9 مارچ 2018ءکے اخبارات میں جب مطالعہ کیا تو معلوم ہوا کہ آج نامور گائیک پٹھانے خان کو ہم سے بچھڑے 18 برس بیت گئے۔ کسی ٹیلیویژن پر اُن پر تیار کردہ ایک پیکیج دیکھ رہا تھا جس میں اُن کے حالاتِ زندگی اور درمیان میں اُن کی گائی ہوئی کافیاں دکھائی جا رہی تھیں۔ رات کو برادرِ من اسرار احمد چوہدری کے ساتھ لانگ ڈرائیو پر نکلا تو مست ایف ایم 103 پر اُن کی یاد میں ایک پروگرام نشر ہو رہا تھا اُس پروگرام کو سنتے ہوئے مجھے بھی یاد آگیا کہ ہم 10 مارچ 2000ءکی صبح ہم ڈیرہ غازی خان کی طرف رواں دواں تھے۔ ڈاکٹر عباس برمانی ڈرائیونگ سیٹ پر تھے۔ گاڑی کی اگلی سیٹ پر مستنصر حسین تارڑ بیٹھے تھے۔ گاڑی کی پچھلی نشستوں پر رضی الدین رضی، شیخ محمد بقاءاور راقم موجود تھے۔ جیسے ہی گاڑی نے ملتان کی حد کو خیرباد کہا تو مستنصر حسین تارڑ نے کہا یار برمانی تمہاری گاڑی تو مجھے پابندِ شرع لگ رہی ہے اگر کوئی گانا نہیں سنوانا تو قوالی یا کافی ہی لگا دو۔ نیند میں ڈوبی آواز میں عباس برمانی نے جواب میں صرف یہی کہا ”مرشد“ آج کا دن واقعی ہی کافی سننے کا ہے کہ کل کافی کا نامور گائیک پٹھانے خانے طویل علالت کے بعد انتقال کر گیا ہے۔ اس وقت پٹھانے خان کی تدفین کی جا رہی ہے۔ یہ کہتے ہی برمانی خاموش ہو گیا اور ہماری گاڑی میں پٹھانے خان کی خوبصورت آواز نمایاں ہو گئی اور خواجہ فرید کا یہ کلام ہمارے کانوں میں رس گھولنے لگا:
میڈا عشق وی توں میڈا یار وی توں
میڈا دین وی توں ایمان وی توں
ڈیرہ غازی خان میں ہم نے ڈاکٹر عباس برمانی کی پہلی کتاب ”کیلاش کتھا“ کی تعارفی تقریب میں شرکت کرنا تھی۔ پٹھانے خان کی آواز سنتے ہی گاڑی میں خاموشی چھا گئی کہ ابھی پٹھانے خان کو فوت ہوئے چوبیس گھنٹے بھی نہیں ہوئے تھے۔ تارڑ صاحب نے برمانی سے پوچھا یار ڈاکٹر کیا ہم پٹھانے خان کے جنازے میں شریک ہو سکتے ہیں؟ اس سے پہلے کہ برمانی جواب دیتا تو رضی نے لقمہ دیا ہم ایک وقت میں دو جگہوں پر نہیں جا سکتے۔ بہتر ہے کہ ہم ڈیرہ غازی خان چلتے ہیں جہاں پر سینکڑوں لوگ آپ کے منتظر ہیں۔ البتہ آپ وہاں اپنی تقریر میں پٹھانے خان کو خراجِ تحسین پیش کر دیجئے گا۔ ٹھیک ہے ہم کوٹ ادّد کی بجائے ڈیرہ غازی خان چلتے ہیں۔ ڈاکٹر عباس برمانی نے گاڑی کی رفتار کو مزید بڑھاتے ہوئے اپنا فیصلہ سنا دیا۔ اس گفتگو کے پس منظر میں پٹھانے خان کی کافی اب ان اشعار پر پہنچ چکی تھی:
میڈا ڈکھ سکھ روون کھلن وی توں
