کے موسم میں خواب کون دیکھے گا
کھوئی کھوئی آنکھوں میں چاند کیسے اترے گا
وہ جسے بھروسے کی چابیاں تھمائی تھیں
کب یہ جانتی تھی میں در بدر وہ کر دے گا
آس کے جزیرے سے اک صدا ابھرتی ہے
قافلہ محبت کا اب اِدھر سے گزرے گا
(بشکریہ: روزنامہ جنگ)
فیس بک کمینٹ