ہم میں سے جب بھی کوئی اس راہ سے گذرتا تو اس چوکھٹ کو چوم کر گذرتا۔ وہ پرانے طرز کی سفید کوٹھی تھی جس کے قریب ہی سگریٹ والے کا کھوکھا تھا جس سے راہ چلتے لوگ بھی فیض یاب ہوا کرتے ہوں گے لیکن اس کا اصل گاہک تو بابو تھا۔ کوٹھی کے گیٹ کی کھڑکی دن میں کئی بار کھلتی، پہلے اس میں سے گھونگھریالے بالوں والا ایک سر برآمد ہوتا پھر ایک جھٹکے کے ساتھ جسم کا باقی حصہ بھی۔ وہ تیر کی طرح بھاگتا ہوا کھوکھے پر جاتا۔ سگریٹ کی چند ڈبیاں پکڑتا اور زن سے واپس، یہ بابو تھا۔ کچھ دیر کے بعد بابو پھر برآمد ہوتا، پان کی چند گلوریاں بنواتا اور پھر اندر۔ یہ آمد و رفت دن بھر جاری رہتی لیکن کبھی کبھی اس میں وقفہ بھی آجاتا، اس دوران پان سگریٹ والے کی پریشانی دیکھنے سے تعلق رکھتی۔
کوٹھی میں داخل ہو کر بابو چبوترے پر چڑھتا اور دائیں جانب کمرے میں داخل ہوجاتا۔ اس کمرے کی کئی شناختیں ہیں۔ مثلاً استاد اللہ بخش۔ چھت سے ذرا نیچے کمرے کی چاروں دیواروں پر استاد کی بنائی ہوئی روغنی تصاویر آویزاں ہیں جن میں غالب کے اشعار کو مصور کیا گیا ہے۔ ایک زمانے میں، میں نے ان تصاویر کو گننے کی کوشش کی تھی جس پر پروفیسر ریاض احمد شاد نے کہا:
”انھیں دیکھو اور آنکھوں میں اتارلو، ایک چھت تلے استاد کی اتنی تصویریں کہیں اور نہیں ملیں گی“۔
ان تصویروں کے نیچے دیواروں کے ساتھ تین طرف کرسیاں لگی رہتیں، پرانی طرز کی آرام دہ کرسیاں، ادھر گورنمنٹ کالج کی رونقیں ماند پڑتیں، اُدھر یہ کمرہ آباد ہوجاتا۔ قہقہے بلند ہوتے، سگریٹ کا دھواں اڑتا اور جملے پر جملہ چلا آتا۔ ایک منظر دیکھیے، ایک صاحب سوٹ بوٹ میں تنے بیٹھے ہیں۔ تھوڑی ہی دیر پہلے یہ صاحب اپنی شہرہ آفاق سائیکل سے اتر کر تقریباً پریشانی کے عالم میں کمرے میں داخل ہوئے تھے۔ کمرے میں داخل ہوکر خاموشی کے ساتھ ایک جانب بیٹھ گئے۔ بابو انہیں آتا دیکھ کر چائے کی تیاری میں لگ چکا تھا۔ چائے پیتے ہوئے دو ایک بار انھوں نے ہوں ہاں کی پھر اچانک اٹھ کھڑے ہوئے۔
”کتھے چلے او؟“۔
سوال ہوا:
”کپڑے لاہ آواں“۔
”ایتھے ای لاہ دیو“۔
اس بے تکلفی پر ان کے سنجیدہ چہرے پر بھی مسکراہٹ کے پھول کھل اُٹھے اور وہ کچھ کہے بغیر دوبارہ اپنی کرسی میں پھنس گئے۔ وہ جنھیں کپڑے اتارنے کی جلدی تھی، اوراق کے شریک مدیر پروفیسر سجاد نقوی تھے اور جنھوں نے انھیں کپڑے یہیں اتار دینے کا مشورہ دیا، ڈاکٹر وزیر آغا تھے جو زیادہ تو نہیں بولتے تھے لیکن جب بھی بولتے قہقہے ابل پڑتے۔
