”ایمرجنسی ڈیپارٹمنٹ سے کال آئی ہے۔
بتیس ہفتے کی حاملہ عورت پیٹ درد کے ساتھ آئی ہے، بلڈ پریشر کم ہو رہا ہے۔ بچے کے دل کی دھڑکن ٹھیک ہے۔ درد، درد زہ نہیں۔ ریڈیالوجسٹ نے الٹرا ساؤنڈ کی رپورٹ پہ لکھا ہے کہ جگر کے گرد بہت سا پانی جمع ہے۔ شاید جگر کا کوئی مسئلہ ہے۔ کیا کریں؟ گائنی کا مسئلہ تو نہیں لگ رہا ہمیں۔
بلڈ پریشر کتنا ہے؟ ہم نے پوچھا
اسی بٹہ پچاس۔ جواب ملا۔
نبض؟
ایک سو بیس سے ایک سو پینتیس تک۔
ویجائنا سے کوئی بلیڈنگ؟
نہیں، کچھ نہیں۔
پیٹ کو چیک کرتے ہوئے کوئی اشارہ؟
پیٹ کافی اکڑا ہوا ہے، جہاں ہاتھ لگاؤ، مریضہ اچھل پڑتی ہے۔
آپریشن تھیٹر کو الرٹ کریں۔ چار بوتل خون تیار کروائیں۔ آپریشن کی اجازت لیں۔ میں آ رہی ہوں۔
آپریشن؟
کیا سیزیرین؟
لیپاروٹومی ( Laparotomy ) اور sos سیزیرین۔
یہ تھی وہ کال جو ہم نے ہسپتال سے ریسیو کی۔ ایمرجنسی ڈیپارٹمنٹ نے ہماری طرف اس لئے ریفر کیا تھا کہ مریضہ حاملہ تھی۔ ریڈیالوجسٹ کا کہنا تھا کہ جگر کے گرد بڑی مقدار میں مائع جمع ہے جو خون ملا پانی ہو سکتا ہے۔ سرجری ڈیپارٹمنٹ کو شک تھا کہ جگر کا کوئی مسئلہ ہے لیکن جگر کے بلڈ ٹیسٹس ٹھیک تھے۔ ایک اور سوال اپینڈیکس کے بارے میں تھا کہ کہیں وہ تو نہیں پھٹ گیا؟ ریڈیالوجسٹ کا کہنا تھا کہ اپینڈیکس کا معاملہ نہیں ہے۔
سوال منہ پھاڑے کھڑا تھا کہ مسئلہ کیا ہے آخر؟
حاملہ عورت کو اگر کوئی بھی تکلیف ہو اس میں پہلی ذمہ داری گائنی ڈیپارٹمنٹ کی ہوتی ہے۔ اگر گائنی سے متعلق سب امور ٹھیک ہوں تب باقی ڈیپارٹمنٹس غور کرتے ہیں کہ کیا کیا جائے؟
اس کیس میں کچھ بھی واضح نہیں تھا۔ زچگی کا عمل شروع نہیں ہوا تھا سو درد اس وجہ سے نہیں تھا۔ بچے کے دل کی دھڑکن بالکل ٹھیک تھی، سی ٹی جی بہت اچھی تھی۔ مریضہ کو تقریباً اڑتالیس گھنٹے پہلے درد شروع ہوا تھا جو اب شدید ہو چکا تھا۔گاڑی چلاتے ہوئے ہم نے تمام ممکنات پہ غور کیا۔ پہلے سب بچے نارمل پیدا ہوئے تھے۔ آنول بھی اوپر تھی، آنول کے پھٹنے کے آثار یوں نہیں تھے کہ بچہ ٹھیک تھا۔ ورنہ آنول اگر پھٹ جائے تو بچے کے دل کی دھڑکن فوراً خراب ہو جاتی ہے۔
مریضہ کی حالت خراب ہو رہی تھی۔ بلڈپریشر گرنے کا ایک ہی معنی تھا کہ ہمیں فوراً کچھ کرنا ہے۔ہم نے سوچ لیا تھا کہ ہم پیٹ کھولیں گے، شاید کچھ پتہ چل سکے۔ تبھی مریضہ کی جان بچائی جا سکتی تھی۔ہسپتال پہنچ کر دیکھا تو مریضہ کی رنگت پیلی پڑ چکی تھی۔ ہیموگلوبن آٹھ تھا۔ ہم نے نرسری ڈاکٹر کو کال کر لیا۔ ہمیں سیزیرین کرنے کی ضرورت پڑ سکتی تھی۔
آپریشن تھیٹر لے جا کر اللہ کا نام لیتے ہوئے پیٹ کھولا۔ آخری پرت کٹنے سے پہلے ہی اندازہ ہو گیا کہ پیٹ خون سے بھرا ہوا ہے۔ کیا یہ خون جگر سے آ رہا ہے یا تلی سے؟ یہ خون ہی تھا جسے ریڈیالوجسٹ نے جگر کے گرد مائع کی شکل میں دیکھا تھا۔
آخری پرت کٹ گئی تو خون باہر کی طرف ایسے نکلا جیسے کوئی نلکا کھل گیا ہو۔ ایسے میں بہتر یہی تھا کہ بچہ نکال لیا جائے۔ بتیس ہفتے کے بچے کو انکیوبیٹر کے سہارے آرام سے بچایا جا سکتا ہے