میڈا درد وی توں درمان وی توں
میڈی خوشیاں دیاں اسباب وی توں
میڈے سولاں دا سامان وی توں
یہ سنتے سنتے مَیں چشمِ تصور میں ریڈیو پاکستان ملتان پہنچ گیا جہاں پٹھانے خان سے اکثر ملاقات ہو جایا کرتی تھی۔ کچھ نشستیں ملتان آرٹ کونسل کے آڈیٹوریم میں بھی ہوئیں۔ ایک دن مَیں نے ان سے پوچھ لیا خان صاحب گائیکی کی طرف کیسے آنا ہوا؟ درویش صفت فنکار نے جواب دیا ہمارا آبانی کام تو ظروف سازی تھا۔ ایک دن مٹی کے چاک پر بیٹھا برتن بنا رہا تھا کہ قریب سے اﷲ کا بنایا ہوا شاکار گزرا۔ وہ اگرچہ ایک لمحے کے لیے میرے قریب سے ہو کر آگے بڑھ گیا لیکن میرے اندر کے من میں اپنی لگن کا پودا لگا گیا۔ اس کے بعد مَیں مٹی کے چاک سے اٹھا اور اس شاہکار کی کھوج میں راگ الاپنے لگا۔ مَیں نے سُروں میں اس کا چہرہ تلاش کرنا شروع کیا۔ دنیا کو خیرباد کہا اور فن کی دنیا میں آ گیا۔ گلے میں منکے ڈالے، اپنی خوراک میں بھنگ کے پتوں کو شامل کیا اور گلی گلی کوچہ کوچہ صدا لگا نے لگا:
میڈا عشق وی توں میڈا یار وی توں
میڈا دین وی توں ایمان وی توں
پٹھانے خان کے گلے میں اﷲ نے ایسا سوز رکھا تھا کہ کبھی ان کی آواز مجھے مندر میں بجنے والی گھنٹیوں کی آواز سے مشابہ لگتی تو کبھی وہ آواز سات سُروں کا بہتا دریا لگتی۔ کبھی پٹھانے خان کے سُر مجھے اپنی ڈار سے بچھڑنے والی کونج کی آواز لگتی کہ جدائی کی آواز کا درد بھی اپنا ہوتا ہے۔ کبھی پٹھانے خان کی آواز مجھے حضرت شاہ شمس سبزواری کے مزار پر دھمال پر مجبور کرتی تو کبھی ان کی آواز مجھے مادھو لعل حسین کے مزار کے ملنگوں کے ساتھ حال ڈالنے کے لیے کہتی۔ کبھی وہ آواز مجھے لعل شہباز قلندر کے دربار کی زیارت کے لیے لے جاتی تو کبھی چودھویں کے چاند کی روشنی میں پٹھانے خان یہ کہتے ہوئے یاد آئے:
حسن نگر ڈوں تھیم روانہ
یا رب توڑ پچائیں
منگاں دُعائیں اﷲ سائیں
وچھڑیا ڈھول ملائیں
پٹھانے خان کی ساری زندگی سادگی کے تمام اصولوں کے گرد گھومتی رہی۔ لباس، گفتگو، چال ڈھال حتیٰ کہ جب اس درویش کے سامنے کسی نے ہاتھ پھیلایا تو وہ اپنی جیب خالی کر دیتا تھا۔ ریڈیو ملتان کے شعبہ¿ موسیقی کے سابق انچارج آصف خان کھیگران راوی ہیں کہ ہم ان کی ریکارڈنگ کے بعد اوپن چیک دے دیتے۔ پٹھانے خان ریڈیو ملتان سے بینک تک کا رکشہ کراتے، رکشے والے کوکہتے کہ ذرا ٹھہر جاؤ مَیں چیک کیش کروا کر واپس آتا ہوں۔ جیب میں مبلغ چھ سو روپے کی خطیر رقم ڈالتے، واپس ریڈیو آتے اور ریڈیو ملتان کے گیٹ پر رکشے والے کو سو روپے کا نوٹ دے کر یہ کہتے کہ مجھے معلوم ہے کہ کرایہ تو آنے جانے کا تیس روپے بنتا ہے لیکن آج ہماری جیب میں بہت پیسے ہیں اور یہ کہہ کر آگے بڑھ جاتے۔ ریڈیو ملتان میں داخل ہوتے ہی دائیں طرف کینٹین پر جا کر اپنے سازندوں میں بقایا رقم تقسیم کر کے ایک مرتبہ پھر ریڈیو ملتان کی عمارت میں داخل ہو جاتے اور اپنے کسی دوست سے کوٹ ادو واپس جانے کے لیے اُدھار کرایہ مانگ رہے ہوتے۔ اگر ان سے پوچھا جاتا کہ چیک کی رقم کا کیا بنا تو جواب دیتے مجھ سے زیادہ بھی کچھ مستحق ساتھی تھے مَیں نے ان کو دے دیئے ہیں۔ خودداری اتنی تھی کہ جس سے جتنے پیسے اُدھار لیتے اگلی مرتبہ اتنے پیسے گھر سے لے کر آتے۔ پہلے قرضہ دیتے پھر کافی کی ریکارڈنگ کراتے۔ ان کی آواز نے ایوانِ صدر سے کر وزیراعظم ہاؤ س تک کا سفر کیا۔ لیکن دستِ طلب کبھی نہ پھیلایا کہ اسے معلوم تھا کہ جو اس کے پاس آئے گا وہ تقسیم کر دے گا۔ جمع کرنا اس نے سیکھا ہی نہیں تھا۔
1920ءکو ضلع مظفرگڑھ کے نواحی علاقہ سنانواں کے ایک قصبہ ”تبووالہ“ میں پیدا ہونے والے بچے کا نام ”غلام محمد“ رکھا گیا۔ اس بچے کی پیدائش کے بعد اس کے والدین کوٹ ادو منتقل ہو گئے۔ ابھی اس بچے کی عمر صرف تین سال تھی کہ غلام محمد کو بیماری نے آن لیا۔ دوا دارو کیا لیکن شفا نہ ملی۔ والدین اس کو مرشد کے پاس لے گئے۔ مرشد نے کہا بچے کا نام تبدیل کیا جائے پھر والدین نے مرشد کے کہنے پر بچے کا نام پٹھانے خان رکھ دیا۔ ساتویں جماعت تک سکول گئے پھر مالی وسائل آئے آئے تو والد نے اپنے ساتھ برتن بنانے پر کھڑا کر لیا۔ حالات ایسے تھے کہ سکول چھوڑ کر روزگار کی طرف آنا پڑا۔ کچھ ہی عرصے بعد والد کا انتقال ہو جاتا ہے، برتن بنانے میں جی نہ لگتا تھا۔ جب چاک پر گیلی مٹی گھومتی تو وہ چاک کی رفتار کے ساتھ سُر لگانا شروع کر دیتے۔ نتیجہ یہ ہوا برتن بے سُرے ہونے لگے البتہ پٹھانے خان کی آواز میں سُر کا جادو اپنے رنگ جمانے لگا۔ گھر میں جب فاقے ہوئے تو ماموں نے آموں کا ٹوکرا بھر کر دیا۔ جاؤ بازار میں اسے فروخت کرو۔ سر پر آموں کا ٹوکرا اٹھایا تو سُر کا جادو گائیکی کی طرف لے گیا۔ ٹوکرا سائیڈ پر رکھا۔ گانا شروع کر دیا۔ وجد طاری ہوا تو آنکھیں میٹ کر اپنے محبوب کی تصویر کو سوچ کر گاتے رہے۔ لوگوں نے آموں کا ٹوکرا خالی کر دیا لیکن ان کے فن کی جھولی بھر چکی تھی۔ پٹھانے خان کی آواز سنتے ہی لوگوں نے مشورہ دیا کہ اسے موسیقی کی باقاعدہ تعلیم دی جائے۔ ڈیرہ غازی خان کے استاد قاضی سے موسیقی سیکھنے کا آغاز کیا تو لوک اور کلاسیکل موسیقی سیکھنے میں دلچسپی ظاہر کی۔ عالم لوہار، عنایت حسین بھٹی اور دیگر گلوکاروں کی طرح تھیٹرز میں کام کیا۔ اُردو، سرائیکی، ہندی، سنسکرت اور فارسی زبان سے آشنائی کے لیے کتابوں کا سہارالیا۔ پہلی مرتبہ 1955ءمیں کوٹ مٹھن میں حضرت خواجہ غلام فرید کے عرس پر اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔ یہاں بڑی مشکل سے ان کو گانے کی اجازت ملی کہ اُس محفل میں مہان گائیک موجود تھے۔ پٹھانے خا ن نے جب ”میڈا عشق وی توں“ گانا شروع کیا تو محفل کا رنگ ہی تبدیل ہو گیا۔ فرمائشوں کا سلسلہ 5 گھنٹے تک دراز ہو گیا اور یوں پٹھانے خان کو خواجہ صاحب کے کلام کے حوالے سے شناخت ملنی شروع ہو گئی۔ خطے کی ہر محفل میں پٹھانے خان کی موجودگی کامیابی کی علامت سمجھی جانے لگی۔ کچھ ہی عرصے بعد بڑی ریکارڈنگ کمپنی نے خاں صاحب کے والیم ریلیز کر دیئے۔ 1970ءمیں جب ریڈیو ملتان کا آغاز ہوا تو یہ پٹھانے خان کے عروج کا زمانہ تھا۔ ریڈیو ملتان کے پہلے ایس ڈی شمس الدین بٹ اور ان کے دوسرے ساتھیوں چوہدری بشیر احمد (محترم فرخ بشیر کے والد محترم) اور خواجہ عمر نے پٹھانے خان کی گائی ہوئی میڈا عشق وی توں ریکارڈ کر کے آن ایئر کی تو شہرت کی باندی اس کے سامنے اپنے ہاتھ باندھے کھڑی تھی۔ پٹھانے خان کی گائیکی کا یہ سفر ریڈیو، ٹی۔وی سے ہوتا ہوا اقتدار کے ایوانوں تک پہنچا لیکن پٹھانے خان کے حالات تبدیل نہ ہوئے کہ ان کو ہاتھ پھیلانا ہی نہیں آتا تھا۔ پی۔ٹی۔وی لاہور کے سابق پروگرام منیجر مشتاق صوفی ان سے خاص محبت کرتے اور بار بار ٹی وی ریکارڈنگ کے لیے لاہور بلاتے۔ 4 بیٹے اور 7 بیٹیاں ہونے کے باوجود انہوں نے کبھی تنگ دستی کا اظہار نہ کیا ساری زندگی مفلسی اور بدحالی کے باوجود اﷲ کے شاکر رہے۔
مَیں ڈاکٹر ڈاکٹر عباس برمانی، مستنصر حسین تارڑ، رضی الدین رضی اور محمد بقاءشیخ کی معیت میں ڈیرہ غازی خان جا رہا تھا۔ سب ”میڈا عشق وی توں میڈا یار وی توں“ سن رہے تھے اور خواجہ فرید کی اس کافی کو گا کر لافانی کرنے والا اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملا تھا۔ اور مَیں زیرِ لب یہ مصرعہ پڑھ رہا تھا:
منگاں دُعائیں اﷲ سائیں
وچھڑیا ڈھول ملائیں
( بشکریہ : روزنامہ ایکسپریس )
فیس بک کمینٹ