کیسے کیسے عالی دماغ اس محفل کی زینت تھے؟ ان میں دو کی شہرت اپنے سائیکلوں کی وجہ سے تھی، یعنی پروفیسر سجاد نقوی اور پروفیسر ڈاکٹر خورشید رضوی۔ ان کے علاوہ جو بزرگ اس کمرے کی زینت میں اضافہ کرتے، ان میں پروفیسر غلام جیلانی اصغر اور ڈاکٹر انور سدید نمایاں تھے۔ کبھی کبھار کچھ اور لوگ بھی آجاتے۔ باتوں کا دور چلتا رہتا اور اس کے ساتھ ساتھ سگریٹ کا دھواں بھی اڑتا رہتا۔ اس محفل میں سب سے اونچا قہقہہ اور سب سے بلند آہنگ جملہ پروفیسر غلام جیلانی اصغر کا ہوتا۔ ہنستے ہنستے وہ سامنے تپائی پر پڑی سگریٹ کی ڈبیا اٹھاتے، دیکھے بغیر اسے کھولتے اور سگریٹ نکالنے کی کوشش کرتے۔ کچھ دیر وہ انگلیوں سے ڈبیا کو ٹولتے رہتے پھر جب انہیں یقین ہوجاتا کہ سگریٹ اس میں نہیں ہے تو خود کار طریقے سے آواز دیتے:
”بابو“
اور بابو الہ دین کے جن کی طرح کہیں سے نکلتا اور جھٹ سے سگریٹ پیش کردیتا۔ اتنے میں چائے ختم ہوجاتی اور رضوی صاحب ایک خاص نظر چائے کی خالی پیالی پر ڈالتے، بابو پھر کہیں سے نکل آتا، چائے کی خالی پیالیاں سمیٹتا اور تھوڑی ہی دیر میں دھواں اڑاتی چائے لا رکھتا۔ یہ سب مناظر 58-سی ریلوے روڈ کے تھے جسے ڈاکٹر وزیر آغا کا گھر ہونے کا شرف حاصل تھا۔ یہ گھر شہر کے ایک سہ راہے پر واقع ہے۔ آپ ریلوے اسٹیشن جارہے ہوں، گھر سے پیسے چرا کر سنیما جانا چاہتے ہوں یا آپ کا رخ سیٹیلائیٹ ٹاؤن کی طرف ہو، آپ کو بہرصورت یہیں سے گزرنا ہے اور آپ اس راہ سے گذریں گے تو اس چوکھٹ کو ضرور چومیں گے۔ اگر چہ یہ گھر بہت نمایاں نہیں، اس کے صدر دروازے کی تختی بھی کوئی کچھ زیادہ جلی حروف میں نہیں تھی لیکن شہر بھر میں اس کا شہرہ تھا۔ کچھ ایسا ہی معاملہ اُس کمرے میں بیٹھنے والوں کا بھی تھا۔ ان لوگوں میں صاحب خانہ کبھی نمایاں نظر نہیں آتے تھے، مہمانوں کے درمیان ہی یا کسی کونے میں بیٹھے رہتے مگر مرکز نگاہ رہتے۔ آغا صاحب مزے کا جملہ بولتے، اونچا قہقہہ لگاتے اور صوفیوں کی طرح ہمیشہ غیر نمایاں جگہ پر بیٹھتے۔ تقریبات کے معاملے میں بھی وہ ایسے ہی تھے، پروفیسر غلام جیلانی اصغر اور ڈاکٹر انور سدید یا دیگر دوستوں کی پذیرائی کے لیے منعقد ہونے والی تقریبات میں تو وہ بڑے اہتمام سے شرکت کرتے لیکن یہی دوست اگر ان کی کسی کتاب کے اجرا وغیرہ کے بہانے ان کے اعزاز میں تقریب منعقد کرتے تو غائب ہوجاتے اور ان کے احباب پیٹھ کے پیچھے ہی ان کی تعریف سے کام چلانے پر مجبور ہوتے۔ ان محفلوں میں صرف ہنسی مذاق کی باتیں ہی نہ ہوتیں، بڑے سنجیدہ عالمانہ مباحث بھی سننے کو ملتے۔ وہ سردیوں کے دن تھے، تعلیمی اداروں میں تعطیلات تھیں، شاید یہی وجہ تھی کہ اُس روز صبح کوئی دس بجے ہی ان بزرگوں کی محفل جم گئی۔ اُن دنوں سرگودھا کی سردی جسم میں داخل ہوکر خون کو منجمد کردیا کرتی تھی، اس لیے آغا صاحب کی خواہش پر لوگ برآمدے میں آبیٹھے جہاں صبح کی دھوپ کی خوش گوار تپش جسم و جاں کو راحت پہنچاتی تھی۔ آغا صاحب نے سامنے گول میز پر دھواں اڑاتی چائے کی پیالی پر ایک نگاہ ڈالی، مسکرائے اور کسی مغربی مفکر کا نام لے کر کہا کہ اس نے کچھ انصاف نہیں کیا۔ حاضرین محفل چونکے اور کسی صاحب نے پوچھا کہ کس بارے میں انصاف نہیں کیا؟۔ ”یہی کہ اسلام کے بارے میں اُس نے لکھا مگر ایسا لگتا ہے کہ وہ اس کی مبادیات سے بھی واقف نہیں“۔