بچہ نکالنے کا سب سے بڑا مقد یہ تھا کہ اس کے بعد بچے دانی پیٹ سے باہر نکال کر پیٹ کا تفصیلی جائزہ لیا جائے کہ بلیڈنگ کہاں سے ہو رہی ہے؟لیجیے جناب بچہ حوالے کیا ہم نے نرسری کے ڈاکٹر کو اور آنول کو نکالنے کی کوشش کی۔ بچے کی پیدائش کے بعد آنول خود بخود بچے دانی سے علیحدہ ہونا شروع کر دیتی ہے اور نال کو ہلکا سا کھینچا جائے تو آنول آرام سے باہر آ جاتی ہے۔اب عالم یہ تھا کہ ہم نال کو پکڑے کھڑے تھے کہ آنول آتی دکھائی دے تو ہم ہلکا سا کھینچیں اور وہ مکمل باہر نکل آئے۔
تیس سیکنڈ، چالیس سیکنڈ، پچاس سیکنڈ، ایک منٹ۔ آنول اپنی جگہ پر قائم تھی۔ چونکہ پیٹ سے خون ابھی بھی ابل رہا تھا اور ہمیں بچے دانی باہر نکالنے کی جلدی تھی سو ہم نے نال کو تھوڑا کھینچا۔ آنول نہیں آئی۔ کچھ اور کھینچا۔ کچھ نہیں ہوا۔ ہم نے جھنجھلا کر بچے دانی باہر نکال لی کہ آنول نکلتی رہے گی باہر، خون سے بھرے پیٹ کو تو دیکھ لیں کہ معاملہ کیا ہے؟
جونہی آنول سمیت بچے دانی باہر نکلی، ہم سب کے منہ سے کچھ بے اختیار سی آوازیں نکلیں۔ بچے دانی کے اوپری گنبد نما حصے ( fundus) پہ ایک پھول نما گروتھ تھی جس سے خون رس رہا تھا۔ اوہ میرے خدایا یہ تو آنول ہے۔ ہمارے منہ سے نکلا۔فنڈس پہ لگی آنول بچے دانی کی دیوار میں سیندھ لگا کر باہر نکل چکی تھی۔اب سب سمجھ گئے کہ یہ پلیسنٹا پرکریٹا placenta percreta کا معاملہ ہے لیکن فنڈس پہ پلیسنٹا پرکریٹا؟ بات کچھ سمجھ میں آئی نہیں۔پلیسنٹا پر کریٹا بچے دانی میں اس جگہ بنتا ہے جہاں پچھلے کسی آپریشن میں بچے دانی کاٹی گئی ہو۔ چونکہ یہ حصہ کمزور ہوتا ہے سو آنول جا کر وہیں چپک جاتی ہے اور اس کمزور حصے کے اندر اپنی جڑیں بنانا شروع کرتی ہے۔ برگد کے درخت کی طرح جڑیں پھیلتی پھیلتی بچے دانی کی دیوار سے باہر نکل جائیں تو آنول پلیسنٹا پرکریٹا کہلاتی ہے۔ سیزیرین میں بچے دانی کے نچلے حصے کو کاٹ کر بچہ نکالا جاتا ہے اس لیے پرکریٹا ہمیشہ وہیں بنتا ہے۔
لیکن ہماری مریضہ میں پرکریٹا فنڈس یعنی بچے دانی کے گنبد نما اوپری حصے پہ بنا تھا۔ پرکریٹا ویسے ہی بہت rare مسئلہ ہے اور اوپر سے فنڈس پہ پرکریٹا بننا۔ انتہائی انتہائی rare سمجھ لیجیے۔ہم نے اپنی بتیس سالہ گائنی کی زندگی میں یہ پہلی بار دیکھا تھا اور جب ہم نے گوگل چاچا سے پوچھا تو علم ہوا کہ پچھلے ستر برس میں دنیا بھر میں صرف ایک سو بارہ ایسے کیس رپورٹ ہوئے ہیں جہاں فنڈس پہ پلیسنٹا پرکریٹا بنا ہو۔ہر صورت حال میں تشخیص کے بعد اگلا مرحلہ یہ ہوتا ہے کہ کیا کیا جائے؟ فوراً فیصلہ کرتے ہوئے ہم نے بچے دانی نکالنے کا سوچا اور آپریشن تھیٹر میں اعلان بھی کر دیا۔ نرسیں فوراً اوزار لے آئیں، خون کی بوتلیں تو پہلے ہی تیار تھیں۔
ہسٹرکٹمی کرتے ہوئے ہم بہت خوش تھے۔ ہماری چھٹی حس نے ہمیں دھوکہ نہیں دیا تھا اور ہم نے ایک ایسا کیس دیکھ لیا تھا جو میڈیکل جرنلز میں رپورٹ کرنے کے قابل تھا۔ لیکن ساتھ میں ہم یہ بھی سوچ رہے تھے کہ اگر یہ عورت پاکستان کے کسی دور دراز علاقے میں ہوتی تو کیا ہوتا؟
لگتا ہے ہمیں عورت روگ لگ گیا ہے اور وہ بھی پاکستانی عورت کا۔ اس کی تکلیفیں اور اس کے آنسو، اس کی زندگی اور موت ہم ہر روز محسوس کرتے ہیں۔
لیجیے جناب ہم رپورٹ کرنے جا رہے ہیں دنیا میں ایک سو تیرہواں کیس!
(بشکریہ:ہم سب)
فیس بک کمینٹ