یہ گفتگو تھوڑی دیر چلی پھر کرکٹ موضوع بحث آگئی، فرمایا:
”کرکٹ دیکھنے کا جو مزہ سردیوں میں ہے، کسی اور موسم میں نہیں“۔
غلام جیلانی اصغر صاحب، نقوی صاحب اور دیگر بزرگوں نے ان کی ہاں میں ہاں ملائی تو ایک دم اٹھ کھڑے ہوئے اور کہا:
”چلو فیر ٹیسٹ ویکھیے“۔
آغا صاحب ادب کے سنجیدہ مباحث کی گتھیاں سلجھاتے، انشائیے کی تعریف متعین کرتے، اسلام کے بارے میں دنیا بھر میں ہونے والے مباحث سے آگاہ رہتے لیکن اس کے ساتھ تفریحات سے بھی لطف اندوز ہوتے، ان کی سب سے بڑی تفریح ٹیلی ویژن پر کرکٹ میچ دیکھنا تھی۔
وہ بچے اور نوجوان جنھیں پیدا ہوتے ہی ادب کی چاٹ لگ جاتی ہے، اگر وہ شاعری نہیں کرتے تو انشائیے پر طبع آزمائی ضرور کرتے ہیں۔ یہی کام میں نے بھی کیا اور انشائیوں بھری بیاض لے کر ڈاکٹر صاحب کی خدمت میں پہنچ گیا۔ میرے ساتھ اشفاق احمد کاشف بھی تھا۔ یہ جنوری کے دن تھے اور ہم برآمدے میں بیٹھے تھے۔ سنہری دھوپ سے جسم کو حرارت مل رہی تھی اور بابو کی چائے کا اپنا مزہ تھا۔ اشفاق نے ایک نظم پیش کی۔ دسمبر نے ابھی حال میں ہی دم توڑا تھا، یہ نظم اسی کا مرثیہ تھی۔ ڈاکٹر صاحب نے نظم دیکھی اور کہا:
”اس میں ابھی کہنے کی گنجائش بہت ہے“۔
اشفاق کی بولتی بند ہوگئی۔ اب میں نے اپنے انشائیوں کی ”کتاب“ ان کی خدمت میں پیش کی۔
انہوں نے ورق گردانی کرتے ہوئے فرمایا:
”یہ انشائیے نہیں ہیں“۔
مجھ پر بھی گھڑوں پانی پڑ گیا۔ اب ڈاکٹر صاحب کو احساس ہوا کہ کچھ خرابی ہوگئی ہے۔ انھوں نے ہمیں تسلی دی اور فرمایا:
”انور سدید اور غلام جیلانی اصغر کے انشائیے بھی انشائیے نہیں ہیں“۔
اب ہمیں حوصلہ ہوا اور سوال کیا:
”پھر انشائیہ کیا ہوتا ہے؟“۔
”انشائیہ اون کا گولہ ہوتا ہے“۔
ڈاکٹر صاحب نے چائے کی چسکی لی اور ہمدردی سے ہماری طرف دیکھتے ہوئے بات جاری رکھی:
”جس طرح یہ معلوم نہیں ہوتا کہ رنگ بہ رنگی اون کا گولہ کھولتے جائیں گے تو کس کس رنگ کی اون برآمد ہوگی، اودی، نیلی، پیلی، ہری یا سرخ؟ اسی طرح انشائیہ بھی ہے۔ بس! بے ارادہ اور بے اختیار لکھتے چلے جائیں پھر اون کے اس گولے سے جو رنگ بھی برآمد ہو جائے“۔
انہوں نے بات مکمل کی۔
”اس معیار پر کون پورا اترا؟“۔
ہم نے ڈرتے ڈرتے سوال کیا۔
”ایک تو سلیم ہے“۔
ان کا اشارہ اپنے صاحبزادے سلیم آغا قزلباش کی طرف تھا۔
”پھر میں نے جو لکھا، باقی لوگ انشائیے کو سمجھ نہیں سکے“۔
اس مکالمے کے بعد میں وہیں بیٹھے بیٹھے انشائیہ نگاری سے تائب ہو گیا۔ اب میری سمجھ میں آچکا تھا کہ اس مایہ ناز ادیب کا کینو کیوں آسانی سے چل گیا اور انشائیہ کیوں نہ چل سکا۔
( کتاب : جو صورت نظر آئی )
فیس بک کمینٹ